روحانی ذہانت: علم کی انتہا سے حکمت کی ابتدا تک کا سفر
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
آج کے جدید دور اور نفسانفسی کے اس ماحول میں، بے شمار لوگ علم کی تلاش میں سرگرداں ہیں، لیکن بہت کم ایسے ہیں جو اس علم کو اپنی زندگی میں مؤثر طور پر استعمال کر پاتے ہیں۔ جب یہ علم عملی دانش میں ڈھلتا ہے تو اسے حکمت کہا جاتا ہے، اور یہی حکمت انسان کو کام یابی کی منازل طے کرنے میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ جدید تحقیق، بگ ڈیٹا، اور نفسیات نے انسانی ذہنی صلاحیتوں اور مہارتوں کو بڑھانے کے نئے طریقے دریافت کیے ہیں، جن میں ہاورڈ گارڈنر کی multiple intelligences کی تھیوری قابل ذکر ہے۔
گذشتہ چند سالوں میں ہم ایموشنل انٹیلیجنس (جذباتی ذہانت) کے بعد آرٹیفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کے دور میں قدم رکھ چکے ہیں، جہاں انسان نے علم میں اضافہ، فیصلہ سازی کی مہارت، اور مستقبل کی پیش گوئی کے لیے نت نئے طریقے اختیار کر لیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، روحانی نفسیات بھی زیربحث ہے، اور ماہرین نفسیات اس کے نئے رجحانات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ تاہم، ایک اور اہم موضوع جو تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، وہ روحانی ذہانت (Spiritual Intelligence) ہے۔
آج کے مضمون میں، ہم اس پہلو پر گفتگو کریں گے کہ ہم اپنی روحانی ذہانت کو کیسے بروئے کار لا سکتے ہیں تاکہ اپنی ذاتی، ذہنی، پیشہ ورانہ، اور روحانی زندگی میں ترقی کریں اور معاشرے کے کارآمد افراد بن کر دوسروں کی زندگی میں بہتری لاسکیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ روحانی ذہانت کسی مذہب یا عقیدے پر مبنی تصور نہیں، بلکہ یہ انسانی شعور اور روحانیت کی دُنیا کا ایک ایسا پہلو ہے جو انسان کو اپنے لاشعور سے جوڑتا ہے اور اسے اپنے وجود سے بالاتر ہو کر کائنات اور خالق کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ہم اکثر اپنی زندگی میں روحانی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں، جسے بعض اوقات چھٹی حس یا دیگر ناموں سے جانا جاتا ہے۔ یاد رکھیں، ہم سب انسان فانی ہیں اور اس دُنیا میں محض مسافر ہیں۔ اس سفر کے اختتام پر ہمیں اپنے خالق کے پاس لوٹ کر جانا ہے، اور یہی روحانی ذہانت ہمیں اس امتحان کی بہترین تیاری کرواتی ہے۔ جیسا کہ پائیر تیار شارڈن، فرانسیسی فلسفی اور پریسٹ، کہتے ہیں،’’ہم روحانی سفر پر گام زن انسان نہیں ہیں، بلکہ ہم انسانی سفر پر گام زن روحانی ہستیاں ہیں۔‘‘
روحانی ذہانت ہمیں اپنی ذات کے مقصد، دُنیاوی زندگی کے سفر، مشکلات کی وجوہات، اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق کے تخلیق کردہ مشن سے آگاہ کرتی ہے۔ یہ ہمیں روزمرہ کی مصروفیات سے بالاتر ہوکر سوچنے، بہتر فیصلے کرنے، اور ایک عظیم تر مقصد کے تحت زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہر انسان ایک منفرد ہستی ہے، اور اس کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہے، جو دُنیاوی ضروریات سے کہیں زیادہ وسیع اور بلند ترہے۔
