8 شوّال۔۔۔ ہم زمین پر گِرے پڑے لوگ
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: دنیا بھر کے غیور اور شریف لوگ ایک صدی سے اس صدمے میں مبتلا ہیں۔ اس روز صرف مسلمانوں کا تاریخی و روحانی ورثہ ہی پامال نہیں ہوا بلکہ اُن ہستیوں کی بے حُرمتی کی گئی کہ جن کی تکریم و تقدیس ہر مسلمان کے دل پر کنندہ ہے۔ جنّت البقیع کا انہدام جہاں سعودی عرب کی "پاور پالیٹکس" (Power Politics) کا واضح مظہر ہے، وہیں اُمّت مسلمہ کی بے بسی کی روشن دلیل بھی۔ اس وقت دنیا میں سعودی عرب اور اسرائیل دونوں ریاستیں مسلمانوں کے مذہبی ورثے کو مسمار کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں، جو کہ "سیمیولوجیکل ڈیسٹرکشن" (Semiological Destruction) کی اپنی مثال آپ ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
خبردار! یہ بقیع کی سرزمین ہے۔ اس کی خاک میں آسمان دفن ہیں۔ ہر سال ۸ شوال کی تاریخ کو یہاں سے خون کا چشمہ اُبل پڑتا ہے۔ اس روز یعنی ۸ شوّال کو سرزمینِ وحی پر محبت، احترام، تقدّس، ناموس، عزّت، شرافت اور انسانیت کی ساری علامتوں اور نشانیوں کو مٹا دیا گیا۔ دنیا بھر کے غیور اور شریف لوگ ایک صدی سے اس صدمے میں مبتلا ہیں۔ اس روز صرف مسلمانوں کا تاریخی و روحانی ورثہ ہی پامال نہیں ہوا بلکہ اُن ہستیوں کی بے حُرمتی کی گئی کہ جن کی تکریم و تقدیس ہر مسلمان کے دل پر کنندہ ہے۔ جنّت البقیع کا انہدام جہاں سعودی عرب کی "پاور پالیٹکس" (Power Politics) کا واضح مظہر ہے، وہیں اُمّت مسلمہ کی بے بسی کی روشن دلیل بھی۔ اس وقت دنیا میں سعودی عرب اور اسرائیل دونوں ریاستیں مسلمانوں کے مذہبی ورثے کو مسمار کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں، جو کہ "سیمیولوجیکل ڈیسٹرکشن" (Semiological Destruction) کی اپنی مثال آپ ہے۔
مسلمانوں کے تاریخی ورثے کو پامال کرنے والی مذکورہ دونوں ریاستوں کی اپنی اپنی مخصوص مذہبی شناخت بھی ہے، جسے وہ عالمی سطح پر منوانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ سعودی عرب کی دیکھا دیکھی اسرائیل نے فلسطین میں مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کو تباہ کرکے "کولونیل ہیجمنٹس" (Colonial Hegemonies) کی طرف قدم بڑھایا ہے، جہاں اس کی ریاستی طاقت نے فلسطینیوں کی شناخت کو ایک "ایکسٹریم ڈسپیوریا" (Extreme Dispossession) میں تبدیل کر دیا۔ دونوں ریاستیں اپنی اپنی مذہبی شناخت کو قائم کرنے کے لیے مسلمانوں کی ثقافتی خودمختاری کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہی وہ "پولیٹیکل نیکسیس" (Political Nexus) ہے، جس کی طرف مسلم دُنیا کی ابھی تک توجہ نہیں۔
اس "تسلط پسند" (Dominance) رویئے کی جھلک پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات میں بھی دیکھی جاتی ہے، جہاں سعودی عرب نے پاکستان اور پاکستانی عوام کو ہمیشہ اپنی "غلامی" کے دائرے میں رکھنے کی کوشش کی اور اسرائیل نے پاکستان کو عالمی سطح پر "سیگریکیشن" (Segregation) کا شکار بنایا۔ یہ تمام عوامل ایک "کاسموپولیٹن ویژن" (Cosmopolitan Vision) کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں اسلامی برادری کے مشترکہ مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے، ان دونوں ممالک کی پالیسیاں عالمی سطح پر مسلمانوں کے اسلامی و انسانی حقوق اور ثقافتی ورثے کی پامالی کا سبب بن رہی ہیں۔ سعودی عرب میں 1920ء کی دہائی میں جب وہابی ازم نے زور پکڑا، تو مکہ اور مدینہ میں موجود متعدد تاریخی مقامات اور مزارات کو مٹا دیا گیا۔ پیغمبر اسلامﷺ کے اہلِ بیت اور صحابہ کرام کے مزارات کو منہدم کر دیا گیا اور جنت البقیع کو مسمار کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ، سعودی عرب نے نبیﷺ کے والدین، آپ کی زوجہ بی بی خدیجہ، اور دیگر اہم شخصیتوں سے منسوب ان گنت مقامات کو بھی ڈھا دیا۔ یوں سعودی حکومت نے اسرائیل کی مانند اپنی مذہبی پالیسی کو دنیا بھر کے اہلِ سُنّت اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف پوری طاقت سے نافذ کیا۔
