WE News:
2025-12-14@09:19:40 GMT

بلی سے مکالمہ

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

میں بالکونی میں چپ چاپ کھڑا اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا، وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی اچانک رک گئی، نظریں چار ہوئیں تو وہ پلکیں جھپکانا بھول گئی اور ایسے ساکت ہو گئی جیسے بے جان ہو، میں اس کوشش میں تھا کہ اس کے ریشمی بالوں میں ہاتھ پھیر سکوں اور اس کے لمس کا گداز حاصل کر سکوں، میں اس کی جانب بڑھا تو وہ چھلانگ لگا کر دیوار پر جا بیٹھی اور میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ آس پاس کی بالکونیوں پر کوئی ذی روح موجود نہ تھا سو میں نے انہیں اکیلا پا کر بات کرنے کی ٹھان لی، ہلکا سا کھنگارا اور کہا:

محترمہ! لگتا ہے آپ مجھ سے ناراض ہیں؟

پلیز آپ زیادہ فری ہونے کی کوشش مت کریں، میرے آپ کے کون سے یارانے چل رہے تھے کہ میں ناراض ہوتی؟۔

جی میرا مطلب یہ تھا کہ آپ میری موجودگی سے ڈسٹرب ہوئی ہوں گی۔ میں صحافی ہوں اور آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔

’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘ یہ کہہ کر وہ چل دیں۔

میں فوراً بولا محترمہ ٹھہریں تو سہی، انہوں نے رک کر میری جانب ایسے دیکھا کہ تیر نیم کش سینے میں ترازو ہو گیا، محترمہ آپ نے جو ضرب المثل سنائی ہے وہ تو آپ کے بارے میں کہی جاتی ہے؟

وہ غصے سے بولیں، یہی تو مصیبت ہے کہ آپ لوگوں نے الٹے سیدھے محاورے بنا کر اس میں بلی ایسے ڈال رکھی ہے کہ محاورہ نہ ہوا کوئی تھیلا ہوا۔ موقع کی مناسبت سے تو وہ ضرب المثل درست ہے کہ نہیں؟

اس کا مطلب ہے کہ آپ انٹرویو نہیں دینا چاہتیں؟
دراصل میں ان دھندوں میں پڑنا نہیں چاہتی کیونکہ آپ لوگ توبات کا بَتَن٘گَڑ بنا دیتے ہیں، اب آپ خود دیکھ لیں کہ ملک صاحب کی ’کتیا‘ جو ٹرک تلے آ گئی تھی، اس خبر کو آپ لوگوں نے مرچ مسالہ لگا کر شائع کیا، بھلا اس میں ’مزے‘ لینے والی کون سی بات تھی۔

محترمہ وہ خبر ایک شام کے اخبار نے لگائی تھی اور اگر وہ ایسی خبریں نہ لگائیں تو انہیں خریدے کون؟ بہرحال میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی گفتگو کو مِن و عَن شائع کیا جائیگا۔

وہ اچانک کھڑی ہو گئیں اور پورے جسم کو جھرجھری دے کر جھٹک دیا اور جمائی لے کر بولیں۔ جی پوچھیں؟

محترمہ سب سے پہلے تو آپ اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں کچھ بتائیں؟

میرے آباؤ اجداد بھارت کی راجدھانی دہلی میں مقیم تھے، شاید آپ جانتے ہوں وہاں لال قلعے کے پچھواڑے میں ایک محلہ ہے، وہاں مقیم ایک شخص قاسم جان نے میرے خاندان سے ایک بلی پال رکھی تھی جو ایک دن کھیل کود میں کافی گندی ہو گئی، تو اس بیوقوف نے نہ صرف اسے ٹھنڈے پانی سے دھو دیا بلکہ بعد میں سکھانے کی خاطر نچوڑ بھی دیا، یوں وہ بلی مر گئی جس پر لوگوں نے محلے کا نام ’بلی ماراں‘ جبکہ گلی کا نام ’قاسم جان‘ رکھ دیا جو آج تک مشہور ہیں۔

