وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قرضوں سے ترقی نہیں ہوتی، دعا ہے کہ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام آخری ہو اور مزید قرضہ نہ لینا پڑے۔ میں آخری حد تک قرضوں سے نجات دلاؤں گا۔ وزیر اعظم پہلے یہ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے قدموں میں جھک کر اور ان کی تمام شرائط ماننے کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے پر راضی ہوا تھا۔
حکومت چند روز قبل خوش تھی کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہو گیا ہے اور جلد 2.
پی ٹی آئی حکومت کے بعد سے شہباز شریف حکومت آئی ایم ایف سے قرضے اور چین، سعودی عرب، چین و دوست ممالک سے قرضوں اور امداد کے حصول کے لیے سرگرم رہی۔ بعض دوست ممالک کو یہ بیان ضرور دینا پڑا کہ اب پاکستان کو اپنے قدموں پر بھی کھڑا ہونا چاہیے اور اپنی پالیسی بھی تبدیل کرنی چاہیے۔
پی ٹی آئی حکومت کے بعد سے یہ ضرور ہوتا رہا کہ کسی ایک جگہ سے قرضہ لے کر دوسرے کو قرضہ ادا کرنا پڑا اور ہم قرضے واپس کرنے کے لیے مزید قرضے لیتے رہے مگر قرضوں کے حصول میں پاکستان کو شرمندگی اور بعض مشوروں کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر وزیر اعظم کے بقول ہم نے اپنی سیاست قربان کرکے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا جو ہماری مجبوری تھی مگر اب معیشت میں استحکام آگیا ہے اور میری آخری حد تک کوشش ہوگی کہ مزید قرضے نہ لیں بلکہ ملک کو قرضوں سے نجات بھی دلاؤں۔
قرض لینے کو ذلت تصور کیا جاتا ہے کیوں قرضے دینے والے کے آگے جھکنا پڑتا ہے اور قرضوں کی واپسی کے لیے شرائط ماننا پڑتی ہیں۔ سود الگ دینا پڑتا ہے اور پاکستان میں یہ نوبت آ چکی ہے کہ ہمیں قرضے اور سود ادا کرنے کے لیے سود پر مزید قرضے لینے پڑے اور ہم سود سمیت بہت کم قرضے واپس کرنا پڑے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
(ن) لیگ کے وزیر اعظم نواز شریف کا دعویٰ تھا کہ ان کی حکومت نے قرضے لینا بند کر دیے تھے اور ہم نے پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا تھا مگر موجودہ (ن) لیگی وزیر اعظم نے یہ ریکارڈ ضرور بنایا ہے کہ جو ممالک پی ٹی آئی حکومت کو قرض نہیں دیتے تھے مگر میاں شہباز شریف نے اپنے تعلقات کی وجہ سے وہاں سے قرض ہی نہیں امداد بھی لی اور یہ الگ بات ہے کہ قوم قرضوں میں اس قدر جکڑی جا چکی ہے کہ ہم تو مقروض ہیں ہی بلکہ ہماری آنے والی نسل بھی مقروض پیدا ہو رہی ہے جب کہ یہ قرضے قوم نے نہیں حکومتوں نے لیے اور ادا ہم نے کرنے ہیں۔
(ن) لیگ کو قوم کو یہ بات بتانی چاہیے کہ اس کی حکومت میں اگر آئی ایم ایف سے قرضہ لینا بند ہو گیا تھا تو پی ٹی آئی حکومت کی وہ کون سی مجبوری تھی کہ وہ تاخیر سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تھا جب کہ اس کے دور اقتدار میں تو ملک کو کوئی بڑا منصوبہ بھی نہیں ملا تھا نہ ہی ملک میں ترقیاتی کام ہوئے تھے۔ ہر حکومت کی طرح پی ٹی آئی حکومت بھی الزام لگاتی تھی کہ (ن) لیگ کی حکومت ملک کا یہ حال کر گئی ہے۔ سابقہ حکومتوں پر الزام تراشی کا یہ سلسلہ بہت طویل ہے اور عشروں سے جاری ہے اور ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔
وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ قرضوں سے ترقی نہیں ہوتی درست نہیں اور ترقی نہ ہونا حکومتوں کے لیے تو ہو سکتا ہے مگر عوام کے لیے نہیں ہے کیونکہ امیروں کو تو اپنے گھر بنانے کے لیے قرضوں کی ضرورت ہی نہیں ہوتی مگر متوسط طبقے کی یہی ترقی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا اپنا گھر ہو جائے وہ پہلے کسی نہ کسی طرح پلاٹ خریدتا ہے پھر رشوت دے کر ہاؤسنگ بلڈنگ کے سرکاری ادارے سے قرض سود پر لیتا ہے اور قسط ادا کرکے اپنا گھر بنا لیتا ہے اور یہی اس کی ترقی ہے۔
