Express News:
2025-04-22@06:30:28 GMT

ہمارا نوجوان ترقی میں دنیا سے پیچھے کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

موجودہ دور میں جب ملک کی آبادی کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ملک میں نوجوانوں کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی میں دیگر صنف کی نسبت زیادہ ہے۔

حیرت انگیز طور پر 30 سال سے کم عمر نوجوان اس ملک کی کل آبادی کا 64 فیصد ہیں۔ اس طرح ساؤتھ ایشیا ریجن میں پاکستان نوجوانوں کی اس تعداد کے ساتھ دوسرا بڑا ملک ہے۔ اس لیے حکومتیں کوئی بھی منصوبہ بندی کرتے وقت نوجوانوں کو مدنظر رکھتی ہیں اور اسی کے مطابق منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

دوسری طرف نوجوانوں کے ذریعے ہی مثبت اور منفی تبدیلی کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ جیسے ماضی میں ہم دیکھتے چلے آئے ہیں کہ ہر سیاسی و مذہبی جماعت میں نوجوانوں کی شمولیت ناگزیر رہی ہے اور پھر اسی بریگیڈ کو سیاسی و مذہبی جماعتیں استعمال کرتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہمارا نوجوان جلدی سے ان جماعتوں کے پیچھے کیوں لگ جاتا ہے؟ کیوں اپنی تعلیم کو اپنی ترقی کو خیر باد کہہ کر کسی کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ کیوں مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ کر ترقی کے میدان میں دنیا کے نوجوانوں سے پیچھے رہ جاتا ہے؟ میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کا یکساں نہ ہونا ہے۔

آپ ملاحظہ کیجیے ملک میں اس وقت کم و بیش تین طرح کے نظام تعلیم موجود ہیں۔ ایک نظام تعلیم وہ ہے جس میں غریب طلبا کی بھرمار ہے، جس میں دیہاتوں اور شہروں کے غریب بچے پڑھتے ہیں اور جو سرکاری طور پر اسکولوں میں رائج ہے۔ ماضی میں یہ نظام تعلیم بہت عمدہ تھا۔ اساتذہ محنت کرتے تھے۔ نصاب بنانے پر بھی خاصی توجہ دی جاتی تھی۔ اسکولوں میں طلبا اور اساتذہ کی حاضری سو فیصد تھی۔ سرکاری اسکولوں میں داخلے کےلیے انٹری ٹیسٹ دینا پڑتا تھا اور اسکولوں میں ہاؤس فل جیسی صورتحال تھی لیکن جیسے ہی نجی اور پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیم کے شعبے میں قدم رکھا، ایک ایسی سوچ پیدا کردی گئی کہ سرکاری اسکولوں سے تعداد کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہوگئی۔ اب ان اسکولوں میں جہاں طلبا کی پرفارمنس سو فیصد رہتی تھی، اُس پر سوالیہ نشان نظر آرہا ہے۔

اب صورتحال یہ کہ کتابیں مفت، فیس معاف لیکن اس کے باوجود بھی گورنمنٹ اسکولوں میں والدین اپنے بچوں کا داخلہ کروانے سے گریزاں ہیں۔ حتیٰ کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کے بچے بھی پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یکساں تعلیمی نصاب کا نہ ہونا ہے۔ کیونکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ نجی و پرائیویٹ سیکٹر کے اسکولوں میں بہتر تعلیم دی جا رہی ہے تو پھر وہ ان اسکولوں میں داخلہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انہیں یہ باور کرا دیا گیا ہے ان اسکولوں میں تعلیم پانے سے ہی آپ کا بچہ کامیاب ہوسکتا ہے۔