اس اندوہناک سانحے کے بعد ہمارے بزرگوں نے لال قلعے کے کھونے کھدروں میں وقت گزارا اور پھر تقسیم کے وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اچھے دنوں کی آس لگائے پاکستان آ گئے جبکہ واقفان حال نے مشہور کر دیا کہ ’بلی کے خواب میں چھیچھڑے۔‘

سنا ہے آپ نے صوفی غلام مصطفی تبسم کے دور سخن میں چوہے بھی پالے تھے؟
مسکراتے ہوئے بولیں، شاعر حضرات کو تو سات خون معاف ہیں اور ویسے بھی ان دنوں دنیا کے رنگ نرالے ہی تھے، تبسم صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’چاند پہ جا کے کودا شیر، بلی کھا گئی سارے بیر‘ حالانکہ انسان کے علاوہ چاند پر صرف کتا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بلی شیر کی خالہ ہے تو اب جبکہ ’شیر‘ جلاوطن ہے اس ضمن میں آپ کا مؤقف سامنے نہیں آیا؟
آپ عجیب بات کر رہے ہیں جب شیر خود ہی کچھ ہمت نہیں کر رہا تو خالہ بیچاری کیوں مصیبت مول لے، ویسے بھی ایسے موقع پر ہی کہا جاتا ہے کہ ’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے‘ اور میں بھی کہاں کی سورما، ایک ہی داؤ تھا درخت والا، اب تو وہ بھی بے سود، بھلا بُوٹ والے کو درخت پر چڑھنے سے کون روکے؟۔

ایک بات کی تشریح کردیں کہ ’نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی‘؟
میں کوئی شاعر نہیں کہ تشریح کروں بہرحال آسان لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں، اس محاورے کو آپ اس تناظر میں دیکھیں جیسے آپ کے سیاستدان بڑھاپے میں حج پر چلے جاتے ہیں، بس یہی ساری بات ہے اور ویسے بھی ایک بلی کے نصیب میں نو سو چوہے کہاں، ہمیں کون سے ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں کہ ہم کچھ کھا پی سکیں؟

آپ کے خاندان میں کسی کو اداکاری کا شوق ہے یا کبھی تھا؟
جی ہاں میری ایک خالہ زاد بہن کو اداکاری کا شوق ہوا کچھ عرصہ تک تو وہ ’کیٹ واک‘ کرتی رہی پھر اسے ایک سگریٹ کے اشتہار میں کام ملا تھا، ماحول پسند نہ آنے پر اس نے شوبز سے کنارہ کشی کرلی، بعد ازاں سید نور کچھ عرصہ اپنی فلم ’بلی‘ کے ٹائٹل رول کے لیے میری کزن کو مناتے رہے لیکن میری کزن کے انکار پر انہوں نے فلمسٹار ’نور‘ کو بلی بنالیا۔

آپ کے خاندان کی کوئی مشہور شخصیت جس کا ذکر کرنا آپ ضروری سمجھتی ہوں؟
جی ہاں میری دادی جان بہت شہرت یافتہ بلی تھیں، امتیاز علی تاج نے ان پر ایک کہانی بھی لکھی، یوں میری دادی حضور ’بیگم کی بلی‘ کے نام سے آج بھی زبان زدِ عام و خاص ہیں۔

ایک شاعر نے تو میری پھوپھو کی شان میں قصیدہ بھی کہا ’میں نے بلی پالی ہے، نیلی آنکھوں والی ہے، میرا جی بہلاتی ہے بی مانو کہلاتی ہے، لیکن جب اداکارہ نیلی کا فلموں میں آنا ہوا تو پھوپھو نے سبز لینز لگانا شروع کر دیے تھے مبادا کوئی انہیں ’نیلی‘ نہ کہہ دے۔