روحانی ذہانت کیا ہے؟
روحانی ذہانت (Spiritual Intelligence - SQ) سے مراد وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے انسان روحانی اقدار، اصولوں اور بصیرت کو اپنی زندگی میں سمجھتا اور لاگو کرتا ہے۔ یہ مقصد، خودآگاہی، اور خالقِ کائنات یا گہرے معنی سے جڑنے کی صلاحیت پر مشتمل ہوتی ہے، چاہے وہ خُدا ہو، کائنات ہو یا کوئی اور مابعدالطبیعاتی حقیقت۔ یہ محض مذہبی عقائد سے مختلف ہے؛ بلکہ یہ اندرونی حکمت، اخلاقی فیصلے کرنے کی صلاحیت، اور باہمی ربط کے احساس سے متعلق ہے۔ وہ افراد جن کی روحانی ذہانت زیادہ ہوتی ہے، عموماً درج ذیل خصوصیات رکھتے ہیں۔ خودآگاہی سے آشنا، اپنے اندرونی جذبات، خیالات اور مقصد کو سمجھنے کے قابل ہونا۔
ہم دردی اور شفقت: دوسروں اور دُنیا کے لیے گہری فکر رکھنا۔
دیانت داری اور اصلیت: اعلیٰ اخلاقی اقدار کے مطابق زندگی گزارنا۔
استقامت: مشکلات میں صبر و استحکام کا مظاہرہ کرنا۔
روحانی وسعت: زندگی کو مادی کام یابیوں اور ذاتی مفادات سے بالاتر دیکھنا۔
پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں، روحانی ذہانت انسان کو دانائی کے ساتھ قیادت کرنے، تنازعات کو حل کرنے، اور اپنے کام و تعلقات میں گہرے معنی تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے۔
زندگی میں درست فیصلے اور دوراندیشی
روحانی ذہانت ہمیں زندگی کے چھوٹے بڑے فیصلوں میں درست انتخاب کرنے، اور ایک وسیع تر نقطۂ نظر کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ جو لوگ روحانی ذہانت کے اصولوں کو اپناتے ہیں، وہ محض دُنیاوی تعلیم اور تجربات پر انحصار نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنی فطری صلاحیتوں، اندرونی بصیرت، اور رُوح کی گہرائی میں چھپے اسرار کو سمجھ کر فیصلہ سازی کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں بہتر فیصلے کرنے اور مستقبل کے امکانات کو بہتر طریقے سے سمجھنا چاہتے ہیں، تو اپنی روحانی ذہانت کو فروغ دیں۔
زندگی کی مشکلات میں ثابت قدمی
زندگی میں ہر شخص کو مشکلات اور کٹھن فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات ذہنی دباؤ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کردیتا ہے۔ اعلیٰ ذہانت رکھنے والے اور قابل ترین لوگ بھی بعض مواقع پر حالات کے دھوکے میں آ جاتے ہیں، لیکن روحانی ذہانت کے حامل افراد اپنے روحانی شعور اور حکمت کے ذریعے زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ ثابت قدمی کے ساتھ کرتے ہیں۔
روحانی ذہانت اور انسان دوستی