ملک میں دوسرا نظام تعلیم پرائیویٹ اور نجی اسکولوں کا ہے جو آپ کو جگہ جگہ، گلی محلوں میں نظر آئیں گے۔ حیرت انگیز طور پر ان میں سے بیشتر اسکول کرایے کے مکانوں میں نظر آتے ہیں۔ جن میں نہ کوئی کھیلنے کو گراؤنڈ ہے اور نہ ہی انڈور گیمز کےلیے جگہ ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ ٹیچرز۔ فیسوں کےلیے اُن کا اپنا طریقہ کار ہے لیکن نام محض انگلش میڈیم ہیں، کتابیں بھی انگلش میں ہیں لیکن اس کے باوجود بچوں کو انگلش نہیں آتی۔ حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے ناموں کے اسکولوں کے بچوں کو انگریزی نہیں آتی کیونکہ کتابیں انگریزی میں ہونے کے باوجود پڑھایا اردو میں جاتا ہے۔ یہ ایک عجیب سی صورتحال ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو انہیں انگریزی آتی ہے اور نہ ہی ٹھیک سے اردو آتی ہے، یعنی آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والی صورتحال ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی بچہ بہتر طور پر لکھ سکے ورنہ بڑی تعداد اچھی لکھائی اور پڑھائی سے محروم ہے۔

ملک میں تیسرا نظام تعلیم اشرافیہ اور امرا کےلیے ہے اور بڑے اسکول ان کےلیے مخصوص ہیں، ان اداروں میں غریب اور متوسط طبقے کے بچے کا پڑھنا کسی خواب سے کم نہیں۔ ان اداروں سے نکلنے والے بچے بیوروکرویٹس، سیاست اور بزنس مین بنتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ملک کے تیسرے نظام تعلیم کے اسکولوں میں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کی جاتی ہے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اسے زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی رہنے کے آداب، قائدانہ صلاحیتوں کے گر اور ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان تعلیمی اداروں کی فیسیں بے تحاشا ہیں اور باوجود بہت زیادہ فیسوں کے یہاں داخلہ ملنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ بڑی بڑی سفارشیں کرائی جاتی ہیں، داخلہ کےلیے امتحان لیا جاتا ہے اور خاصی تگ و دو کے بعد داخلہ ملتا ہے اور اگر کسی بااثر فرد کے بچے کو داخلہ نہ ملے تو پھر ادھر اسکینڈل کا بننا لازمی امر ہے۔ ماضی میں ایسے ہی اسکینڈل کی وجہ سے ایک بڑے اسکول کے غیر ملکی پرنسپل کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا تھا۔

کم و بیش یہی صورتحال ہمارے پڑوسی ملک میں بھی ہے اور اسی طرح وہاں میڈیا کے ذریعے ان کے تعلیمی نظام پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور وہ اپنی فلموں اور میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اس طرح کے موضوعات منظر عام پر لاتے رہتے ہیں۔ تعلیم کے موضوع پر انہوں نے فلم آراکشن، پاٹ شالہ اور ہندی میڈیم (اس فلم میں پاکستانی آرٹسٹ صبا قمر نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے) میں ہندی نظام تعلیم پر سوالات اٹھائے ہیں اور اس میں اگر کچھ غلط ہورہا ہے تو اس کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔

ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے مختلف حوالوں سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ جیسے یکساں نصاب تعلیم کا مسئلہ ہمیشہ ہی اٹھایا گیا ہے۔ قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کےلیے گزشتہ 77 سال سے آواز اٹھائی جا رہی ہے اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کا 2015 کا تاریخی فیصلہ بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود انگریزی زبان کے بغیر تدریس کا عمل ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں تجویز پیش کی جاتی رہی کہ انگریزی کو لازمی کے بجائے اختیاری زبان کا درجہ دیا جائے لیکن تاحال ایسا ممکن نہیں ہوا۔

