Express News:
2025-12-13@23:15:38 GMT

ٹرمپ اور ٹیرف…ورلڈآرڈر میں بھونچال

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران کیے ہوئے ایک اہم وعدے کو وفا کر دیا۔ ان کے بقول امریکا کے بڑے تجارتی پارٹنرز امریکا سے بہت زیادہ تجارتی فوائد سمیٹ رہے ہیں جب کہ امریکا کے حصے میں تجارتی خسارہ اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری آئی ہے۔

اسی بنیاد پر رواں ہفتے امریکا نے دنیا کے تقریبا تمام ممالک پر جوابی ٹیرف یعنی Reciprocal Tarrifs کا اعلان کر دیا ہے۔یہ اعلان ابتدائی طور پر ورلڈ مارکیٹس کے لیے بھونچال ثابت ہوا، ورلڈ مارکیٹ دھڑا دھڑ کریش کر گئیں۔ بلوم برگ کے مطابق کووڈ دور کے لیول تک گرنے سے عالمی مارکیٹوں سے اڑھائی ٹریلین ڈالرز ہوا ہو گئے۔

امریکا کے بڑے پارٹنرز نے ان ٹیرف پر مختلف رد عمل کا اظہار کیا ہے۔حسب توقع چین نے جواباً وہی شرح ٹیرف امریکی درآمدات پر عائد کرنے کا اعلان کیا۔ اپنی اپنی تجارتی طاقت اور حیثیت کے مطابق مختلف ممالک اپنے اپنے ابتدائی رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر دنیا کو یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کے پیچھے مکمل ورکنگ اور سیاسی حکمت عملی موجود ہے۔

Business as usual یعنی ’’سب ایسے ہی چلتا ہے‘‘ کا دور گیا۔ اعلان کردہ ٹیرف کی حتمی شکل کیا ہوگی ؟ وقت ہی صحیح بتائے گا کیونکہ عالمی تجارت اور ڈپلومیسی میں مذاکرات کے ٹیبل پر حتمی طور پر طے پانے والے معاملات شروع ہونے والے پوائنٹ سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ باہمی مذاکرات میں بھاو تاؤ ،لین دین اور وعدے وعید کے بعد حتمی ٹیرف کی شکل بہت مختلف ہو۔ تاہم دنیا کو اب یہ نئی حقیقت تسلیم کرنی پڑ رہی ہے کہ گزشتہ 30 /35 سالوں کے دوران امریکا کی تجارتی منڈیوں میں جس دھڑلے سے تمام ملکوں نے تجارتی سرپلس سمیٹے، وہ دور اب بدلنے کو ہے۔ 

آگے بڑھنے سے پہلے پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔ پاکستان کی 2024 میں امریکا کو برآمدات 5.

26 ارب ڈالرز تھیں جو پاکستان کی برآمدات کا کل 17 فیصد تھیں۔ پاکستان کے حصے میں 3.3 ارب ڈالر کا سرپلس آیا۔ پاکستان سے امریکا برآمدات کا بڑا حصہ ٹیکسٹائلز مصنوعات پر مشتمل ہے جو اس کیٹیگری میں امریکی درآمدات کا 3÷ ہے۔ جب کہ امریکا درآمدات کی ٹیکسٹائل کیٹیگری میں چین کا حصہ 26 فیصد ، ویت نام کا 14، بھارت کا 9 اور بنگلہ دیش کا حصہ 6 فیصد ہے۔ 

امریکا کی طرف سے جوابی ٹیرف کی تفصیل کے مطابق پاکستان پر 29، جب کہ چین پر 54، ویت نام پر 46، بنگلہ دیش پر 37، انڈونیشیا پر 32، بھارت پر 26 اور ترکی پر 10 فیصد عائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستانی برآمد کنندگان کو فی الحال یہی تشفی اور اطمینان ہے کہ اس کے مقابل دیگر ممالک پر پاکستان کی نسبت ٹیرف کہیں زیادہ ہے ، اس لیے پاکستانی برآمدات دوسروں کے مقابلے میں بہتر مسابقت کی حامل ہیں۔
2024 میں امریکا سے پاکستان کو کل برامدات 2.13 ارب ڈالر رہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان باہمی تجارت کے اس جائزے سے یہ امر واضح ہے کہ پاکستان ٹیکسٹائلز اور ٹیکسٹائلز کی مصنوعات کے لیے امریکی منڈی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔

