’’ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ‘‘ (حصہ اول)
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
عید آئی اورگزر بھی گئی، عید کی خوشیوں کے لیے امرا و غربا اور متوسط طبقے نے اپنی اپنی بساط کے مطابق عید کے کپڑوں سے لے کرگھر کی سجاوٹ تک بہت سے امور خوشی خوشی انجام دیے اور عید کا چاند دیکھنے کے ساتھ شب بیداری کی۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مارکیٹوں میں خریداروں کا اژدھام نظر آیا لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں وہ گھرانے بھی یاد آئے جن کے پیارے، راج دلارے اس دنیا میں نہیں ہیں، وہ اداس اور غم زدہ دلوں کے ساتھ مسکرانے پر مجبور ہوئے، انھوں نے بھی عید کو خوش آمدید کہا اور اپنے بچوں کی خوشی کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور خریدا، سویاں بھی پکائیں، دوسرے گھروں کی نسبت ان کی رہائش گاہ پر لوگوں کا تانتا بندھا رہا، خصوصاً محلے دار، عزیز اقارب اور میڈیا کے لوگ کہ مکمل معلومات حاصل ہوں اور متعلقین سے تعزیت کر سکیں، حوصلہ دے سکیں۔ ابھی انسانیت زندہ ہے اور جب تک انسانیت سانس لے رہی ہے قیامت نہیں آئے گی، دوسروں کی مزاج پرسی اور ان کے کام آنا عبادت سے کم نہیں۔
کراچی کے حالات روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں، سوگ کی فضا نے مایوسی کو تقسیم کیا ہے۔ لوٹ مار، قتل و غارت کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ ہر روز پابندی کے ساتھ دس پندرہ وارداتیں ہو جاتی ہیں، ڈاکو مال و اسباب بھی لوٹتے ہیں اور معصوم شہریوں کے لیے ایسی فضا ہموارکرتے ہیں جہاں زخمیوں اور لاشوں کی کثیر تعداد نظر آتی ہے۔اے ٹی ایم اور بینکوں سے رقم نکلوا کرگھر کا رخ کرنے والوں کی کسی قسم کی حفاظت نہیں ہے بلکہ خطرات ہر سمت منڈلا رہے ہیں، سڑک، گلی، شاہراہیں، بازار اور بینک غرض کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔
ڈکیتی اور ڈاکوؤں کو کوئی روکنے ٹوکنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا ہے۔ گزشتہ سالوں اور عشروں میں پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنے شہریوں کے تحفظ کا ضامن ہوا کرتا تھا لیکن اب اس محکمے نے بھی ہاتھ اٹھا لیے ہیں اور مکمل آزادی مہیا کردی ہے۔ ایسی صورت حال میں بغیر ہتھیار کے ہر شخص بے بس نظر آتا ہے اور شاید یہی بہتر ہے شہریوں کے پاس ہتھیار ہونے کی صورت میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ دونوں طرف سے فائرنگ ہونے کا مطلب مزید حالات بگڑنے اور ناحق خون کی ندیاں بہانے کا ذریعہ ہوگا۔ دوسری طرف انصاف کے دعوے دار ڈاکوؤں کو ہرگز گرفتار نہیں کریں گے بلکہ وہ لوگ پکڑے جائیں گے جو اپنے تحفظ کے لیے ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔
لہٰذا یہ بھی مناسب نہیں ہے، کچھ علاقوں میں ایسی صورت حال سامنے آئی ہے کہ جب گھر کے کسی جی دار نے ڈاکوؤں کو محلے والوں کی مدد سے اپنے قبضے میں لیا ہے تو پولیس نے ملزم کو اپنے قبضے میں لے کر بھاری رقم کے عوض چھوڑ دیا ہے اور پوچھ گچھ کا سلسلہ مضروب تک پہنچ گیا ہے۔ ایک دو روز پرانا واقعہ ہے جب اسٹیل ٹاؤن کے علاقے گلشن حدید فیز 2 میں ڈاکوؤں نے کار سواروں سے اٹھارہ لاکھ بھی لوٹے اور مزاحمت پرگولی مار دی، اس قسم کے واقعات ہر روز پابندی کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں، حکومت سندھ کے کسی بھی ذمے دار کو ایسے واقعات کا ذرہ برابر احساس نہیں ہے۔