پرانے مکان خرید کر اسے رہائش کے قابل بنانے یا اس میں توسیع کے لیے اپنے جاننے والوں یا رشتے داروں سے بلا سود و رشوت قرض لیتے ہیں اور اپنا گھر بنا بھی لیتے ہیں اور مکان بنانے کے لیے وہ قرضہ احتیاط سے استعمال کرتے ہیں اور حکومتوں کی طرح دکھاوا اور شاہ خرچی نہیں کرتے اور کسی طرح حکومتی مدد کے بغیر اپنا گھر بنا لیتے ہیں جس کے لیے وہ اپنے گھریلو اخراجات میں کمی کی پالیسی بناتے ہیں کیونکہ اخراجات کم کرکے ہی رقم بچائی جاسکتی ہے جو انھوں نے قرضے کی واپسی کے لیے بچانا ہوتی ہے تب کہیں گھر بنتا ہے اور قرض اترتا ہے یہی اس کی ترقی ہوتی ہے اور وہ کچھ عرصہ بعد قرض کی ذلت سے بھی بچ جاتا ہے۔ بعض لوگ ترقی اور اضافی آمدنی کے لیے گھر کا کوئی حصہ کرائے پر بھی دے کر قرض اتارتے ہیں۔ بے گھر افراد بھی اسی طرح اپنا گھر بنا ہی لیتے ہیں اور ترقی کر جاتے ہیں مگر حکومتوں میں یہ ترقی نہیں ہوتی۔
حکومتیں قرضے لے کر حکومتی اخراجات بڑھاتی اور شاہانہ اخراجات کرتی ہیں اور بچت پر کوئی توجہ نہیں دیتیں اور قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے سود پر لیتی ہیں اور سود کی رقم کی ادائیگی کرتی ہیں اور قرضہ چڑھتا رہتا ہے پھر وہ قرضہ اتارنے کے لیے مزید قرضہ لیا جاتا ہے تو ترقی کیسے ہو سکتی ہے قرض اتارنے کے لیے اپنے اخراجات کم کرنا پڑتے ہیں تب کہیں جا کر قرضے اترتے ہیں اور ان کے لیے ترقی ممکن ہوتی ہے مگر حکومتیں ایسا نہیں کرتیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی حکومت آئی ایم ایف سے اپنا گھر بنا پاکستان کو نہیں ہوتی لیتے ہیں ہیں اور اور قرض ہے اور کے بعد کو قرض
پڑھیں:
یہودیوں کا انجام
دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں حق اور باطل کی جنگ واضح ہو چکی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر بہنے والا معصوم خون، بچوں کی لاشیں، ماں کی آہیں اور بے گھر ہوتے خاندان ہمیں ایک بار پھر اس یاد دہانی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اللہ کی پکڑ بھی قریب آ جاتی ہے۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور ایمانی آزمائش بھی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق یہودیوں کا ماضی، حال اور مستقبل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی سرکشی، ان کی نافرمانیاں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ ان کے سلوک کا بارہا ذکر آیا ہے۔ ان کی فطرت میں دھوکہ، فریب، اور سازش شامل ہے۔ انہوں نے نہ صرف اللہ کے انبیا ء کو جھٹلایا بلکہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک وقت کی نشاندہی فرمائی ہے جب یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اس وقت حق اور باطل کا آخری معرکہ ہو گا جسے ’’ملحمہ کبریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس معرکے میں مسلمان غالب آئیں گے اور اللہ کے وعدے کے مطابق زمین پر عدل اور انصاف قائم ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں، اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے مگر وہ درخت اور پتھر بھی پکار اٹھیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آئو اور اسے قتل کرو، سوائے ’’غرقد‘‘ کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔(صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث نہ صرف مستقبل کے ایک یقینی واقعے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہودیوں کا انجام عبرتناک ہو گا۔ وہ جہاں بھی چھپیں گے قدرت انہیں بے نقاب کر دے گی۔یہ حدیث ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں کا انجام تباہی ہو گا بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اس معرکے میں اللہ کی قدرت براہِ راست کام کرے گی۔ یہاں تک کہ جمادات(درخت اور پتھر) بھی بول اٹھیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک الہامی سچائی ہے جس پر ہمیں کامل یقین رکھنا ہے کیونکہ یہ بات بات دنیا کے سب سے عظیم ، سچے انسان اور خاتم النبیین جناب محمد الرسول اللہ نے ارشاد فرمائی ہے۔
فلسطین میں ہونے والی نسل کشی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن چکی ہے۔ ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام، ہسپتالوں، مساجد اور سکولوں پر بمباری، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ ایمانی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ وہ طاقت کب، کہاں اور کیسے مسلمانوں کو حاصل ہو گی جس کے ذریعے وہ یہودیوں کو شکست دیں گے؟ اس کا جواب بھی قرآن اور سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں’’ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم‘‘ (سورۃ محمد: 7)
