سپریم کورٹ نے ججز روسٹر جاری کر دیا ہے۔ آئندہ ہفتے 7 بینچز مقدمات کی سماعت کریں گے۔ بینچ ایک چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل ہوگا۔

ترجمان سپریم کورٹ کے مطابق بینچ 2 میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباس شامل ہیں۔ بینچ 3 جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور شاہد وحید جبکہ بینچ 4 جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس ملک شہزاد پر مشتمل ہے۔

مزید پڑھیں: اینٹی کرپشن ہاٹ لائن کونسی شکایات وصول کرے گی، سپریم کورٹ نے واضح کردیا

بینچ 5 جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل ہے۔ بینچ 6 میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس عامر فاروق شامل ہیں جبکہ بینچ 7 جسٹس ہاشم کاکڑ اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل ہے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 2 آئینی بینچز 7 اپریل سے 11 اپریل تک دستیاب ہوں گے۔ 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں سے متعلق مقدمات کی سماعت کرے گا۔ 5 رکنی آئینی بینچ ٹیکس مقدمات کی سماعت کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ججز روسٹر جسٹس شفیع صدیقی جسٹس شکیل احمد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، سپریم کورٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جسٹس شفیع صدیقی جسٹس شکیل احمد چیف جسٹس یحیی آفریدی سپریم کورٹ مقدمات کی سماعت سپریم کورٹ اور جسٹس

پڑھیں:

سپریم کورٹ: زیادتی کیس کے ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی گئی

—فائل فوٹو 

سپریم کورٹ آف پاکستان نے زیادتی کیس میں ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی۔

عدالتِ عظمیٰ نے ملزم حسن خان کو دفعہ 496 بی کے تحت مجرم قرار دیا۔

جسٹس شہزاد احمد نے اکثریتی فیصلے میں لکھا کہ واقعے کا مقدمہ 7 ماہ کی تاخیر سے درج کیا گیا تھا، متاثرہ خاتون نے واقعے کے وقت مزاحمت نہیں کی، طبی معائنے میں تشدد یا مزاحمت کے نشانات سامنے نہیں آئے، کیس زبردستی زیادتی کا نہیں بنتا۔

جسٹس صلاح الدین نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس صلاح الدین نے لکھا کہ متاثرہ لڑکی کی عمر تقریباً 24 سال تھی، واقعے کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوا، جس کی تصدیق ڈی این اے رپورٹ سے ہوتی ہے، جنسی جرائم کے مقدمات میں تاخیر غیر معمولی بات نہیں، معاشرتی دباؤ اور خوف کے باعث متاثرہ خاتون رپورٹ درج کروانے میں تاخیر کر سکتی ہے، اسلحے کی موجودگی میں مزاحمت نہ ہونا فطری عمل ہو سکتا ہے، 7 ماہ بعد طبی معائنہ مزاحمت کے نشانات ظاہر نہیں کر سکتا، زیادتی ثابت نہ ہونے سےخود بخود رضا مندی ثابت نہیں ہوتی، صرف سزا کم کرنے کے لیے جرم کی دفعہ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔

خیال رہے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو 20 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی تھی، جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ: زیادتی کیس کے ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی گئی
  • آئینی بینچ نے ایم ڈی کیٹ کیخلاف طلبا کی درخواستوں پر پی ایم ڈی سے جواب طلب کرلیا
  • سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے آنے والا شخص چل بسا
  • سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے آنے والا راولپنڈی کا رہائشی چل بسا
  • سپریم کورٹ کے استقبالیہ پر دل کا دورہ، راولپنڈی کے رہائشی عابد حسین چل بسا
  • سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے آنے والا راولپنڈی کا رہائشی چل بسا
  • سپریم کورٹ میں کرسمس کی مناسبت سے تقریب، چیف جسٹس نے کیک کاٹا 
  • وفاقی آئینی عدالت کو شرعی عدالت منتقل کرنے کا بڑا فیصلہ، نوٹیفکیشن جاری
  • ایمان مزاری، ہادی چٹھہ کو سپریم کورٹ سے ریلیف، حکم امتناع جاری
  • سپریم کورٹ نے ڈی لسٹ مقدمات سے متعلق نئی پالیسی تشکیل دیدی