روحانی ذہانت کے حامل افراد محض خانقاہوں اور درباروں تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ وہ لیبارٹریوں، سائنسی اداروں، اور ڈیجیٹل دُنیا میں بھی سرگرم ہوتے ہیں۔ یہ کوئی ظاہری وضع قطع یا مخصوص طورطریقوں کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک طرزِعمل ہے جو انسان کو دوسروں کے لیے بہتر اور معاون بناتا ہے۔ امریکا کی نیشنل لائبیری آف میڈیسن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ نرسوں میں روحانی ذہانت کی اعلیٰ سطح ان کی نفسیاتی تن درستی کو بہتر بنانے اور زندگی میں ایک مقصد رکھنے میں ان کی مدد کرتی ہے، جو ان کی اور ان کے مریضوں کی صحت کی بہتر فراہمی کا باعث بن سکتی ہے۔
روحانیت: ایک مسلسل سفر
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ روحانیت کوئی منزل نہیں بلکہ ایک مسلسل سفر ہے۔ کچھ لوگ روحانی ذہانت کو بھی دُنیاوی کام یابیوں کی طرح کسی خاص مقام پر پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جب کہ حقیقت میں یہ ایک مسلسل سیکھنے اور بڑھنے کا عمل ہے۔ روحانی ذہانت کی کام یابی کو روایتی دُنیاوی پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا، کیوںکہ اس کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے ایک مختلف زاویہ اور نظر درکار ہوتا ہے۔ یہ وہ حکمت ہے جو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن آنے والے وقتوں کو پہلے سے ہی دیکھ لیتی ہے۔
بہتر انسان اور لیڈر بننا
روحانی ذہانت ہمیں ایک بہتر انسان بننے، دوسروں کا احساس کرنے، اور اپنی ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی میں مؤثر خدمات انجام دینے کے لیے متحرک کرتی ہے۔ چاہے ہم کارپوریٹ دُنیا میں ہوں، کسی تعلیمی ادارے میں، یا مذہبی قیادت میں، روحانی ذہانت ہمیں ایک بہتر راہ نما بننے، دوسروں کی تربیت کرنے، اور انہیں زندگی کے حقیقی مقصد کی طرف راغب کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ قدرت کا انعام ہے تاکہ ہم انسانیت کی خدمت کریں۔ روحانی زندگی کا مطلب کسی خاص مرتبے یا عہدے کا حصول نہیں، بلکہ اپنے کردار سے دوسروں کے لیے ایک مثالی نمونہ بننا ہے۔ روحانی ذہانت نہ صرف ہماری اپنی زندگی میں تبدیلی لاتی ہے بلکہ یہ دوسروں کی زندگی میں مثبت اثرات ڈالنے کا ایک ذریعہ بھی بنتی ہے۔
روحانی ذہانت (SI)، جذباتی ذہانت کی طرح، ترقی، بہبود اور اندرونی حکمت کی حمایت کر سکتی ہے۔ SI کو 22 صلاحیتوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں مراقبہ اور غوروفکر کے طریقوں سے تقویت ملتی ہے۔ SI کو متقی مذہبی سے لے کرکٹر ملحدوں تک، سبھی استعمال کر سکتے ہیں۔ روحانی ذہانت ہمیں مادی زندگی سے بالاتر ہو کر سوچنے اور زندگی کے حقیقی مقاصد کو سمجھنے کی تحریک دیتی ہے۔ اگر ہم اپنی روحانی ذہانت کو بیدار کریں، تو نہ صرف ہم اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ترقی کریں گے، بلکہ ہم دوسروں کی زندگیوں میں بھی مثبت تبدیلی لا سکیں گے۔
روحانیت کا سفر