دوسری طرف اسرائیل نے بھی سعودی عرب کی دیکھا دیکھی مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مسجد الاقصیٰ کو کئی مرتبہ آگ لگائی گئی اور کئی مرتبہ یہاں کے داخلی حصے اور اس کے ارد گرد کے مقامات کو نقصان پہنچایا گیا۔ سعودی عرب کی طرح نمازیوں اور زائرین کو ہراساں کرنا اسرائیلیوں کا معمول ہے۔ اسی طرح دیوار براق جو کہ فلسطین کا ایک اہم ثقافتی ورثہ ہے، خلیل (Hebron) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مکتبہ، نابلس اور اس کے گرد و نواح کی قدیم عمارات کو بھی متعدد بار اسرائیلی افواج تہہ و بالا کرچکی ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 سے غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری کے دوران 100 سے زائد ثقافتی مراکز تباہ ہو گئے ہیں، جن میں فلسطین کی تاریخی مسجد عمری، چرچ آف سینٹ پورفیریوس، اور 2000 سال قدیم رومی قبرستان شامل ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں فلسطینیوں کی ثقافتی شناخت اور تاریخ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، جو علاقے کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان اقدامات سے دونوں ممالک کے خطے میں ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچا ہے اور ان کی طاقت کا اظہار ہوا ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل دونوں مسلمانوں کے ساتھ سفارتکاری کے بجائے طاقت کے استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ مختلف سیاسی اور عسکری معاملات میں طاقت کا استعمال کیا ہے۔ جیسے ابھی یمن میں حوثیوں کے خلاف فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔ سعودی عرب نے یمن میں اپنی حمایت میں وسیع پیمانے پر فوجی کارروائیاں کیں، جس سے وہاں کی شہری آبادی اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ سعودی حکومت نے بحرین میں 2011ء کے عوامی احتجاج کے دوران بحرین کی حکومت کی مدد کے لیے فوجی بھیجے اور وہاں کی شیعہ اکثریتی آبادی پر شبخون مارا۔ ایسے ہی اسرائیل نے فلسطین اور لبنان میں اپنی فوجی کارروائیوں کے ذریعے وسیع پیمانے پر تباہی مچائی، جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر مسلسل حملوں کا سلسلہ ماضی میں بلاوقفہ جاری رہا ہے، خاص طور پر غزہ کی پٹی میں جہاں 2023ء کی بمباری نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ اسرائیل اور سعودی عرب کا یہ رویہ مسلمانوں کو طاقت سے تباہ کرنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی طرح پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات بھی بہت ہی گھٹیا اور پست بنیادوں پر استوار ہیں۔ سعودی عرب کے حکام کی جانب سے پاکستانیوں کو "غلام" کہنے اور " غلام " سمجھنے کی ریت کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ آج بھی ساری خلیجی ریاستوں خصوصاً سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ "غلاموں" جیسا سلوک ہی کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی طرف سے بھی پاکستان کو مسلسل تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سعودی عرب کی مانند اسرائیل نے بھی ماضی میں پاکستان کے خلاف توہین آمیز بیانات دیئے ہیں، خاص طور پر جب اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سعودی عرب کے ذریعے تجاویز پیش کیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی بھی ہمیشہ کوشش کی ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل دونوں بغیر کسی لچک کے صرف طاقت کے استعمال اور "اپنی برتری" پر یقین رکھتے ہیں۔ دونوں نے اب تک اپنے اس نظریئے کو منوایا ہے۔ سعودی عرب و اسرائیل کی منہ زوری اور عالمِ اسلام کی تاریخ کو دیکھ کر ان چند سطروں پر کالم کو ختم کرتا ہوں کہ
بادِ مخالف کے سبب
ہم زمین پر گرے پڑے لوگ
جب کبھی دوبارہ اٹھنے کا ارادہ کر لیتے ہیں تو
آفاق کی بلندیاں،
ہمارے سامنے، اپنا سر خم کر لیتی ہیں۔۔۔
ٹوٹے ہوئے پروں سے پرواز اور کٹے ہوئے بازووں سے علم بلند کرنا۔۔۔
ہمارا ہی ہُنر ہے!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سعودی عرب اور اسرائیل دونوں عالمی سطح پر سعودی عرب کی ثقافتی ورثے نقصان پہنچا مسلمانوں کے اسرائیل نے نے فلسطین کی تاریخ دیا گیا ورثے کو کے لیے
پڑھیں:
وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی
بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کرتی رہتی ہے یہ نہ صرف مسلمانوں کو ہندوؤں کا دشمن قرار دیتی ہے بلکہ مسلمانوں کو غیر ملکی بھی خیال کرتی ہے۔ برصغیر میں اسلام پھیلانیکا سہرا بزرگان دین کے سر ہے جن کی تعلیمات سے متاثر ہوکر غیرمسلم جوق در جوق مسلمان بنے۔ جہاں تک مسلمان بادشاہوں کا تعلق ہے۔ اسلام کو پھیلانے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔
حقیقت تو یہ ہے بی جے پی کے پروپیگنڈے کے قطع نظر ہندو مسلمان بادشاہوں سے اتنے مانوس تھے کہ جب 1857 میں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو ختم کرنا چاہا تو ہندو ان کے ساتھ تھے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ انگریزوں سے لڑے۔
اگر انگریزوں کو ساورکر جیسے غدار ہندوستانی نہ ملتے تو وہ چند سالوں میں ہی ہندوستان سے نکال دیے جاتے مگر اس شخص نے نہ صرف انگریزوں کی غلامی کو قبول کیا بلکہ ان کی ہدایت کے مطابق ہندو مسلمانوں میں خلیج پیدا کی جس کی وجہ سے دونوں قوموں میں دوریاں پیدا کی گئیں۔ ہندو مسلمانوں میں نفرت کی وجہ سے انگریز ہندوستان پر ڈیڑھ سو سال تک حکومت کرتے رہے۔ اسی ساورکر کی وجہ سے ہندوستان میں کئی مسلم دشمن تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) بھی ہے۔
بی جے پی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے جو اس وقت بھارت میں برسر اقتدار ہے اور مسلمانوں کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے ۔ چند سال قبل یہ متنازعہ شہریت بل متعارف کرا چکی ہے جس کے تحت بھارتی مسلمانوں کو بھارت میں اپنی شہریت ثابت کرنا ہے۔
مسلمانوں نے اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور بالآخر بی جے پی حکومت کو اسے موخر کرنا پڑا۔ اسی بی جے پی نے بابری مسجد کو رام جنم بھومی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا اور بالآخر اپنی حکومتی طاقت کے بل پر اس قدیم مسجد کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر گائے کاٹنے یا اسے ایذا پہنچانے کے الزام میں درجنوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔
پھر لَو جہاد کا مسئلہ کھڑا کیا اورکئی مسلم نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ پھر دھرم پری ورتن یعنی مذہب کی تبدیلی کی مہم چلائی گئی جس کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنانا شروع کیا گیا مگر یہ اسکیم کامیاب نہ ہو سکی اور اسے بند کرنا پڑا۔ اب مسلمانوں کو تنگ کرنے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے وقت کی زمینوں اور جائیدادوں میں مداخلت کی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں ایک بل پیش کر کے لوک سبھا میں پاس کرایا گیا ہے۔ اس بل کو پاس ہونے سے روکنے کے لیے کئی سیکولر سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ لوک سبھا میں اس بل پر ووٹنگ میں اس کی حمایت میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ آئے۔
ظاہر ہے کہ حکومت نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر اس متنازعہ بل کو پاس کرا لیا تھا۔ یہ بل پاس تو ہوگیا ہے مگر مسلمان اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ احتجاجی مسلمانوں پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈے حملے کر رہے ہیں تاکہ انھیں چپ کرا دیا جائے مگر مسلمان اس بل کو واپس لینے کے لیے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ بل کسی طرح بھی ہندوؤں یا ملک کے خلاف نہیں تھا، یہ ایک خالص مذہبی معاملہ ہے۔ زمینوں کا اللہ کی راہ میں وقف کرنا اور پھر انھیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنا ایک پرانا نظام ہے۔ وقف زمینوں کی دیکھ بھال ایک بورڈ کے ذمے ہوتی ہے جو وقف بورڈ کہلاتا ہے۔
ایسے وقف بورڈ بھارت کے ہر شہر میں موجود ہیں۔ ان زمینوں کو مدرسے، اسکول، اسپتال، قبرستان، مساجد اور عیدگاہ وغیرہ کے قیام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وقف قانون میں پہلی دفعہ 1995 میں ترمیم کی گئی تھی اس کے بعد 2013 میں پھر کچھ تبدیلی کی گئی۔ اب نئی ترمیمات نے بل کی شکل ہی بدل دی ہے۔ بی جے پی حکومت نے ان نئی ترمیمات کے ذریعے مسلمانوں کے اختیارات کو کم سے کم کر دیا ہے۔
اب نئی ترمیمات کے ذریعے دو غیر مسلم نمایندے بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ جب یہ مکمل مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور صرف وہی اپنی زمینوں کو وقف کرتے ہیں تو ہندوؤں کو بورڈ میں شامل کرنے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔
اب نئے قانون کے تحت ہر ضلع کا کمشنر پراپرٹی کا سروے کرے گا اور ضلع کا اعلیٰ سرکاری عہدیدار فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف کی ہے یا نہیں۔ وقف کے معاملات میں مداخلت پر مسلمانوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مسلمانوں کے معاملے میں حکومت جو چاہتی ہے سپریم کورٹ بھی وہی فیصلہ دیتی ہے۔
کچھ مسلمان یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ جب مسلمانوں کے معاملات میں ہندوؤں کو دخل اندازی کا موقع دیا جا رہا ہے تو پھر مسلمانوں کو بھی ہندوؤں کے مندروں وغیرہ کی زمینوں کے ٹرسٹ میں شامل کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہو رہا ہے۔
یہی بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی ہے جس سے وہ انتخابات کے وقت سیاسی فائدہ اٹھاتی ہے۔ وہ 15 برس سے مسلم کارڈ کے سہارے ہی حکومت پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ وقف جیسے مسلمانوں کے مذہبی معاملات پر زیادتی کے سلسلے میں لیاقت نہرو معاہدے کے تحت حکومت پاکستان بھارتی حکومت سے بات کر سکتی ہے مگر افسوس کہ ہماری حکومت بالکل خاموش ہے پھر سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے میڈیا نے بھی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اس زیادتی پر کچھ لکھا اور نہ کہا۔