ترجمہ: اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔یعنی جب مسلمان دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوں گے، جب وہ فرقوں، تعصبات، اور دنیاوی لالچ سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے تب ہی اللہ کی نصرت نازل ہو گی۔میرا رب وہ ہے جو تقدیر بھی بدلتا ہے اور حالات بھی۔ غم کا موسم کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ مگر یہ معرکہ جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس نے نہ صرف دشمن کو بے نقاب کیا ہے بلکہ ہمارے اپنے مسلمان حکمرانوں کو بھی۔ وہ حکمران جن کی زبانیں خاموش، ضمیر مردہ اور آنکھیں بند ہیں۔ جن کے محلات تو چمک رہے ہیں مگر ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سامنے اس لیے جھک چکے ہیں کیونکہ انہیں مسلمانوں کی جانیں اور عزتیں نہیں بلکہ اپنی بادشاہتیں، اپنی دولت اور دنیاوی آسائشیں عزیز ہیں۔یہی معرکہ ہم عام مسلمانوں کے ایمان کا بھی امتحان ہے۔ اربوں کی تعداد میں ہم مسلمان دنیا بھر میں بستے ہیں مگر افسوس کہ ہمارا طرزِ زندگی، ہماری خریداری، ہماری ترجیحات سب اسرائیل کی مدد کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہم ان ہی یہودی مصنوعات کو خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیل کے فوجی بجٹ میں شامل ہوتا ہے۔ہم میں سے کتنے ہی افراد روزانہ یہودی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم انہی کمپنیوں کی چیزیں خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیلی فوج کے اسلحہ اور بارود پر خرچ ہوتا ہے۔ ہم اپنی لاعلمی، غفلت یا لاپرواہی کے باعث اس ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے ان ظالموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو ہمارے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔افسوس، صد افسوس! کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس اور احتجاج تک محدود ہو چکے ہیں جبکہ عمل کے میدان میں ہماری موجودگی ناپید ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے خود کو بدلیں، اپنی ترجیحات کو ایمان کی روشنی میں دیکھیں، اور ہر وہ قدم اٹھائیں جو ظالم کی طاقت کو کمزور کرے۔اللہ کی مدد صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جو خود کو اس کے دین کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ہمیں آج سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم صرف باتوں سے نہیں، بلکہ عمل سے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنے گھر سے، اپنی خریداری سے، اپنی دعائوں سے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہوں گے۔دنیا اس وقت ظلم، فتنہ اور نفاق کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جو خون بہایا جا رہا ہے جو لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور جو بچے ماں کی گود سے چھینے جا رہے ہیں تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک منظم نسل کشی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دنیا بالخصوص مسلم حکمران تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔یہودیوں کا انجام اللہ کے فیصلے کے مطابق ہونا ہے۔ مگر وہ دن کب آئے گا؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان کب جاگتے ہیں؟ کب ہم دنیا کی محبت اور موت کے خوف کو ترک کر کے اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں؟ کب ہم قرآن کو صرف ثواب کے لیے نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے پڑھنا شروع کرتے ہیں؟یقین رکھیں! وہ وقت ضرور آئے گا جب ہر درخت اور پتھر بھی گواہی دے گا، اور مظلوموں کے آنسو ظالموں کے لیے آگ بن جائیں گے۔یہودیوں کا انجام طے شدہ ہے لیکن اس انجام کو لانے کے لیے ہمارا کردار کیا ہو گا؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