روحانیت کوئی مخصوص منزل نہیں ہے، بلکہ مسلسل جاری رہنے والا سفر ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ علم، روحانیت اور خلوص کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے ہمیشہ دیرپا ہوتے ہیں۔ سرمد صہبائی نے کیا خوب لکھا ہے،’’ہر انسان کا روحانی تجربہ اُس کا اپنا ہوتا ہے، روحانیت عالم گیر چیز ہے اس کو پراڈکٹ نہیں بنانا چاہیے۔‘‘ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ننگے اور تاریک معاشرے میں زندہ ہیں جہاں روحانیت اور پاکیزگی عمدہ لباس زیب تن کر کے اس کی شرم کو چپھانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔یاد رہے کہ قوموں کی تعمیر و ترقی کے فیصلے، حماقت اور طاقت سے نہیں، حکمت اور ہمت سے ہوتے ہیں۔
اس لیے کبھی کبھی زندگی میں ڈٹے رہنا ہی نہیں، پیچھے ہٹ جانا بھی کام یابی ہوتی ہے، یہ موٹیویشن نہیں، حکمت ہوتی ہے۔ علم سنانا چاہتا ہے اور حکمت سننا چاہتی ہے۔ ’’علم ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھنے کا نام ہے، جب کہ حکمت ہر روز کچھ نہ کچھ جاننے دینے کا نام ہے۔ (جین کہاوت) علم کا حصول الفاظ کی کثرت دیتا ہے، جب کہ حکمت خاموشی عطا کرتی ہے۔ بس حکمت کو سمجھنے کے لیے حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’بہترین لکھیں، انتہائی دل چسپ کتاب جو آپ لکھ سکتے ہیں، حکمت سے بھرپور، ایمان داری اور انسانیت سے سرشار کتاب جو آپ کے اندر ہے۔‘‘ (اینا لیموٹ)
میں اکثر سوچتا ہوں کہ انسان کی زندگی میں کام یابی کا کیا فائدہ اگر وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، بہترین ادارے میں کام کرے، شان دار گھر اور خوش حال خاندان کا مالک ہو، اور ایک پُرآسائش زندگی بسر کر رہا ہو، لیکن ان سب کے باوجود اپنے خالق سے تعلق قائم نہ کر سکے اور اپنی رُوح کو محفوظ نہ رکھ سکے؟ کیوںکہ اگر روحانی سکون میسر نہ ہو تو دُنیاوی کام یابیاں محض ایک سراب بن کر رہ جاتی ہیں۔ زندگی کی اصل خوبصورتی صرف مادی ترقی میں نہیں ہے، بلکہ روحانی بیداری اور قلبی اطمینان میں بھی ہے۔
اگر دل بے چین ہو، رُوح بھٹک رہی ہو، اور انسان اپنے خالق کو فراموش کر چکا ہو، تو دُنیا کی کوئی بھی کام یابی اسے مکمل نہیں کر سکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں سب کچھ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں توازن قائم رکھنا چاہیے۔ دُنیاوی ترقی کے ساتھ روحانی ترقی بھی ضروری ہے۔ جب انسان اپنے رب سے جُڑتا ہے، تو اُسے حقیقی خوشی، سکون اور مقصدیت نصیب ہوتی ہے۔ اس تعلق کے بغیر، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی زندگی میں ایک خلا باقی رہ جاتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: روحانی ذہانت ہمیں روحانی ذہانت کو اپنی زندگی میں پیشہ ورانہ اپنے خالق سے بالاتر کو سمجھنے دوسروں کی ذہانت کی زندگی کے انسان کو کی زندگی کام یابی ہوتی ہے دیتی ہے کے ساتھ میں ایک کرتی ہے کے لیے اور ان
