حال ہی میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے چین کا کامیاب دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں چین کے صدر شی چنگ پنگ سے بڑے خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ملاقات میں بنگلہ صدر نے سابق حکومت کے خاتمے کے بعد کے حالات سے آگاہ کیا ہوگا، ساتھ ہی بھارت کی جانب سے ان کی حکومت کو ناکام بنانے کی سازش سے بھی آگاہ کیا ہوگا۔
اس وقت بنگلہ دیش میں مکمل امن اور سکون ہے کیونکہ عبوری حکومت عوامی انقلاب سے وجود میں آئی ہے۔ عوام نے بنگلہ دیش میں بھارت کی بالادستی اور مداخلت کو ختم کر دیا ہے۔ عبوری حکومت عوامی امنگوں اور قومی مفادات کی مکمل ترجمانی کر رہی ہے ۔شیخ حسینہ مسلسل پندرہ سال حکومت کرتی رہی ہے۔ یہ حکومت عوامی مفادات کے بجائے بھارت کے مفادات کی ترجمانی کر رہی تھی۔ حکومت مخالف لوگوں کے لیے ہر شہر میں ٹارچر سیل قائم کیے گئے تھے ۔ بہاریوں کا جینا حرام کر دیا گیا تھا۔کسی بھی سیاسی پارٹی کو کھل کر کام کرنے کی اجازت نہیں تھی، خالدہ ضیا کو گرفتار رکھاگیا تھا حالانکہ وہ بیمار ہیں۔
خالدہ ضیا کی پارٹی نے گزشتہ دو عام انتخابات میں بھرپور ووٹ حاصل کیے تھے مگر دھاندلی سے ہرا دیا گیا تھا۔ حسینہ کو یہ بات پتا تھی کہ اس کی حکومت کو کسی بھی وقت عوامی غیض و غضب بہا کر لے جا سکتا ہے پھر حسینہ حکومت کا خاتمہ اس طرح شروع ہوا کہ مشرقی پاکستان کو بھارتی فوج کی مدد سے بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے والی مکتی باہنی کی اولادوں کو تو دھڑا دھڑ سرکاری نوکریاں دی جارہی تھیں مگر عام بنگلہ دیشی نوجوان پر نوکریوں کے دروازے بند تھے۔
اس زیادتی پر نوجوانوں نے احتجاج شروع کر دیا، پھر یہ احتجاج بڑھتا ہی گیا، گویا یہ ایک چنگاری تھی جس نے شعلے کی شکل اختیار کر لی۔ عام لوگ جو حسینہ کے ظلم و ستم کی وجہ سے سخت پریشان تھے وہ بھی اس احتجاج میں شامل ہوتے گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا بنگلہ دیش عوامی احتجاج سے گونجنے لگا۔ بالآخر عوامی غیض و غضب کا سیلاب حسینہ کی حکومت کو بہا لے گیا۔ حسینہ نے جان بچا کر اپنے آقا مودی کے دامن میں پناہ حاصل کر لی، دیگر عوامی رہنما بھی بھاگ کر بھارت پہنچ گئے۔ مودی نے حسینہ کو کیوں پناہ دی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ حسینہ اپنے ہی عوام کی دشمن تھی اسے تو کسی بھی ملک نے پناہ دینے سے انکار کردیا تھا چنانچہ بھارت حسینہ کو پناہ دے کر بنگلہ دیشی عوام کا اصل دشمن قرار پا چکا ہے۔
بنگلہ دیشی حکومت نے بھارت کو اس کے حوالے کرنے کو کہا ہے مگر بھارت اپنی پٹھو حسینہ کو کیونکر کھو سکتا ہے؟ وہ تو اسے دوبارہ بنگلہ دیش کا اقتدار دلانے کے لیے ساز باز کر رہا ہے مگر یہ مودی کی خام خیالی ہے، اب حسینہ کی کسی بھی بھارتی پٹھو کو وہاں کے عوام قبول نہیں کریں گے وہ اب جتنے بھارت کے خلاف ہیں اتنے ہی پاکستان کے حق میں ہیں۔ حسینہ نے بھارت کے حکم پر جن پاکستان نواز پارٹیوں کو دیوار سے لگا دیا تھا ان میں جماعت اسلامی سرفہرست تھی، اس پر ظلم کی انتہا کر دی گئی تھی۔ اس کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
اب تمام سیاسی پارٹیاں آزاد ہیں۔ اس وقت عبوری حکومت شان دار طریقے سے حکومت چلا رہی ہے جب کہ حسینہ کو یقین تھا کہ یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چل پائے گی بنگلہ بندو کی محبت عوام میں جاگ جائے گی اور وہ عبوری حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے مگر نہ ایسا ہوا اور نہ آگے ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس وقت عوام کے پاکستان کی جانب جھکاؤ اور بھارت سے ناراضگی سے پتا چلتا ہے کہ 1971 میں جو کچھ ہوا وہ عوامی لیگ کے غنڈوں اور بھارتی مکتی باہنی کا کیا دھرا تھا ورنہ وہاں کے عوام پاکستان سے علیحدگی کے ذرا حق میں نہیں تھے۔
اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، دونوں ممالک کے درمیان تجارت بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے دورۂ بنگلہ دیش سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ حسینہ سمجھ رہی تھیں کہ انھیں بھارت میں چند دن ہی مہمان بن کر رہنا ہوگا کیونکہ عوام انھیں آزادی دلانے والے ان کے والد مجیب الرحمن کی محبت میں انقلابیوں کو شکست دے دیں گے اور ان کی حکومت کو بحال کرا دیں گے مگر وہاں تو مجیب الرحمن سے بابائے قوم کا ٹائٹل ختم کر کے خالدہ ضیا کے شوہر ضیا الرحمن کو بابائے قوم تسلیم کر لیا گیا ہے۔