اچھایہ بتائیں کہ بھیگی بلی بننا کیسے ممکن ہے؟
یہ کوئی شہرت یا عزت کی بات نہیں، انسانوں میں کمزور، بزدل یا ڈرپوک انسان کو بھیگی بلی کہہ کر ہماری تضحیک کی جاتی ہے، ہوا یوں تھا کہ ایک روز میری امی جان کے اودھم مچانے اور بھاگنے سے شیخ صاحب (جن کے گھر میں وہ رہتی تھیں) کا چھینکا ٹوٹ گیا یہ بات ذہن میں رہے کہ چھینکا اس وقت زمین پر ہی پڑا تھا، لہٰذا اس کنجوس شخص نے ’ماں جی‘ کو گھر سے نکال دیا، اس ظلم و زیادتی پر بادل ساری رات روئے اور یوں وہ بھیگ گئیں، دسمبر کے دن تھے لہٰذا وہ ٹھنڈ سے سکڑی سمٹی بیٹھی تھیں کسی نے انہیں اس حالت میں دیکھا اور یوں اردو ادب کو مزید دو محاورے مل گئے۔

محترمہ ایک محاورہ ہوا نہ ’بھیگی بلی بننا‘ آپ دو کا ذکر کر رہی ہیں؟

محترم آپ کا صابن سلو ہے کیا؟ میں نے اپنی امی جان کا واقعہ سنایا ہے آپ لوگوں نے اس سے بھی محاورہ بنا تو رکھا ہے’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘۔

لیکن اس محاورے میں تو ’بھاگوں‘ (ہندی لفظ بھاگ کی جمع) استعمال ہوا ہے جس کے معنی مقدر، نصیب یا خوش قسمتی سمجھے جاتے ہیں؟

محترم ہمارے اتنے بھاگ کہاں؟ امی جان تو بھاگی تھیں، آپ نے اب نیا قصہ چھیڑ لیا، اب نوٹ بک کو دوسرے ہاتھ پر مار کر یہ مت کہہ دینا کہ ’بھاگ لگے رہین‘۔ (ہنستے ہوئے، جسٹ کڈنگ، آگے بڑھیں)

چوہے بلی کے کھیل سے مراد کون سا کھیل ہے اور کھسیانی بلی کھمبا کیوں نوچتی ہے؟

لگتا ہے آپ ’ٹام اینڈ جیری‘ بھی نہیں دیکھتے، اس میں چوہے بلی کے خاصے دلچسپ کھیل دکھائے جا چکے ہیں، آپ کو آسان لفظوں میں سمجھاتی ہوں، یہ کھیل مختلف قواعد وضوابط کے تحت پوری دنیا میں ذوق و شوق سے کھیلا جاتا ہے۔ امریکا دنیا بھر میں جو کچھ غریب ممالک کے ساتھ کر رہا ہے، وہ بھی یہی کھیل ہے۔

کھمبا نوچنے کا الزام ایسے ہی ہے جیسے ہماری ہر حکومت پر آئی ایم ایف کے دباؤ کا الزام ہے یا پھر جیسے ہمارے حکومتی ترجمانوں کی پریس کانفرنسز میں وضاحتیں۔ اب میں کسی نئی یا پرانی سیاسی جماعت کی ترجمان کا نام لیکر انٹرویو کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہتی۔

محترمہ آپ کے بارے میں ایک کہانی یہ بھی مشہور ہے، جس میں دو بلیاں ایک بندر سے انصاف کرانے جاتی ہیں لیکن دونوں ہی روٹی کے ٹکڑے سے محروم رہ جاتی ہیں؟

جی ہاں یہ سچی کہانی ہے، آپ کا اشارہ غالباً اسی کہانی کی جانب ہے جس کے نتیجے میں ’بندر بانٹ‘ کا لفظ نکلا تھا۔ یہ المیہ ابھی تازہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی انصاف کا ترازو بندر کے ہاتھ ہے۔

محترمہ ایک محاورہ ہے ’بلی مارنا‘ اس پہ روشنی ڈال دیں تو قارئین کی تشفی ہو جائے گی؟