پڑھیں:
ڈیتھ بیڈ
ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اﷲ تعالیٰ نے اس کی زبان میں تاثیر رکھی تھی‘ وہ جس سے بات کرتا تھا‘ وہ اپنااکاؤنٹ اس کی کمپنی کے حوالے کر دیتا تھا‘ ٹام روز کمپنی کے سرمائے میں ایک دو ملین ڈالر کا اضافہ کر تا تھا‘ کمپنی اس سے خوش تھی اور وہ کمپنی سے بہت خوش تھا۔
ٹام کا لنچ فائیو اسٹار فرنچ‘ اٹالین اور مراکو ریستورانوں میں ہوتا تھا‘ لنچ کا بل کمپنی ادا کرتی تھی‘ کمپنی نے اس کے دوسرے اخراجات بھی اٹھا رکھے تھے‘ گاڑی کمپنی نے دی‘ مین ہیٹن میں تین بیڈ روم کا فلیٹ بھی کمپنی نے دیا تھا‘ وہ کمپنی کا جیٹ اور ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرتا تھا‘ کمپنی فرسٹ کلاس فضائی ٹکٹ بھی دیتی تھی‘ تنخواہ بھی چھ ہندسوں میں تھی اور ٹام کے پورے خاندان کی میڈیکل انشورنس بھی کمپنی کے ذمے تھی۔
شام چھ بجے اس کی ذاتی مصروفیات شروع ہو جاتی تھیں‘ وہ کلب جاتا تھا‘ وہاں نئے دوست بناتا تھا‘ یہ نئے دوست آنے والے دنوں میں اس کے کلائنٹ بنتے تھے‘ وہ ڈنر بھی فائیو اسٹار ہوٹل میں کسی فائیو اسٹار بزنس مین کے ساتھ کرتا تھا‘ دس بجے کے بعد وہ کسی اعلیٰ درجے کے پب یا رقص گاہ میں چلا جاتا تھا‘ وہ دو گھنٹے وہاں رہتا تھا‘ بارہ بجے واپس آتا تھا تو اس کی بیگم اور تینوں بچے سو چکے ہوتے تھے‘ وہ بھی آڑھا ترچھا ہو کر لیٹ جاتا تھا‘ اگلی صبح آٹھ بجے پھر کام شروع ہو جاتا تھا۔
یہ سلسلہ جمعہ تک چلتا تھا‘ وہ جمعہ کی شام کمپنی کا جیٹ جہاز لے کر نیویارک سے باہر چلا جاتا تھا‘ کبھی شکاگو‘ کبھی آرلینڈو‘ کبھی میامی‘ کبھی سان فرانسسکو اور کبھی ہونولولو۔ وہ مہینے میں ایک بار یورپ‘ مڈل ایسٹ یا مشرق بعید کا چکر بھی لگا تا تھا‘ مارتھا اس کی بیوی یورپ اور فارایسٹ کی وزٹس میں اس کے ساتھ ہوتی تھی‘ یہ اس کے معمولات تھے‘ اﷲ نے جوانی ہی میں اسے نعمتوں سے نواز دیا تھا‘ پیسہ تھا‘ دوست تھے‘ توانائی تھی‘ فیملی تھی اور نصف درجن کریڈٹ کارڈ ۔ ٹام کی زندگی شاندار تھی لیکن پھر اسکو نظر لگ گئی۔
ٹام ایک صبح اٹھا تو اس کا سر بھاری تھا‘ اس نے اس بھاری پن کو رات کی شراب نوشی کے کھاتے میں ڈال دیا‘ اس نے ’’ہینگ اوور‘‘ سمجھ کر اپنا سر جھٹک دیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھاری پن درد بن گیا‘ وہ ڈاکٹر کے پاس گیا‘ ڈاکٹر نے اسے درد کش گولیاں دیں اور گھر بھجوا دیا لیکن درد میں افاقہ نہ ہوا‘ وہ رات بے چینی اور بے آرامی میں گزری‘ وہ اگلی صبح دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گیا۔
ڈاکٹر نے خون چیک کرانے کا مشورہ دیا‘ وہ لیبارٹری چلا گیا‘ بلڈ رپورٹس آئیں توڈاکٹر نے خون کے مزید دو نمونے لیے اور یہ دو مختلف لیبارٹریوں میں بھجوا دیے‘ ہفتے بعد رپورٹس آ گئیں‘ تینوں لیبارٹریوں کی رپورٹ ایک جیسی تھیں‘ ڈاکٹر نے اس سے مزید دو دن مانگے اور اسکی رپورٹس ملک کے تین بڑے اسپیشلسٹس کو بھجوادیں‘ تینوں کا ایک ہی جواب تھا‘ معجزے کے علاوہ مریض کا کوئی علاج نہیں‘پھر ڈاکٹر نے اسے بلایا‘ کرسی پر بٹھایا‘ پانی کا گلاس اسکے ہاتھ میں دیا اور سرجھکا کر بولا ’’ٹام تمہارے پاس صرف تین ماہ ہیں‘‘۔
