Islam Times:
2025-12-13@23:06:42 GMT

خون روتا آسمان اور خاموش تماشائی

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

خون روتا آسمان اور خاموش تماشائی

اسلام ٹائمز: آج انسانیت کا مقدمہ انکی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.

com 

 یہ جنگ نہیں، انسانیت کا قتلِ عام ہے، جہاں بچے پرندوں کی طرح آزاد ہونے کی بجائے، ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں۔ غزہ کی فضا میں اب پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں، بلکہ دھویں کے بادل ہیں۔ جہاں سے خون کی بارش برس رہی ہے۔ ہر منظر ایک المیہ ہے، ہر سانس درد سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے بچے خواب نہیں دیکھتے، وہ تو بس اگلے بم سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ کاش دنیا کی آنکھیں کھل جائیں، کاش یہ آہیں کسی کے دل کو چھو جائیں۔ مگر ظلم تو یہ ہے کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانیت مر رہی ہے، وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔"  

آج مغربی تہذیب کا جنازہ اُٹھ رہا ہے، مگر اس کے ماتم میں کوئی ہاتھ نہیں بڑھا رہا۔۔۔۔۔کیونکہ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "انسانیت" کے نام پر ہولوکاسٹ کیا، جس نے ہیروشیما کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور جس کے ہاتھوں فلسطین، کشمیر اور عراق کے بچوں کے خون سے تاریخ کے اوراق رنگین ہوئے۔ یہ وہ تمدن ہے، جس نے "جمہوریت" کے نام پر دنیا کو تقسیم کیا، "آزادی" کے نعرے لگا کر قوموں کو غلام بنایا اور "انسانی حقوق" کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کے سینے چھلنی کیے۔ کیا یہی وہ روشن خیالی تھی، جس کا دعویٰ کیا جاتا تھا۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں تو مغربی میڈیا کی زبان گونگی ہوچکی ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے، جو اونٹ کی کٹی ہوئی ٹانگ پر "حقوقِ بشر" کے نام واویلا کرتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے، جس نے ۹/۱۱ پر آنسو بہائے تھے، مگر فلسطین کے ہزاروں ۹/۱۱ پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "Holocaust Memorial" بنایا، مگر غزہ کے بچوں کے لیے کوئی میوزیم نہیں بننے دیا۔ کیا انسانیت کی موت کا یہی ثبوت کافی نہیں؟ اور افسوس! مسلمانوں کی خاموشی اس ظلم پر مہرِ تصدیق ہے۔۔۔۔۔ وہ امت جو "وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُم" کی حامل تھی، آج اپنے ہی بہن بھائیوں کے لیے ایک ٹویٹ تک نہیں کر پا رہی۔ کیا یہی وہ ورثہ تھا، جو ہمیں رسولِ کریمﷺ نے دیا تھا؟ تاریخ ہمیں کیسے یاد رکھے گی۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں، مسلم ممالک کی دوغلی پالیسیاں بھی عیاں ہوچکی ہیں۔ "پاکستان، ترکی، اردن، سعودی عرب، مصر اور شام" کی حکومتیں مغرب کے سامنے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں، جو فلسطین پر تقریریں تو کرتے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان اقتصادی و سیاسی بحران کے نام پر فلسطین کی مدد کو معطل رکھے ہوئے ہے جبکہ امریکہ کی غلامی پر فخر، ترکی منافق اعظم مغرب کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مقدّم سمجھتا ہے، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے راستے پر چل نکلا ہے، جبکہ مصر اور اردن غزہ کی بند سرحدوں کو کھولنے میں ناکام رہے ہیں۔ شام کی حکومت ظالموں کے خلاف اٹھنے کے بجائے اسرائیل کےلئے لے پالک کا کام رہی ہے۔ اسرائیل سے زیادہ قصوروار نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔

لیکن اس تاریک منظر نامے میں "ایران اور یمن" کی کارروائیاں قابلِ تحسین ہیں۔ ایران نے فلسطین کی حمایت میں واضح موقف اختیار کیا ہے اور یمن کے انصاراللہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنا کر ایک نئی مزاحمتی لکیر کھینچ دی ہے۔ ایران اور یمن کی جرات مندانہ کارروائیاں ثابت کرتی ہیں کہ اگر عزم ہو تو وسائل کی کمی بھی راہ نہیں روک سکتی۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم حکمران اپنی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں اور ظلم کے خلاف ایک متحد محاذ بنائیں۔۔۔۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔"

آج انسانیت کا مقدمہ ان کی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کرتے ہیں رہے ہیں رہی ہے یہ وہی کے نام

پڑھیں:

مستقبل کس کا ہے؟

اسلام ٹائمز: ڈالر تیزی سے گر رہا ہے۔ برکس بڑھ رہا ہے۔ برکس ایک زیادہ مساوی معاشرہ ہے، جو کرہ ارض پر ابھر رہا ہے اور امریکہ اسکی قیمت چکا رہا ہے۔ امریکی ہار جائیں گے۔ ہماری زندگی کا معیار بہت کم ہو جائے گا۔ ہماری حکومت اور اسکی پالیسیاں تباہ کن تھیں۔ ٹیرف کا استعمال اس طرح تھا کہ ہم نے تجارت کو سیاسی رنگ دیا۔ دنیا کو ڈالر کا متبادل تلاش کرنا پڑا ہے اور اب وہ ڈالر کو چھوڑ رہی ہے۔ دنیا امریکہ کے کردار کے بغیر بہتر ہوگی۔ میں ایران کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں روس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا ملک ان اصولوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کرے، جو کبھی اس ملک کا طرہء امتیاز تھا۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
 
"امریکہ کا زوال: دنیا کا ایک نیا دور" کے عنوان سے منعقدہ ایک کانفرنس میں امریکی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر جیمز ایچ فیٹزر کی تقریر کا متن قارئین کے ذوقِ مطالعہ کے پیش ہے، جس میں انہوں نے امریکہ کے زوال کی اپنے زاویہء نظر سے تصویر کشی کی۔ اپنے خطاب میں پروفیسر جیمز کہتے ہیں کہ: "1940 میں پیدا ہونے والے شخص کے طور پر میں نے اپنی زندگی میں "ریاست ہائے متحدہ امریکہ" کو زمانے کی ایک عظیم مملکت سے بدمعاش اسرائیلی حکومت کی غلام اور کٹھ پتلی سلطنت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ میرے لیے ایک ناگوار تجربہ رہا ہے۔ میں نے "میرین کور" میں ایک کیڈر آفیسر کی حیثیت سے بڑے اعزاز کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ مجھے یقین تھا کہ ہمارا ملک دنیا میں خیر کی ایک طاقت ہے۔ لیکن میرا یہ یقین ویتنام جنگ کے بعد سے متزلزل ہونا شروع ہوگیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس جنگ میں نہیں کودنا چاہیے تھا۔ اس وقت سے معاملات ناقابل یقین حد تک خراب ہوتے چلے گئے ہیں۔

میں جان ایف کینیڈی کے قتل کی تحقیقات میں شریک تھا اور مجھے پتہ چلا کہ اس قتل میں ہماری اپنی حکومت کے اندر موجود عناصر، جن کا تعلق سی آئی اے، فوج اور مخصوص مافیا سے ہے، شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس قتل کے پیچھے تیل کے مفادات، اسرائیل اور کاسترو مخالف کیوبا بھی ہیں۔ لیکن یہ سب "لنڈن جانسن" کی وجہ سے بھی تھا، جو صدر بننا چاہتا تھا۔ اس نے "یو ایس ایس لبرٹی" پر حملے کی تباہی کو ہونے دیا۔ میری رائے میں وہ ایک چھپا ہوا یہودی تھا، جو اسرائیل کے مفادات کو محفوظ بنانے والی امریکی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھا رہا تھا اور پھر 2000ء میں یقینی طور پر ہم نے ڈک چینی اور جارج ڈبلیو بش کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کی تھی۔ وجہ یہ کہ ہم ڈک چینی کو 9/11 کا "فیلڈ اوورسیئر" بنانا چاہتے تھے۔ یہ سب کچھ اسرائیل، سی آئی اے، نیو کونز، محکمہء دفاع اور موساد کی مدد سے ہوا۔ ان سب کا منصوبہ امریکی فوجی قوت کو مشرق وسطیٰ میں لانا اور اسرائیل کے ذریعے ان عرب حکومتوں کو ختم کرنا تھا، جو پورے خطے پر اسرائیل کے تسلط کے خلاف کام کر رہی تھیں۔