جناب اردو کا یہ محاورہ ’بِلی مارنا‘ نہیں ہے بلکہ ’بَلی مارنا‘ ہے۔ آپ کا شین قاف ہی نہیں زیر زبر بھی خراب ہے۔ اس محاورے کا معنی ہے کشتی چلانا یا ناؤ کھینا، آسان لفظوں میں چپو چلانا بھی کہہ سکتے ہیں۔

جو بلی آپ مارنا چاہ رہے ہیں وہ فارسی کا مشہور محاورہ ہے ’گُربہ کشتن روزِ اوّل‘ یعنی بلی پہلے دن ہی مار دینی چاہیئے، ہمارے ہاں اس محاورے کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اسے نہ صرف مشرف بہ اردو کیا گیا بلکہ ہر نو بیاہتا مَرد خدا جانے کیوں بلی ہی مارنا چاہتا ہے؟

یقیناً آپ کے علم میں نہیں ہوگا کہ بلی پر میر تقی میر نے ایک طویل نظم لکھی تھی، گوگل کریں ’موہنی بلی‘ نظم مل جائے گی۔ یہی نہیں شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی ہم پر نظم لکھی ہے، جس کا عنوان ہے’۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر‘ یہ نظم ان کی کتاب بانگ درا میں ہے، اب آپ تحقیق کریں اور پتا چلائیں کہ اقبال نے اتنی خوبصورت نظم کس کی گود میں ہمیں دیکھ کر لکھی تھی۔

مائنڈ نہ کیجئے گا ویسے آجکل کے صحافی تحقیق و تحریر کے بجائے پریس ریلیز اور وٹس ایپ کے سہارے چل رہے ہیں، کرنے کو کیا کچھ نہیں لیکن مثل مشہور ہے کہ کام جوان کی موت ہے، اپنی سستی کا اندازا اس بات سے لگائیں کہ بھارت تک چاند پہ پہنچ گیا اور آپ کی سوئی اس بات پہ اٹکی ہے کہ ’کالی بلی رستہ کاٹ گئی‘۔

محترمہ انٹرویو کے شروع میں آپ نے کہا کہ ہم نے ہر محاورے میں بلی یوں ڈال رکھی ہے کہ محاورہ نہ ہوا کوئی تھیلا ہوگیا، مگر میرے خیال میں جو محاورے اور واقعات آپ سے منسوب تھے وہ میں آپ سے پوچھ چکا ہوں، اس الزام بارے آپ کچھ فرمائیں گی؟

لگتا ہے کہ آپ انٹرویو کی تیاری کرکے نہیں آئے یا پھر آپ کو مطالعے کا شوق نہیں میں اب بھی اپنے مؤقف پر قائم ہوں، کاپی قلم سنبھالیے اور لکھئے!

بلی الانگنا
بلی بھی لڑتی ہے تو پنجہ منہ پر دھر لیتی ہے
بلی جب گرتی ہے تو پنجوں کے بل
بلی خدا واسطے چوہا نہیں مارتی
بلی سے دودھ کی رکھوالی
بلی کا گو نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا
بلی کھائے گی نہیں تو پھیلائے گی ضرور
بلی کی میاؤں سے ڈر لگتا ہے
بلی لوٹن
بلی نے شینہ پڑھایا، بلی کو کھانے آیا
بلی تھیلے سے باہر آگئی
اونٹ کے گلے میں بلی

پلیز ذرا ٹھہریئے، اتنے محاورے کافی ہیں، میں لغت میں ان کے مطلب بھی ضرور دیکھوں گا، آپ سے آخری سوال ہے کہ میاؤں میاؤں سے کیا مراد ہے؟

بڑا دلچسپ سوال ہے دراصل یہ لفظ ’می آؤں‘ ہے، می انگریزی کا لفظ ہے جس کے ہجے ایم اور ای ہیں، جس کے معنی ہیں ’میں‘، آؤں اردو میں آنے کی اجازت لینا ہے، یوں ’می آؤں‘ لفظ کے معنی ہوئے میں آؤں؟ اس تکیہ کلام کا مطلب دوسروں کو ہوشیار کرنا ہے کہ میں آ رہی ہوں۔