گو امریکا کے مجموعی تجارتی حجم میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے لیکن پاکستان کی برآمدات میں امریکا کی اہمیت کلیدی ہے۔ اس کیٹیگری میں پاکستان کے مقابل دیگر ممالک اپنی اپنی برآمدات کو سہارا دینے کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ کیا سپورٹ مہیا کرتے ہیں؟ اور امریکا کے ساتھ ان کا تجارتی مول تول کہاں اور کس مقام پر طے پاتا ہے؟ پاکستان کی مصنوعات کے لیے اصل امتحان وہاں سے شروع ہوگا۔ وزیراعظم پاکستان نے ایک ٹاسک فورس قائم کر دی ہے جو پاکستان پر ٹیرف کے مجموعی اثرات کا جائزہ لے گی اور امریکا کے ساتھ معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ دیکھیے کیا گزرتی ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس انتہائی اقدام پر کیوں کمر بستہ ہیں؟ اس سوال کی کئی کہی اور ان کہی کوئی وجوہات ہیں۔ اپنے پہلے دور صدارت اور موجودہ انتخابی مہم میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا واضح موقف رہا ہے کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کی دھڑا دھڑ دوسرے ملکوں میں منتقلی سے امریکا کو نقصان ہوا، جب کہ چین سمیت بہت سے ممالک نے معاشی فوائد سمیٹے۔ امریکی منڈیاں چین اور دیگر ممالک کے لیے ہمیشہ فراخ دل اور کشادہ رہیں جس کے نتیجے میں دیگر تمام ممالک نے کم شرح ٹیرف کی امریکی پالیسی سے بھرپور فائدہ اٹھایا، جب کہ دوسری جانب امریکی مصنوعات کی درآمدات پر بیشتر ممالک میں عائد ٹیرف کہیں زیادہ ہیں جسے امریکی صدر تجارتی ناانصافی گردانتے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس تجارتی ناروائی کو اب اپنے تئیں درست کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ اس درستگی کے لیے وہ انتہائی اقدام پر آمادہ ہیں۔ انھیں اور ریپبلیکن حکومت کو یقین ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں امریکا میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو دوبارہ مناسب ترغیب اور جگہ مل سکے گی۔ جس سے روزگار میں اضافے اور تجارتی خسارے میں کمی سے امریکی معیشت اپنے صحیح مقام اور تشخص کا احیاء کر سکے گی۔
80 اور 90 کی دہائی میں جب موجودہ عالمی تجارتی نظام کے خدو خال تشکیل پا رہے تھے، تب سے اب تک جیو پولیٹیکل اور عالمی تجارت کی بساط میں انتہائی تیزی سے حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جنھوں نے جیو پولیٹیکل اور عالمی تجارت کا نقشہ اور توازن بدل کر رکھ دیا ہے۔ چین کی 1990 میں کل برآمدات فقط 49 ارب ڈالرز تھیں جب کہ 2024 میں یہ برآمدات 3.513 ٹریلین ڈالرز ہو چکیں۔ چین کی جی ڈی پی 1990 میں 369 ارب ڈالرز تھی جو 2023 میں 17.795 ٹریلین ڈالرز ہو چکی۔ اس دوران بھارت کی جی ڈی پی 1990 میں 320 ارب ڈالرز تھی جو 2023 میں 3.549 ٹریلین ڈالرز تھی۔ امریکا کی جی ڈی پی 1990 میں 5.96 ٹریلین ڈالرز تھی جو 2023 میں 27.3 ٹریلین ڈالرز تھی۔

یہ تقابل ظاہر کرتا ہے کہ عالمی تجارت کی بساط پر نئی طاقتوں نے ناقابل یقین تیزی سے ترقی کی اور وہ بھی بہت حد تک امریکی مارکیٹس سے۔ جب کہ عام امریکی اس دوران میں معاشی مشکلات میں دھنستا چلا گیا جس کا واشگاف اظہار امریکی سیاست اور الیکشن میں ہورہا ہے۔ دیگر وجوہات اپنی جگہ لیکن امریکا اپنے ہی وضع کردہ عالمی تجارتی نظام کے ان’’ ان چاہے نتائج ‘‘سے ناخوش ہے اور توازن اپنے حق میں کرنے پر کمر بستہ ہے۔

