جرمانے ادا کر دیں یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں، چیف جسٹس کی پنجاب حکومت کو ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 9 مئی مقدمات کی حوالے سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پرعائد 22 لاکھ روپے جُرمانہ برقرار رکھتے ہوئے انسدادِ دہشتگردی عدالت راولپنڈی سے مقدمات منتقلی کی اپیلیں نمٹا دیں۔
لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے 14 جون 2024 کو پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پر نہ صرف 22 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا تھا بلکہ پنجاب حکومت کی جانب سے انسدادِ دہشتگردی عدالت راولپنڈی کے جج ملک اعجاز آصف کے خلاف دائر ریفرنس بھی خارج کر دیا گیا تھا۔
اِس فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی تھیں۔ چیف جسٹس یحیٰی آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ بینچ نے سماعت کی۔ وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ جج کا تبادلہ ہو چُکا ہے لیکن مسئلہ ہائی کورٹ کے ریمارکس اور جُرمانے کا ہے۔
مزید پڑھیں: 22 لاکھ مقدمات زیرالتوا ہونے کی وجہ فضول مقدمے بازی ہے، جسٹس منصور علی شاہ
اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ پراسیکیوٹر جنرل اور اے ٹی سی جج کے کیرئیر پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس نے پورا صوبہ چلانا ہوتا ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جج کے خلاف ریفرنس پر حکومت کو پیغام دینا تھا، لاہور ہائیکورٹ نے حکومت کو پیغام دے دیا، جس سے عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج نے بھی اتفاق کیا اور ہم بھی ہائیکورٹ کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، جرمانے ادا کر دیں یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔
انسدادِ دہشتگردی عدالت کے جج ملک اعجاز آصف نے 11 فروری 2024 کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کئی مقدمات میں ضمانتیں منظور کی تھیں۔ جس کے بعد پنجاب محکمہ جیل خانہ جات نے پنجاب پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے جج ملک اعجاز آصف کے خلاف ریفرنس دائر کیا جس میں کہا گیا کہ مذکورہ جج بانی پی ٹی آئی سے خاص ہمدردی رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے عمران خان سے جیل میں ملاقات بھی کی اور پوچھا کہ وہ اُن کے لیے کیا کرسکتے ہیں، جس کا اُنہیں اختیار نہیں تھا۔
لاہور ہائیکورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے پنجاب حکومت کا نہ صرف ریفرنس مسترد کر دیا تھا بلکہ پنجاب حکومت کی جانب سے جتنے مقدمات کی جج ملک اعجاز آصف کی عدالت سے منتقلی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں ہر کیس کے لیے 2 لاکھ روپے جرُمانہ عائد کیا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
22 لاکھ 9 مئی انسدادِ دہشتگردی عدالت راولپنڈی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پنجاب حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان لاہور ہائیکورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 22 لاکھ انسداد دہشتگردی عدالت راولپنڈی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پنجاب حکومت سپریم کورٹ ا ف پاکستان لاہور ہائیکورٹ جج ملک اعجاز ا صف پراسیکیوٹر جنرل لاہور ہائیکورٹ دہشتگردی عدالت پنجاب حکومت سپریم کورٹ چیف جسٹس کے خلاف
پڑھیں:
سموگ تدارک کیس، موٹر سائیکل رکشے بنانے والی کمپنیوں کو بند کر دینا چاہئے: لاہور ہائیکورٹ
لاہور (نوائے وقت رپورٹ+خبر نگار) سموگ تدارک کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ موٹر سائیکل رکشوں کو روکنا ضروری ہے ورنہ پورے شہر میں پھیل جائیں گے، موٹر سائیکل رکشے بنانے والی کمپنیوں کو بند کر دینا چاہیے، موٹر سائیکل رکشہ کمپنیوں کو تین ماہ میں ریگولیٹ ہونے کا وقت دیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں اسموگ کے تدارک سے متعلق کیس میں عدالت نے استفسار کیا کہ مال روڈ پر بیٹھے مظاہرین کا کیا مسئلہ ہے؟ عدالت نے وکیل پنجاب حکومت کو ہدایت کی کہ مظاہرین کا معاملہ دیکھیں اور کسی اور جگہ بٹھائیں، عدالت نے کہا کہ مظاہرین کے باعث ٹریفک مسائل بڑھ گئے۔ عدالت نے کہا کہ پی ایس ایل کی وجہ سے بھی ٹریفک بند کردی گئی، دنیا کوسکیورٹی مسائل کا تاثر نہ دیں، دس سال سے یہی ہو رہا ہے سکیورٹی بہتر نہیں ہوئی، کھلاڑیوں کو سکیورٹی دیں پورا شہر بند نہ کریں، پورا شہر بند ہونے سے دنیا کو تاثر جاتا ہے کہ ملک غیر محفوظ ہے، 10 منٹ ٹریفک رکنے سے آلودگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے، آنے والے دنوں میں گرمی کی شدت بڑھے گی۔ سی ٹی او لاہور نے کہا کہ اس سے پہلے بھی اہم ایونٹس پر سڑکیں بند نہیں کیں، غیر ملکیوں کو ایسی سیکیورٹی پر کوئی اچھا تاثر نہیں جاتا، ایسی صورتحال میں غیر ملکی بھی واپس جاکر شکر ادا کرتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ہمیں علم ہے آپ کے ہاتھ بندھے ہیں، سی ٹی او لاہور نے کہا کہ بھکاریوں کے خلاف کارروائی جاری ہے، موٹر سائیکل رکشوں پر پابندی کے لیے سمری بھجوا دی ہے۔ عدالت نے کہا کہ موٹر سائیکل رکشوں کو روکنا ضروری ہے ورنہ پورے شہر میں پھیل جائیں گے، موٹر سائیکل رکشے بنانے والی کمپنیوں کو بند کر دینا چاہیے، موٹر سائیکل رکشہ کمپنیوں کو 3 ماہ میں ریگولیٹ ہونے کا وقت دیں۔ سی ٹی او لاہور نے کہا کہ موٹر سائیکل رکشہ اور لوڈر رکشوں کو اجازت دینا جرم ہے، موٹرسائیکل رکشے کے حادثے میں 10 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ موٹر سائیکل رکشوں کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر وزیراعلیٰ کو بھجوائی گئی سمری کی رپورٹ طلب کرلی۔