اپنے چند اشعار کے بعد اجازت چاہوں گی کہ گلی میں کتے بھونکنے لگے ہیں:

جہاں پر کہ دو چار کتے ہوں موجود
تو ایسی جگہ کب ٹھہرتی ہے بلی

می آؤں، می آؤں، می آؤں، می آؤں
اجازت طلب ایسے کرتی ہے بلی

بلا وجہ بلی سے ڈرتے ہیں بچے
دراصل بچوں سے ڈرتی ہے بلی

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

بلی بلی ماراں بیگم کی بلی علامہ اقبا علامہ اقبال مرزا غالب مشکورعلی می آؤں وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلی بلی ماراں بیگم کی بلی علامہ اقبا علامہ اقبال مرزا غالب مشکورعلی وی نیوز اس محاورے لوگوں نے میں بلی لگتا ہے ہے کہ ا سے بھی ہے بلی نہیں ا بلی کے تھا کہ

پڑھیں:

تھرپارکر کے ہاریوں کی صدا

تھر پارکرکا شمار ملک کے سب سے زیادہ پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ تھر پارکر ایک وسیع العریض صحرا ہے جس کی سرحدیں پاکستان سے بھارت تک پھیلی ہوئی ہیں۔ تھرپارکر کا ہیڈ کوارٹر مٹھی ہے، جو ایک چھوٹا شہر ہے اور یہ 6 تعلقوں مٹھی، ننگر پارکر، چھاچھرو، اسلام کوٹ، ڈاھلی، ڈیپلو اور کلوئی اور 60 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ تھرپارکرکی کل آبادی 12 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ تھرپارکر کا صرف 8.12 فیصد حصہ شہری اور بقیہ دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔ تھرپارکر میں خواندگی کا تناسب 36.39 فیصد بتایا جاتا ہے۔ خواندگی سے متعلق اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہی واضح ہوتا ہے کہ مردوں میں خواندگی کا تناسب 48.50 فیصد اور خواتین میں یہ تناسب 23.49 فیصد ہے۔ تھرپارکر کے شہریوں کا بنیادی پیشہ زراعت ہے یا بہت سے لوگوں کا گزارہ زراعت سے ملحقہ کاموں سے ہوتا ہے۔

تھرپارکر میں زراعت کے لیے پانی کا دار و مدار برساتی پانی پر ہوتا ہے۔ جب مہینوں بارش نہیں ہوتی تو پھر قحط کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ ہزاروں افراد زندگی بچانے کے لیے دیگر علاقوں میں ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں۔ آبادی کا بہت معمولی حصہ سرکاری محکموں میں ملازمت کرتا ہے۔ کچھ لوگ تجارت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ اس علاقے کی آبادی کا 77.64 فیصد حصہ مال مویشیوں کی پیدائش اور خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تھرپارکر کے لوگوں کے لیے اونٹ کی بڑی اہمیت ہے۔ اونٹ بار برداری اور سواری کے لیے سب سے اچھا جانور سمجھا جاتا ہے۔ 

ایک رپورٹ کے مطابق تھرپارکر قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تھرپارکر میں کوئلہ کے 185.175 بلین کے ذخائر موجود ہیں۔ چند سال قبل چین سے ہونے والے سی پیک معاہدے کے تحت چین نے تھرپارکر میں کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کا ہیوی پلانٹ لگایا ہے۔ اس پلانٹ نے برسوں پہلے بجلی بنانی شروع کردی تھی مگر یہ بجلی تھرپارکر کے عوام کو فراہم نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ تھرپارکر کے عوام سولر بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ تھرپارکر کے ایک مکین سینئر صحافی سہیل سانگی نے لکھا ہے کہ تھرپارکر کا بیشتر علاقہ 2025میں بھی بجلی کی نعمت سے محروم ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارہ UNDP کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ تھرپارکر کی 87 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، یوں تھرپارکر ضلع میں زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ 