آنے والے دن امریکی اور اس کے تجارتی پارٹنرز کے درمیان شدید اعصابی تناو اور ڈپلومیٹک کھینچا تانی کی چغلی کھا رہے ہیں۔ پاکستان کے پاس کھیلنے کو بہت کم کارڈز ہیں، اس لیے وہ شاید انتظار کرے کہ دوسروں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکا کے ارب ڈالرز تھی ٹریلین ڈالرز عالمی تجارت پاکستان کی میں امریکا امریکا کی برا مدات درا مدات ٹیرف کی کے لیے

پڑھیں:

امریکی ویزا کے درخواست گزاروں کی 5 سالہ سوشل میڈیا سرگرمیاں جانچنے کا منصوبہ

ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی ویزا کی درخواست دینے والوں کی پانچ سالہ سوشل میڈیا سرگرمیاں جانچنے کا منصوبہ بنالیا۔

کسٹم اینڈ بارڈر پروٹیکشن ادارے نے فیڈرل رجسٹر میں اس حوالے سے نوٹس کو لازمی قرار دے کر شائع کردیا۔

یہ واضح نہیں کیا گیا کہ نئے فیصلے کا اطلاق کب سے کیا جائےگا تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی سیٹیزن شپ اور امیگریشن سروسز یہ جانچیں گی کہ آیا متعلقہ درخواست گزار نے امریکا مخالف، یہود مخالف یا دہشتگردی سے متعلق کسی بات کی ترویج تو نہیں کی۔

امریکی عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا سے متعلق اقدام کے بارے میں ساٹھ روز میں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

امریکا میں داخل ہونے والوں سے اہل خانہ کے ای میل ایڈریس، فون نمبر اور دیگر معلومات بھی پوچھی جائیں گی۔

محکمہ خارجہ نے اس سے پہلے سیاحوں کو جون میں حکم دیا تھا کہ وہ اپنی سوشل میڈیا پوسٹ کو پبلک کریں جبکہ اگست میں ٹرمپ انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ ویزا اور گرین کارڈ کی درخواست دینے والوں کی سوشل میڈیا پوسٹ جانچنا چاہتی ہے۔

اب ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام سے طلبہ اور سیاحوں سمیت وزیٹرز کی امریکا مخالف پوسٹ بھی ویزا کے اجرا پر اثرانداز ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اہلکاروں کو اب تعصب اور سیاسی بنیادوں پر لوگوں کی ویزا درخواست رد کرنے کا بہانہ مل جائے گا۔

صدر ٹرمپ پہلے ہی انیس ممالک کے شہریوں کیلیے امیگریشن کے دروازے بند کرچکے ہیں اور اس کا دائرہ تیس ممالک تک بڑھانے پر غور کیا جارہا ہے، تاہم نئےاقدام کا اطلاق برطانیہ اور جرمنی کے شہریوں پر بھی ہوگا جنہیں ویزا سے استثنیٰ حاصل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت پر عائد ٹرمپ ٹیرف ختم کرنے کیلیے امریکی کانگریس میں قرارداد پیش
  • بھارت پر عائد ٹیرف ختم کرنے کیلئے امریکی کانگریس میں قرارداد پیش
  • ٹرمپ کا وینزویلین اسمگلروں کیخلاف زمینی کارروائی کا اعلان
  • ٹرمپ کا بڑا اعلان: وینزویلا کے خلاف فوجی کارروائی کا خطرہ بڑھ گیا
  • روس بھی جوہری ہتھیاروں میں کمی چاہتا ہے، ٹرمپ
  • منشیات اسمگلنگ کا الزام، ٹرمپ کا وینزویلا کیخلاف زمینی کارروائی کا عندیہ
  • میکسیکونے بھی چین،بھارت سمیت ایشائی ممالک پر 50فیصد درآمدی ٹیرف عائد کردیا
  • امریکی ویزا کے درخواست گزاروں کی 5 سالہ سوشل میڈیا سرگرمیاں جانچنے کا منصوبہ
  • ایمیزون کا 2030 تک بھارت میں 100 کھرب سرمایہ کاری کا اعلان
  • ٹیرف میرا پسندیدہ لفظ بن گیا، ملک میں اربوں ڈالر آ رہے ہیں،ٹرمپ