مجیب کی تمام سرکاری دفاتر سے تصاویر ہٹا دی گئی ہیں، کرنسی سے بھی مجیب الرحمن کی تصویر ہٹائی جا رہی ہے، قومی ترانے کو تبدیل کر دیا گیا ہے، قومی پرچم کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے، اس طرح بنگلہ دیش ایک خالص مسلم ملک بننے جا رہا ہے۔ باقی تمام تبدیلیاں نئے انتخابات میں منتخب ہونے والی حکومت کرے گی، وہاں عام انتخابات دسمبر میں ہونے والے ہیں۔ بھارتی حکومت بنگلہ دیشی عبوری حکومت سے سخت ناراض ہے حالانکہ دو عالمی کانفرنسوں کے مواقعے پر مودی کی محمد یونس سے ملاقات ہو سکتی تھی مگر مودی نے یونس سے ملنے سے گریز کیا، مگر اب یونس کے چین کے کامیاب دورے نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اب چین بنگلہ دیش کی نئی حکومت کا طرف دار بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش اور چین کے مابین کئی معاشی اور دفاعی معاہدے ہوئے ہیں، ساتھ ہی تیشا ندی پر ڈیم کی تعمیر چین کے حوالے کر دی گئی ہے۔ یونس نے وہاں بھارتی سیون سٹر ریاستوں کے بارے میں اہم بیان دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ تمام لینڈ لاک ہیں ان کا بیرونی دنیا سے تعلق صرف بنگلہ دیش کے ذریعے ممکن ہے۔ اس بیان پر بھارتی حکومت سخت تذبذب کا شکار ہو گئی ہے اور اس بیان کو بھارت دشمنی قرار دیا ہے مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ ان تمام ریاستوں میں چونکہ آزادی کی جنگ چل رہی ہے اور ایک دن وہ ضرور آزاد ہو جائیں گی تب انھیں بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے بنگلہ دیش کا ہی سہارا لینا ہوگا۔
اس طرح یونس کا بیان درست ہے اور دور اندیشی پر مبنی ہے۔ مودی کے یونس کو خط لکھنے سے لگتا ہے وہ یونس کے کامیاب دورۂ چین سے گھبرا گیا ہے اور اپنی اکڑ چھوڑ کر تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے خط لکھ دیا ہے مگر اس کے لیے اسے حسینہ کو ملک بدرکرنا ہوگا اور چونکہ حسینہ کو کوئی بھی ملک قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے چنانچہ اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ لگتا ہے وہ نہ گھر کی رہے گی اور نہ گھاٹ کی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عبوری حکومت کی حکومت کو بنگلہ دیشی بنگلہ دیش حسینہ کو نے بھارت کسی بھی ہے اور کر دیا گیا ہے رہی ہے چین کے ہے مگر رہا ہے دیا ہے
پڑھیں:
پاک بنگلہ دیش سفارتی تعلقات کی بحالی اہم پیشرفت
اسلام آباد(طارق محمودسمیر) پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان 15سال کے تعطل کے بعد سفارتی مذاکرات بحال ہوگئے، ڈھاکہ خارجہ سیکرٹریزکی سطح پر مشاورت
کے چھٹے دور میں سیاسی ،معاشی، تجارتی روابط، زراعت، ماحولیات، تعلیم، ثقافتی تبادلے، دفاعی تعاون اور عوامی رابطوں پر باہمی تعاون کے نئے امکانات زیر غور آئے جبکہ باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی صورت حال اور دو طرفہ تعاون کے فروغ پر بات چیت کی گئی ، بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بدستوربہتری کی جانب گامزن ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان عوامی اور قیادت کی سطح پر قربتیں بڑھ رہی ہیں، وزیراعظم شہباز شریف اوربنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کے درمیان قاہرہ میں ترقی پذیرملکوں کی تنظیم ڈی ایٹ کے سربراہی اجلاس اوراس سے پہلے ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ملاقاتیں ہوئیں جن میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان اوربنگلہ دیش کے مذاکرات کی بحالی نہ صرف دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے کا ذریعہ بنے گی بلکہ جنوبی ایشیاء میں مجموعی امن اور ترقی کی راہ بھی ہموار ہونے کی بھی امیدہے،اسی طرح تجارت، تعلیم، سیاحت، اور ثقافتی تبادلے جیسے شعبے دونوں ممالک کے عوام کو قریب لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان خوشگوارتعلقات صرف دونوں ملکوں کے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے مفاد میںہیں ،خاص طور پر اس سے سارک جیسی اہم علاقائی تنظیم کو بحال کیا اور موثربنایا جا سکتا ہے۔ ادھر افغان طالبان نے امریکہ کی جانب سے چھوڑے گئے تقریباً 5 لاکھ فوجی ہتھیاروں کو دہشت گرد تنظیموں کو فروخت یاسمگل ہونے سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ سامنے آئی ہے جب کہ اس سے پہلے امریکی سیکرٹ سروس کے ایک سابق عہدیداربھی انخلاء کے وقت افغانستان میں اسلحہ چھوڑے جانے کو سنگین غلطی قراردے چکے ہیں،اس میںکوئی شک نہیںکہ افغانستان میں چھوڑاگیاامریکہ اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہورہاہے اوریہ سب کچھ افغان طالبان کی پشت پناہی سے ہورہاہے لہذاامریکہ سمیت عالمی برادری کی ذمہ داری ہے وہ کہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے اورافغان طالبان کو دوحہ معاہدے کاپابندبنائے جس میں انہوں نے اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرائی تھی ۔