ایک یونیورسٹی کے سروے کے مطابق تھرپارکر میں 90 فیصد خواتین کم غذائیت کے مرض کا شکار ہیں۔ تھرپارکر میں روزگار کی صورتحال خاصی خراب ہے۔ وہاں کی مشہور فصلوں میں باجرہ ،گوار، مونگ ، موٹھ تل وغیرہ کی فصل ہوتی ہے۔ بارشوں سے زرعی زمین آباد ہوتی ہے اور پیدا شدہ اجناس مارکیٹ میں فروخت کر کے ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں۔ محکمہ ریوینو کے اعداد شمار کے موجب تھرپارکر میں 6 لاکھ 24 ہزار 42 کاشتکارکھاتیدار ہیں جن کے پاس 2 ایکڑ سے لے کر 200 ایکڑ زرعی زمین کے کھاتے ہیں۔ اس ایگریکلچر لینڈ سے 7 ہزار 6 سو 74 ایکڑ بیراجی زمین ہے جب کہ 6لاکھ 57 ہزار ایکڑ بارانی زمین ہے، جس کی کاشت بارشوں پر منحصر ہوتی ہے۔

 تھرکے معروف ادیب معصوم تھری کے مطابق تھر کی بارانی زمین میں موسمی مطلوبہ بارشیں ہونے کی صورت میں ایک ایکڑ سے ایک ٹن پیداوار ممکن ہے لیکن گزشتہ کئی برسوں سے مطلوبہ موسمی بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایوریج 20سے 30 فیصد رہ گیا ہے، جب کہ فی ایکڑ لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ کاشتکار /کسان کی ایک ایکڑ پرکم از کم ایک لاکھ روپے لاگت ہوتی ہے اور ایک خاندان کے 4 سے5 فرد 5 سے 6 ماہ دیگر محنت مزدوری چھوڑ کرکاشتکاری سے جڑے رہتے ہیں، اگر مطلوبہ بارشیں نہ ہوں تو مجموعی طور پر بیج اور دوسرے اخراجات کی مد لگائے گئے 4 سے 5 ارب روپے ڈوب جاتے ہیں اورکاشت کار کسان شدید مالی بحران کا شکار ہوکر کسمپرسی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور یہ صورت حال ہر دوسرے، تیسرے سال پیش آتی ہے۔ سرکاری ملازمتوں سے وابستہ ایماندار ملازمین کا تنخواہ پرگزارہ نہیں ہوتا تو وہ بھی ان سود خوروں سے رابطہ پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اس سارے ماجرے میں گزشتہ 10 سے 15 برسوں سے سود خور تاجروں نے تو غریب کسان کاشتکار کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ کسان کاشتکار کے پاس مون سون کی موسم آتے ہی کاشتکاری کی تیاری کے سلسلے میں بیج اور دیگر اخراجات کے لیے مقامی سود خور بیوپاری کے یہاں چل کر جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ اب سود خور بیوپاری کیا کرتا ہے کہ اول تو وہ بیج مہنگے دام پر دیتا ہے جو بیج 3 ہزار روپے فی من فروخت کرتا ہے، وہی فصل مارکیٹ میں آنے پر اسی کسان سے 1500 روپے میں خرید کرنے کا معاہدہ کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ماہانہ پانچ فیصد سود بھی وصول کرتا ہے۔

