تحریک انصاف، اختلافات اور قیادت کا خلا
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
ہیجانی سیاست کی ماہر تحریک انصاف آج کل پریشان پریشان سی ہے۔ جماعت کے سیاسی قلعے خیبر پختونخواسے آنے والی خبریں کچھ اچھی نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ جماعت میں تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کی دو دھاری تلوار نت نئے زخم لگا رہی ہے ۔یہ وہی شمشیر بے نیام ہے جس کے ذریعے انصافی ہرکاروں نے سیاسی مخالفین کو بھی لہو لہان کیا اور ریاستی اداروں کو بھی گہرے زخم لگائے۔ بیرون ملک مقیم سوشل میڈیائی ہرکارے اپنا کام دکھا رہے ہیں ۔یہ بچھو جیسی فطرت رکھتے ہیں۔ یہ صرف ڈسنا جانتے ہیں۔ کل تک یہ انصافی گروہ کے اشارہ ا برو پر مخالف سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو ڈسا کرتے تھے۔ آج اپنی سابقہ مربی و محسن پی ٹی آئی کی قیادت کو ڈس رہے ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ مفرور یوٹیوبر اور وی لاگرز کی بڑی تعداد باضابطہ طور پر تحریک انصاف کے تنظیمی ڈھانچے سے وابستہ نہیں۔ البتہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ اپنے تیئں پی ٹی آئی کے مرکزی منصوبہ ساز ہونے کا روپ دھارے بیٹھے ہیں۔ رفتہ رفتہ یوٹیوبرز کا گروہ ریاست سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے لگا ہے ۔ تحریک انصاف کا معاملہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔عدم اعتماد میں ناکامی کے بعد حکومت گنوانے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے امریکہ مخالف پرکشش بیانیے سے جب عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کی تو سوشل میڈیائی کلاکاروں کی چاندی ہو گئی۔
سابق وزیراعظم کی مقبولیت کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے سوشل میڈیا انفلونسرز کی ایک بڑی تعداد نے خان صاحب کی مدح سرائی کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دئیے۔عسکری اداروں اور ان کی قیادت کے خلاف جعل سازی سے گھڑے گئے جھوٹے بیانیے کا چورن بیچ کر بہت سے وی لاگرز اور یوٹیوبرز ڈالر بٹورتے رہے ہیں۔ چند معروف اینکر بیرون ملک فرار ہو جانے کے بعد آج کل جعلی انقلاب کامصالحے دار بیانیہ سوشل میڈیا کی ریڑھی پر رکھ کر ڈالر چھاپ رہے ہیں۔ایک عینک والے ڈاکٹر صاحب جو کہ تحریک انصاف کی کابینہ کے رکن بھی رہے ہیں آج کل امریکہ میں یہی کاروبار کر رہے ہیں ۔ دوسرے ڈاکٹر صاحب ایک سابقہ اینکر ہیں اور وہ بھی جعلی خبروں کی معجون انقلاب فروخت کر رہے ہیں۔ ان حضرات کے سر میں سر ملانے والوں میں سر پر چترالی ٹوپی سجائے ہوئے ایک گنجے سابقہ اینکر اور لندن میں مقیم سابق وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب امور بھی شامل ہیں۔کورٹ مارشل شدہ بھگوڑے فوجی افسروں کی ایک چھوٹی سی ٹولی بھی اپنی اپنی سوشل میڈیائی ریڑھی پر جعلی خبروں اور افواہوں کا چورن فروخت کر کے مال بٹور رہے ہیں ۔بیرون ملک بیٹھ کر ریاست پر کیچڑ اچھالنا آسان ہے ۔اس میں مال بھی بن جاتا ہے لیکن انسان خود اپنی اور اپنے اہل خانہ کی نظروں سے بھی گر جاتا ہے۔ کوئی نوسر باز اینکر یا بھگوڑا کوٹ مارشل شدہ فوجی یہ سب کچھ کرے تو اسے دولت کا لالچ سمجھ کر نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے ۔لیکن کسی قومی سیاسی جماعت کو یہ سب کچھ زیب نہیں دیتا۔ سوشل میڈیا پر جھوٹا بیانیہ گھڑا جا سکتا ہے اور عوام کو گمراہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن سیاست کے میدان میں فعال جماعتیں پروپیگنڈے کے زور پر حکومت کے معاملات نہیں چلا سکتیں ۔عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں ٹھوس قانونی دلائل اور ناقابل تردید ثبوتوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ عدلیہ کو سوشل میڈیائی ہلے گلے سے قائل نہیں کیا جا سکتا ۔ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف آج اپنے پالے ہوئے سوشل میڈیا کے بے لگام منہ زور گھوڑے کے سموں کا شکار ہوتی جا رہی ہے ۔ امریکہ مخالف بیانیہ گھڑ کر عوام میں وقتی مقبولیت تو حاصل کر لی لیکن اپنے اسیر چیئرمین کی رہائی کے لیے مہنگی لابنگ فرمز کے ذریعے اسی امریکہ کی جانب ہی دست طلب دراز کیا جا رہا ہے۔جن لابنگ فرمز کے ذریعے صدر ٹرمپ کو لبھا کر سابق وزیراعظم کو رہا کروانا مقصود تھا اب انہیں فرمز کوانصافی سوشل میڈیائی کارندوں نے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے۔
بانی چیئرمین بدستور قید میں ہیں ۔انصاف اور شفافیت کی علمبردار پی ٹی آئی کے مرکزی قائد ین ایک دوسرے پر کرپشن اور پارٹی منشور سے غداری کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوامیں تحریک انصاف مسلسل تیسری مرتبہ اقتدار میں آئی ہے۔ آج تحریک انصاف کے صوبائی قائدین ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات عائد کر رہے ہیں ۔تیمور سلیم جھگڑا اور وزیر اعلی گنڈا پور نے جو الزامات عائد کیے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ صوبے میں کرپشن عروج پر رہی ہے ۔اختلافات کا عالم یہ ہے کہ امریکہ میں پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے بنائی گئی تنظیمیں بھی تحلیل کر دی گئی ہیں۔ بعض جعلی خبروں کے تاجر یوٹیوبرز امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے خلاف الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم محب وطن پاکستانیوں کے دورہ پاکستان کو انصافی سیاست کی بھینٹ چڑھانے کے لئے امریکی قوانین کے تحت تادیبی کاروائی کی گیدڑ بھبکیاں دی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں تحریک انصاف کی منتشر ہوتی صفوں میں قیادت کا گہرا ہوتا خلا مزید منکشف ہو گیا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مٹھی بھر انتشار پسند یو ٹیوبرز اور وی لاگرز نے تحریک انصاف کے بیانئے کو ہائی جیک کر لیا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سوشل میڈیائی تحریک انصاف سوشل میڈیا امریکہ میں کر رہے ہیں جا سکتا کہ میں کیا جا
پڑھیں:
تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔
پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کی بجائے سیاسی بقاء کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ’’ہائبرڈ سسٹم’’ (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔
یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دبائو یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے، جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم، پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کی گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔
پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔
اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے: اپنے قیدی رہنمائوں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا، اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کی بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔
Post Views: 5