ایسا فرض کرلیا گیا ہے کہ انگریزی کی تدریس کے بغیر ترقی کا ہونا ممکن نہیں۔ اگر اس مفروضے کو مان لیا جائے تو دنیا میں ایسے بیشتر ملک موجود ہیں جن میں فرانس، جاپان، چین، جرمنی، روس، ایران، ترکی اور نہ جانے ایسے کتنے ہی ملک ہیں جنہوں نے اپنی مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا اور اسی میں ترقی کی۔ وہ اگر کسی دوسرے ملک کے طالب علم کو اسکالرشپ دیتے ہیں تو آپ کو ان کے ملک کی زبان آنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ چائنا اور ترکی جانے کے خواہشمند افراد کو ان ممالک کی زبان سکھانے کےلیے ہمارے ملک میں ان کی زبان سیکھنے کے کوچنگ سینٹر نظر آئیں گے۔

میں انگریزی زبان کا مخالف نہیں ہوں اور اسے ترقی کی علامت بھی سمجھتا ہوں لیکن اس کےلیے ضروری ہے کہ جن تعلیمی نظاموں کا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے وہاں وہی انگریزی پڑھائی جائے جو تیسرے قسم کے نظام تعلیم میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں میرا مشورہ ہے کہ تعلیمی نصاب صرف مرکز یعنی وفاقی سطح پر بنایا جائے اور تمام صوبوں پر اس کا اطلاق ہونا چاہیے۔ اگر انگریزی میں تعلیم دینا اتنا ہی ضروری ہے تو انگریزی اساتذہ کا بندوبست ملک کے دور دراز کے اسکول میں بھی ہونا چاہیے۔ ان اسکولوں میں بھی وہی سہولیات دی جانی چاہئیں جن کی وجہ سے اس دور دراز کے گاؤں کے بچے بھی بڑے شہروں کے بچوں کا مقابلہ کرسکیں اور وہ دنیا بھر میں بچوں کا مقابلہ کرسکیں۔ کتنی تکلیف ہوتی ہے کہ جب دوسرے ملکوں کے ادارے ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ کے ملک کے اتنے لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم 77 سال کے باوجود ہم سو فیصد شرح خواندگی پر نہیں پہنچ سکے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم سے علیحدہ ہونے والا ملک ہم سے تعلیم کے مقابلے میں کہیں آگے نکل گیا ہے۔

آپ انگریزی زبان کا اثر ہمارے معاشرے پر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں بولنے والی زبان میں ہم بیشتر الفاظ انگریزی کے استعمال کرتے ہیں۔ جب اس خطے پر مسلم اُمہ کا دور دورہ تھا تو اُس وقت ہماری قومی زبان میں فارسی کے الفاظ نظر آتے تھے لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد تو گویا ایسی تبدیلی آئی کہ انگریزی برصغیر کے رہنے والوں پر مسلط کردی گئی۔ جس کا اثر انگریزوں کے جانے کے بعد آج تک باقی ہے۔ موجودہ دور میں آپ مشاہدہ کریں کہ ملک بھر میں ہماری دکانوں، ہوٹلوں اور اسکولوں کے نام انگریزی میں رکھے جاتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل فیس بک اور انسٹا گرام پر پیغامات کی رسانی اردو میں ضرور کرتی ہے لیکن وہ اردو انگریزی میں لکھی ہوتی جسے وہ بڑے فخر سے رومن اردو کا نام دیتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے یکساں نظام تعلیم پر توجہ دے اور قومی زبان کی تعلیم کے حوالے سے غور و فکر کرے۔ انگریزی زبان کو تعلیم میں اختیاری حیثیت دی جائے اور طلبا کو چوائس دی جائے کہ وہ قومی زبان اور انگریزی دونوں میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ تب کہیں جا کر ہمارا نوجوان صحیح معنوں میں ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکے گا ورنہ ہم مستقبل میں بھی یہ راگ الاپ رہے ہوں گے کہ ہم کون سی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر اپنے نوجوانوں کو ترقی یافتہ ملکوں کے نوجوانوں کی صف میں کھڑا کرسکیں گے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ان اسکولوں میں نوجوانوں کی نظام تعلیم لیکن اس کے میں تعلیم کے باوجود تعلیم کے کے اسکول تعلیم پر میں بھی جاتا ہے ہیں اور کی جاتی جاتی ہے کے ساتھ ملک میں ملک کے کے بچے اور نہ ہیں کہ گیا ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