شام اپنے زوال کے بعد اب سابق اسرائیلی فوجی دستوں کے زیر انتظام ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے یہ انتہائی توہین آمیز اور شرمناک ہے۔ صرف ایران ہی اس وقت مضبوط اور خودمختار ہے۔ میں وہ ہوں، جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی اور تین بار انہیں ووٹ دیا۔ مجھے ان کے ان سیاسی بیانات پر یقین تھا، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ان احمقانہ جنگوں کو ختم کر دیں گے، سرحد بند کریں گے اور داخلی محاذ پر امریکہ کو بڑے فائدے پہنچائیں گے۔ لیکن اس کی بجائے انہوں نے جنگیں جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے، جس میں نسل کشی کا ایک بھیانک جرم ہو رہا ہے اور امریکہ اس نسل کشی کی حمایت کرکے اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ اقوام متحدہ، بین الاقوامی عدالت انصاف اور سب نے صحیح نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے۔

ایران اس وقت مضبوط کھڑا ہے۔ امریکہ نے ایران پر حملہ کیا، لیکن اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایران کی اب ایک اور ممکنہ حملے کے لیے زیادہ فوجی تیاری ہے۔ اس کے پاس چین کے 40 جدید طیارے اور دیگر ایسے میزائل ڈیفنس سسٹمز موجود ہیں، جو اسے مشرق وسطیٰ میں ایک طاقتور قوت بنائیں گے۔ اسرائیل کے عالمی رہنماوں پر قاتلانہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بالکل پاگل ہوچکا ہے اور طاقت کا بھوکا ہے۔ اسرائیل کے ٹارگٹ کیے گئے رہنماوں میں یمن کے حوثیوں کے رہنماء، قطر میں فلسطینی رہنماء، لبنان میں حزب اللہ کے رہنماء اور ایران میں ایرانی رہنماء شامل ہیں۔ بی بی (بینجمن) نیتن یاہو سمجھ گئے ہیں کہ ان کی قسمت جنگ سے جڑی ہوئی ہے۔ جنگ ختم ہوئی تو ان کی وزارت عظمیٰ کی مدت بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ بظاہر ناقابل یقین ہے کہ امریکہ یوکرین میں ایک مضحکہ خیز جنگ کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ایسا کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے روس اور پیوٹن کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کا صرف وعدہ کیا، لیکن پیوٹن نے ماضی میں نیٹو اور مغرب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ روس نیٹو میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ اب جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو یہ کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ زیلنسکی نے امریکہ کو صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اسرائیلیوں نے ہمیں ہمیشہ سونے کے بچھڑے کے طور پر دیکھا ہے۔ وہ ہمارا خون چوستے ہیں اور ہمارے پاس دنیا کے سب سے بڑے فلاحی نظام کے سوا کچھ نہیں رہنے دیتے۔ اسرائیلی ان تمام ممالک کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں، جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ میں خود بنجمن نیتن یاہو کا حوالہ دیتا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ زیلنسکی یوکرین کو نئے اسرائیل کے طور پر فروغ دے رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ مسئلے کا ایک بڑا حصہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ جنگیں اسی کے بارے میں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یورپیوں نے حیران کن حماقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں، جسے وہ جیت نہیں سکتے۔

وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اسے نہیں جیت سکتے، جبکہ روس ایسی جنگ کے لیے تیار ہے۔ آخر نتیجہ کیا ہوگا۔؟ بدقسمتی سے مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ صورتحال بالکل بھی امید افزا نہیں ہے، اس نااہلی کے پیش نظر جو ہم اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ امکان سے باہر نہیں ہے کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ سے باہر پھینک دیا جائے گا، جس کا کہ وہ مستحق ہے۔ بدقسمتی سے، مجھے کہنا پڑتا ہے اور میں اس سے دکھی ہوں، لیکن خود امریکہ بھی ایسا ہی ہے۔ ٹرمپ نے نہ صرف اس جنگ کو ختم نہیں کیا بلکہ اسے مزید خراب کر دیا ہے۔ ٹرمپ، میری رائے میں، گمراہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے زیادہ وقت نہ ہو۔ وہ تقریباً چھ یا سات دنوں تک عوام میں نہیں دیکھا گیا، جو کہ انتہائی غیر معمولی تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا ایک بڑا طبی معائنہ ہوا ہے۔ اس کی پہلی عوامی نمائش میں ہم نے پریس افسروں اور دیگر کو روتے ہوئے دیکھا اور یہ اس لیے ہوا ہوگا کہ اس کی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔

ہمیں یہاں امریکہ میں آزادئ اظہار کی ضرورت ہے۔ آزادئ اظہار کے بغیر آپ مسائل حل نہیں کرسکتے۔ آج روس میں، ایران میں اور میں شرط لگاتا ہوں کہ شمالی کوریا میں بھی امریکہ سے کہیں زیادہ اظہار کی آزادی ہے۔ یہ کتنا حیرت انگیز ہے۔؟ اس لیے میں اس موقعے پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ روس، ایران اور چین۔۔۔ یہ مستقبل ہیں۔ ڈالر تیزی سے گر رہا ہے۔ برکس بڑھ رہا ہے۔ برکس ایک زیادہ مساوی معاشرہ ہے، جو کرہ ارض پر ابھر رہا ہے اور امریکہ اس کی قیمت چکا رہا ہے۔ امریکی ہار جائیں گے۔ ہماری زندگی کا معیار بہت کم ہو جائے گا۔ ہماری حکومت اور اس کی پالیسیاں تباہ کن تھیں۔ ٹیرف کا استعمال اس طرح تھا کہ ہم نے تجارت کو سیاسی رنگ دیا۔ دنیا کو ڈالر کا متبادل تلاش کرنا پڑا ہے اور اب وہ ڈالر کو چھوڑ رہی ہے۔ دنیا امریکہ کے کردار کے بغیر بہتر ہوگی۔ میں ایران کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں روس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا ملک ان اصولوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کرے، جو کبھی اس ملک کا طرہء امتیاز تھا۔ شکریہ!

متعلقہ مضامین

  • اہل کراچی کے مسائل حل نہ کیے تو شہر خاموش نہیں رہے گا، منعم ظفر کا19دسمبر کوشہر بھر میں دھرنوں کا اعلان
  • میں نہیں ہم
  • فتنہ الہندوستان کا بزدلانہ وار، بلوچستان پھر انسانیت سوز دہشتگردی کا شکار
  • فتنہ الہندستان کا بزدلانہ وار، بلوچستان پھر انسانیت سوز دہشتگردی کا شکار
  • اسلام آباد اور پنڈی میں شہریوں پر انسانیت سوز تشدد کرنے والے ملزم کی مقابلے میں ہلاکت کی اطلاع
  • بے روز گاری اور پاکستان کی خوش قسمتی
  • جب خاموشی محفوظ لگنے لگے!
  • کورونا وبا: انسانیت بیچین تھی لیکن سمندری مخلوق نے سکھ کا سانس لیا
  • مستقبل کس کا ہے؟
  • رنویر پر جنسی حملے کی کوشش: دھرندھر کا وہ سین جس پر سب خاموش