یہ کاروبار مٹھی، چھاچھرو، ننگرپارکر، اسلام کوٹ اور دیگر شہروں میں کھلم کھلا جاری و ساری ہے۔ پہلے یہ گھناؤنا کاروبار مقامی سود خور کرتے تھے لیکن تھر کے مذکورہ شہروں میں افغانی پٹھانون نے بھی ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور اب یہ کاروبار سیزنل نہیں رہا بلکہ روزمرہ کا کاروبار بن کر رہ گیا ہے جس کی چنگل میں تھر کے غریب اور پسے ہوئے کسانوں اور مزدوروں کے ہزاروں خاندان پھنسے ہوئے ہیں اور زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔کمیونسٹ پارٹی سندھ کے سیکریٹری کامریڈ اقبال جو ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کر رہے ہیں، ان کا بیانیہ ہے کہ یہ غیر قانونی سود خور حضرات نہایت ظالمانہ شرحِ سود وصول کر رہے ہیں، مقروض افراد کے سونے کے زیورات، چیک بُک، اے ٹی ایم کارڈز اور دیگر ضمانتیں اپنے قبضے میں رکھتے ہیں اور بعض صورتوں میں مکمل ادائیگی کے باوجود رہن رکھی ہوئی اشیاء واپس کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔

یہ طرزِ عمل فوجداری ضابطہ پاکستان کی دفعات 406، 420، اور 384 کے تحت قابلِ سزا جرائم ہیں اور آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 4، 9، اور 23 میں دیے گئے شہریوں کے جان، مال، عزت اور تحفظ کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ مزید یہ کہ غریب اور ناخواندہ تھری عوام ان غیر قانونی کارروائیوں کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔ مالی مجبوری کے باعث وہ چھوٹی رقمیں زبانی معاہدوں کے تحت قرض لیتے ہیں، جنھیں یہ سود خور حضرات ناجائز فائدہ اٹھا کر دگنا تگنا سود لگا کر لوٹتے ہیں، اور ان کے زیورات و ضمانتیں مستقل طور پر اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ کامریڈ اقبال نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک قرض دینے والے شخص نے متعدد مقامی قرض داروں کے تقریباً 90 لاکھ روپے مالیت کے سونے کے زیورات غیر قانونی طور پر اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تمام لین دین زبانی طور پر کیے گئے تھے، جن کی کوئی قانونی دستاویزات موجود نہیں، جس سے دھوکہ دہی اور خیانت کو فروغ ملا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان افراد کے خلاف ان قوانین کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے جن میں دفعہ 3 اور 4، پرائیویٹ لون ایکٹ 2023 (بغیر لائسنس قرض دینے اور سود وصول کرنے پر ممانعت)، دفعہ 406 اور 420 پاکستان پینل کوڈ (خیانتِ مجرمانہ اور دھوکہ دہی)، دفعہ 384 پاکستان پینل کوڈ (زبر دستی اور بھتہ خوری) اوردفعہ 506 پاکستان پینل کوڈ (دھمکی اور خوفزدہ کرنے کے جرائم ) شامل ہیں۔ علاقہ کے لوگوں نے سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس سے اپیل کی ہے کہ ان سود خوروں سے ان کا قیمتی سونا اور سامان واپس کرایا جائے اور ایسی اسکیم شروع کی جائے کہ غریب لوگ ان سود خوروں کے جھانسے میں نہ آئیں۔
 تھرپارکر کے منتخب اراکین کا تعلق ہمیشہ پیپلز پارٹی سے رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی ذمے داری ہے کہ ان غریب لوگوں کو سود خوروں سے بچانے کے لیے کوئی ایسی اسکیم شروع کرے کہ عام آدمی کو بغیر سود کے قرضہ مل سکے۔ 
 

متعلقہ مضامین

  • بیانیہ
  • امریکی پالیسی میں صرف چین خطرہ ؟
  • آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے نئی شرائط
  • پروفیسر خیال آفاقی
  • میں نہیں ہم
  • ایک عام سی بات
  • بادشاہ بھی چور ہو سکتا ہے!
  • تھرپارکر کے ہاریوں کی صدا
  • بے روز گاری اور پاکستان کی خوش قسمتی
  • بلاول کا لاہور میں چھت پر کھڑی خواتین سے دلچسپ مکالمہ، ویڈیو وائرل