تسخیر کائنات اور سائنسی ترقی کا لازم فریضہ

سٹیفن ہاکنگ کی کتاب، “وقت کی مختصر تاریخ” میں ایک بات دل کو لگی۔ راقم الحروف نے پوری کتاب پڑھی مگرماسوائے اس ایک بات کے کتاب کا دوسرا کوئی اقتباس یاد نہ رہا۔ آپ اسے کتاب کا ماحصل” بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہاکنگ مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ، “کچھ ستارے زمین سے نوری سالوں کی اتنی دوری پر واقع ہیں کہ جب تک ان ستاروں کی روشنی زمین پر پہنچتی ہے تب تک وہ ستارے اپنی عمر پوری کر کے مرچکے ہوتے ہیں۔
“عام حالات میں روشنی کی رفتار 3لاکھ میل فی سیکنڈ ہے اور سائنس کی زبان میں “نوری سال” (Light Year) اس فاصلےکو کہتے ہیں جو روشنی ایک سال میں سفر کرتے ہوئے طے کرتی ہے۔ اس مختصر اقتباس سےایک تو یہ اندازہ ہوتا ہےکہ کائنات کتنی بڑی ہے جو اربوں کھربوں اورلاتعدادمیلوں تک پھیلی ہوئی ہےیا پھرسرے سے یہ “لامحدود” (Unlimited) ہے یعنی اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کائنات کی کیا انسان تسخیرکر سکتا ہے؟ اگر کائنات لامحدود ہے تو اس کی تسخیر کے لیئے وقت بھی لامحدود درکار ہو گالیکن جدیداور نئے علوم کی وسعت بھی لامحدود ہے۔ اس پر مستزاد انسانی دماغ اور زہن کی لامحدودیت کے سامنے مادی کائنات کا وجود بذات خود “قابل تسخیر” ہے۔ اس کے بارے قرآن پاک میں ذکر آتا ہےجس کا مفہوم یہ ہے کہ “کائنات کو تمھارے لیئے مسخر کر دیا گیا ہے،” کہ انسان قرآن پاک ہی کی روشنی میں “خلیفتہ الارض” اور احسن تقویم” بھی ہے۔
یہاں کائنات کے مسخرکردیئےجانے سےتیقن اوریقین کی وہ تصدیق ملتی ہے کہ جس سے ظاہرہوتا ہے کہ قدرت نے بنی نوع انسان کے ہاتھوں کائنات کے تسخیر ہونے کو “تقدیر” میں اور “لوح محفوظ” پر پہلے ہی لکھ دیا ہےجسے ہرحال اور ہرصورت میں مکمل ہونا ہے۔ دینی علوم میں کائنات اور انسان کے فانی ہونے کے باوجود انسان کی زندگی کے “امر” ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیاہو سکتا ہے؟ بالفاظ دیگر کائنات تب تک فنا ہو ہی نہیں سکتی (یعنی قیامت نہیں آ سکتی) جب تک وہ بنی نوع انسان کے ہاتھوں مکمل طور پر “مسخر” یا دریافت” نہ ہو جائے۔ یوں اسلام کےمطابق انسان “فاتح” اور کائنات “مفتوح” ہے۔ بنی نوع انسان اور اہل ایمان کتنےخوش نصیب ہیں کہ دین اسلام نےکائنات اوراس کےاٹل طبیعاتی قوانین کے باوجود انسان کو کائنات کے مسخر ہونے کی نوید سنائی ہے۔امریکی ادارہ “ناسا” (NASA) خلائی تحقیق پردن رات کام کررہاہےاورہرسال دوسرے ستاروں پر تحقیق اور زندگی کے آثار ڈھونڈنے کے لیے اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرتا ہے مگر اس میدان میں مسلم امہ بہت پیچھے ہے حالانکہ قرآن پاک میں کائنات اور خلائی تحقیق پر واضح احکامات موجود ہیں۔ غورسے دیکھاجائےتو طبیعات کےقوانین کو سمجھ کر ہی کائنات اور زندگی کی حقیقت” (The Reality) کو سمجھا جا سکتاہے۔ انسان کی زندگی کائنات اور زمین کی مٹی سے پھوٹتی ہے۔ اس ضمن میں ابھی تک بطور مجموعی علم کے سمندر میں انسان ساحل پر پڑے ریت کے ایک ذرے کی مانند کھڑا ہے۔ کیا نئے اور جدید علوم انسان کو وہ پل فراہم کر سکتے ہیں کہ کائنات کو انسان مسخر کر لے؟ جدید علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی کو کائنات کی وسعت، وقت اور فاصلوں کےپیمانے میں رکھ کر تولا جائے تو تاہنوز کائنات کی وسعت حالیہ علوم پر بھاری نظر آتی ہے تاآنکہ کچھ نئے اور جدید علوم کی دریافت نہ ہو جائے۔
بہرکیف قدرت نے انسانی دماغ کو وہ بھرپور صلاحیت بخشی ہے کہ دنیا میں کچھ بھی نیا ہو سکتا ہے کہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا: “آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں،محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔” لیکن مسلم دنیا یہ سوچے کہ یہ ارشاد خداوندی ہمارے لیئے اغیار بجا لائیں گے ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ قرآن پاک میں واضح طور پر ارشاد ربانی ہے جس کا مفہوم ہے کہ خدا کسی قوم )اور فرد) کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ خود بدلنے کی کوشش نہ کرے۔ مسلم امہ کو اس خواب غفلت اور تجاہل عارفانہ سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے کہ کائنات ہو، زندگی ہو یا دوسرا کوئی بھی معاملہ ہو، انہیں اپنی حالت کو خود بدلنے کی تگ و دو شروع کرنی چاہیے۔ایک اور جگہ قرآن حکیم میں آتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ مومن دنیا میں بھی کامیاب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی، اس لحاظ سے اگر مسلمان دنیا میں ناکام ہیں اور امریکہ و یورپ کے ہاتھوں غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ آخرت کی کامیابی سے بھی محروم جا رہے ہیں۔ آج کی دنیا میں انسانی معاشروں کی ساری ترقی کا دارومدار سائنس اور ٹیکنالوجی پر ہے جس میں مسلم دنیا کا ذرہ برابر بھی حصہ نہیں ہے۔ سوئی سے لے کر جہاز تک خریدنے میں مسلمان غیرمسلموں کے محتاج ہیں۔ لہٰذا دنیا میں ترقی کرنے اور کامیاب و فاتح قوم بننے کے لیئے مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم حاصل کریں۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی سہولیات سے محروم اسکولوں کو فوقیت دینے کی ہدایت
  • جدید تعلیم ہی قوم کی ترقی کا واحد راستہ ہے،جہانگیر ترین
  • ہمارا آئین اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے: صدر آصف زرداری
  • دنیا نے زراعت میں ترقی کی، ہم وقت ضائع کرتے رہے: شہباز شریف
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • مارکیٹ میں نئی تبدیلیوں کیلئے خود کو تیار رکھیں؛ احسن اقبال
  • دنیا زراعت میں آگے بڑھ گئی، ہم قیمتی وقت گنواتے رہے: وزیراعظم
  • دنیا زراعت میں آگے بڑھ گئی، ہم قیمتی وقت گنواتے رہے: وزیراعظم
  • پی ٹی آئی کے جھنڈے والا لباس کیوں پہنا؟ نوجوان گرفتار
  • تسخیر کائنات اور سائنسی ترقی کا لازم فریضہ