ٹام کے طوطے اڑ گئے‘ اس نے گھبرا کر پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ ڈاکٹر نے بتایا ’’تم بلڈ کینسر کی آخری اسٹیج پر ہو‘ اس اسٹیج کا معجزے کے سوا کوئی علاج نہیں ہوتا‘ تمہارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ تم یہ تین مہینے مختلف ڈاکٹروں اور مختلف اسپتالوں کا چکر لگا کر گزار دو یا پھر ان تین ماہ کو اپنی زندگی کے بہترین دن رات بنا لو‘ چوائس از یورز‘‘۔
یہ لفظ بم تھے اور ان بموں نے ٹام کی بنیادیں ہلا دیں‘ وہ اٹھا اور چپ چاپ باہر نکل گیا‘ وہ دماغی طور پر غائب ہو چکا تھا‘ وہ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا لیکن اسے نظر کچھ نہیں آ رہا تھا‘ وہ کانوں سے سن رہا تھا لیکن اسے سنائی کچھ نہیں دے رہا تھا اور وہ چل رہا تھا لیکن اس کے قدم نہیں اٹھ رہے تھے‘ وہ دس منٹ میں کامیاب لوگوں کی فہرست سے ناکام ترین لوگوں میں شامل ہو چکا تھا‘ وہ چلتا رہا‘ صبح تک پیدل چلتا رہا‘ اگلے دن کے سورج نے آنکھ کھولی تو ٹام کی آنکھ بھی کھل گئی۔
وہ بیخودی میں چلتے چلتے نیویارک سے باہر آ گیا‘ وہ نیویارک کے مضافات کا چھوٹا سا گاؤں تھا اور وہ گاؤں کی مصنوعی جھیل کے کنارے کھڑا تھا‘ اس نے جھرجھری لی‘ ایک لمبا سانس لیا‘ اپنی ٹائی کھولی‘ اوورکوٹ کی جیب سے میڈیکل رپورٹس نکالیں‘ پھاڑیں‘ ڈسٹ بین میں پھینکیں اور ڈیتھ بیڈ کے تین ماہ کو آئیڈیل بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ فیصلے کے اس لمحے نے ٹام کی زندگی بدل دی۔
ٹام روز آسمان دیکھتا تھا‘ وہ زندگی میں سیکڑوں جھیلوں کے کناروں پر گیا‘ اس نے زندگی میں ہزاروں پھول بھی دیکھے اور اس نے کم وبیش اتنے ہی پرندوں کی آوازیں بھی سنی تھیں لیکن فیصلے کے اس ایک لمحے نے ان تمام آوازوں‘ پھولوں‘ جھیلوں اور آسمانوں کا رنگ بدل دیا‘ آسمان‘ جھیل‘ پھول اور آوازیں‘ کائنات کی ہر چیز خاص ہو گئی۔
اس کے حلق میں چالیس برس سے درج ذائقے زندہ ہو گئے‘ وہ ماں کے دودھ سے پچھلی رات کی شراب تک ہر نگلی چکھی چیز کا ذائقہ محسوس کرنے لگا‘ وہ چالیس برس سے گھروں کی چمنیاں اور ان چمنیوں سے ابلتا دھواں دیکھ رہا تھا لیکن دھوئیں میں تین رنگ ہوتے ہیں‘ یہ اسے زندگی میں پہلی بار معلوم ہوا‘ وہ روز سانس لیتا آیا تھا‘ اس کے پھیپھڑے روزانہ سکڑتے اور پھیلتے تھے لیکن اس نے ہوا کے ذائقے‘ ہوا کی خوشبو کو پہلی بار محسوس کیا تھا۔
شبنم جب پاؤں کے نیچے کچلی جاتی ہے تو وہ ایک خاص آواز میں احتجاج کرتی ہے‘ شبنم کا وہ احتجاج بھی اس نے زندگی میں پہلی بار محسوس کیا‘ آبی پرندے جب جھیل سے جدا ہوتے ہیں تو یہ جھیل کو بوندوں کی سلامی پیش کرتے ہیں‘ جدائی کی یہ سلامی بھی اس نے پہلی بار محسوس کی‘ وہ ہمیشہ فراری اور لیموزین میں سفر کرتا تھا۔
وہ طویل عرصے بعد بس اور ٹرین میں سوار ہوا‘اس نے پہلی بار ٹرین کی ٹک ٹک ٹھک ٹھک محسوس کی‘ وہ بچپن سے کافی پی رہا تھا لیکن کافی کا ذائقہ اسے پہلی بار محسوس ہوا‘ ہوا میں نمی بھی ہوتی ہے‘ اس کا احساس اسے پہلی بار ہوا‘ چلتے ہوئے قدموں کی آواز میں ایک ردھم‘ ایک موسیقی ہوتی ہے‘ یہ بھی اسے پہلی بار محسوس ہوا اور موبائل فون‘ نیوز چینلز‘ مہنگی گاڑیاں اورتعلقات یہ دنیا کی واہیات ترین چیزیں ہیں۔
یہ بھی اسے پہلی بار پتا چلا‘ وہ گھر پہنچا‘ اس نے بچوں کے چہرے دیکھے‘ اپنے کتے جیری کو غور سے دیکھااور بیوی کو نظر بھر کر دیکھا تو معلوم ہوا اصل خوشی تو یہ ہیں‘ اس نے اپنے بینک اکاؤنٹس دیکھے‘ کریڈٹ کارڈ کے بل پڑھے اور قسطوں پر خریدی چیزوں کا ڈیٹا دیکھا تو پتا چلا وہ آج تک بینکوں‘ پراپرٹی ڈیلروں اور الیکٹرانکس بنانے والی کمپنیوں کے لیے پیسہ کماتا رہا تھا‘ اسے زندگی میں پہلی بار اپنے لان میں کھلے پھول اور میز پر پڑے سنگترے کی خوشبو محسوس ہوئی‘ اسے پہلی بار اپنی وارڈروب کے کپڑے اور جوتے اضافی لگے اور اسے گھر کی گراسری فضول خرچی محسوس ہوئی ۔
ٹام کی زندگی کا اگلادن بظاہر موت کی طرف ایک اور قدم تھا لیکن عملاً وہ اس کی زندگی کا پہلا دن تھا‘ اس نے زندگی کے اس پہلے دن جاب سے استعفیٰ دے دیا‘ کریڈٹ کارڈ توڑ کر ٹوکری میں پھینک دیے‘ بینک میں پڑی ساری دولت نکال لی‘ آدھی پر اپرٹی بیچ کر آدھی کی قسطیں ادا کر دیں‘پراپرٹی کو کرائے پر چڑھا دیا‘ بچوں کو اسکول سے چھٹی کرائی اور فیملی کو ساتھ لے کر لانگ ہالیڈیز پر نکل گیا۔
اس نے اپنے تمام مخالفوں‘ تمام دشمنوں سے اپنے رویے کی معافی مانگ لی اور وہ لوگ جنھوں نے اس کا دل دکھایا تھا‘ ان سب کو صدق دل سے معاف کر دیا‘ اس نے وہ سو کتابیں بھی خرید لیں جنھیں وہ زندگی میں پڑھنا چاہتا تھا‘ ٹام نے اس دن ہر ملنے والے کو مسکرا کر ملنا شروع کر دیا‘ سوری اور تھینک یو اس کا تکیہ کلام بن گیا تھا۔
وہ لوگوں کو کم اور فیملی اور دوستوں کو زیادہ وقت دینے لگا‘ وہ شام ساڑھے سات بجے ڈنر کرنے لگا‘ وہ نو بجے سو جاتا تھا‘ ساڑھے چار بجے اٹھ جاتا تھا اور صبح تین گھنٹے جنگلوں‘ جھیلوں اور پارکوں میں گھومتا تھا‘ موبائل اس نے بند کر دیا‘ فلمیں وہ دیکھنے اور میوزک سننے لگا‘ ٹام کی اس نئی زندگی نے ٹام کو بتایا‘ اصل زندگی تو ڈیتھ بیڈ کی زندگی ہے‘ہم انسان تو اس وقت جینا شروع کرتے ہیں جب ہم اپنی موت کا دن معلوم کر لیتے ہیں‘ ہمیں اس وقت معلوم ہوتا ہے‘ ہم انسان جسے زندگی سمجھتے ہیں‘ وہ دراصل مرے ہوئے بے جان دن ہوتے ہیں اور جسے ہم موت سمجھتے ہیں وہ اصل زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
ٹام نے اپنی زندگی کے شاندار دن ڈیتھ بیڈ پر گزارے‘ اصل زندگی کے اصل دن لیکن ہم یہ اصل زندگی کب شروع کرینگے؟ اس دن جب ہمیں بھی ڈاکٹر یہ بتائے گا ’’آپ کے پاس صرف ایک مہینہ بچا ہے‘‘۔