سرکاری ادارے تماشائی بنے ہوئے ہیں، شرفا اپنے گھروں سے اپنے کام کاج کے لیے نکلتے ہیں لیکن سرِ راہ قتل کر دیے جاتے ہیں، ان کی لاشیں جب ان کے لواحقین کے سپرد کی جاتی ہیں تو بیوہ ہونے والی خاتون اور یتیم بچے مقتول کے والدین بہن بھائیوں پر یا تو سکتہ طاری ہو جاتا ہے یا پھر پورا گھر ماتم کدہ بن جاتا ہے۔ آہ و زاری، چیخ پکار محلے کی فضا کو غم زدہ کر دیتے ہیں، ایک ایک گھر سے دو، تین جنازوں کا نکلنا نظام حکومت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے لیکن بات یہ ہے کہ بے حسی شرم و حیا کو چھین لیتی ہے شہر اور ملک میں کچھ بھی ہوتا رہے، متعلقہ ادارے لاتعلق رہتے ہیں جیسے یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔
ایک طرف ڈاکوؤں کا راج ہے تو دوسری طرف شاہراہوں پر بے قابو ہوتے ہوئے ٹینکرز موت بانٹ رہے ہیں، گزشتہ کئی ماہ سے ٹینکرز کے ڈرائیورز معصوم مسافروں کو کچلنے کی مشق کر رہے ہیں، ملیر ہالٹ پر ہونے والے حادثے نے لوگوں کے دل دہلا دیے ہیں اور ایک ہنستے بستے گھر کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ ایک خاندان اور اس کی آنے والی نسل کو بے دردی سے پہیوں تلے روندا ہےْ
یہ خونی ٹرانسپورٹ واٹر ٹینکر تھا، تیز رفتاری کے باعث کئی گاڑیوں سے ٹکراتا ہوا موٹرسائیکل پر سوار خاندان کو آناً فاناً کچل دیا اور موٹر سائیکل کو گھسیٹتا ہوا دور تک لے گیا، عینی شاہد کے مطابق خاتون کا جسم دو حصوں میں بٹ گیا۔ اس کے بعد کا خونی منظر میرا قلم لکھنے کی تاب نہیں رکھتا، وہ یقینا بہادر خواتین تھیں جنھوں نے ایک نئی زندگی کو بچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ واقعہ اس قدر درد ناک تھا کہ دیکھنے اور سننے والوں کی نکلنے والی چیخیں حلق میں ہی دم توڑ گئیں۔ ابھی غم کی رین سحر کے اجالے میں بدلی نہیں تھی کہ کارساز پر میاں بیوی ہیوی ٹریفک کا نشانہ بن گئے۔
موٹرسائیکل سواروں کو زخمی اور ہلاک کرنے کا سلسلہ رکنے پر نہیں آ رہا ہے۔ حکومت وقت نے آنکھیں بند کر لی ہیں اور کانوں کو ناانصافی اور دل خراش واقعات سے بچانے کے لیے سیسہ ڈال لیا ہے، لہٰذا وہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کم نہ تھے کر و بیاں
آج کے دور میں حضرت انسان اپنا ہی درد محسوس کرتا ہے، ہمارے معاشرے میں انسانیت نام کی کوئی شے باقی نہیں رہی ہے۔ اس کی وجہ معاشرتی ڈھانچہ گل سڑ چکا ہے اس کے مردہ بدن میں تازہ روح ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ تو درندہ صفت ڈرائیور، ڈاکو اور سفاک قاتل سامنے آتے رہیں گے۔یہ وہی شہر ہے جس میں ارمغان بستا ہے، ارمغان نے جس انداز سے مصطفیٰ عامر کا قتل کیا وہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
خونی کھیل کی ابتدا تو ہو چکی ہے لیکن موجودہ اور ماضی کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات حتمی طور پر نظر آتی ہے کہ خون کی ندی رکنے والی نہیں ہے، ابھی نہ جانے کتنے مصطفیٰ عامر لپیٹ میں آئیں گے۔ اس سے قبل بھی خواتین پر تشدد آمیز واقعات کے تخلیق کار منظر عام پر آچکے ہیں لیکن وہ سب معاف کر دیے گئے، بظاہر تو پکڑ دھکڑ، جیل اور عدالت میں پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ دکھائوے کے سوا کچھ نہیں، چونکہ ہمارا انصاف اور عدالتوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ پیسے میں بہت طاقت ہے، غریب اور اس کے بچے سالہا سال جیل کی دیواروں میں مقید رہتے ہیں بعض کو اپنے ناکردہ گناہوں کی وجہ سے عمر قید یا تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے اور جب چھان بین ہوتی ہے تو اصل قاتل کوئی دوسرا نکلتا ہے جس کا کہانی میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔
بس اچانک ہی حالات پلٹ جاتے ہیں لیکن ملزمان جنھیں مجرمان ثابت کیا جاتا ہے ان کی جوانی کے خوب صورت ماہ و سال اذیت اور قید کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جوانی میں گرفتار ہونے اور عمر قید کاٹنے والے جیل کی دیواروں سے بوڑھے ہو کر باہر آتے ہیں۔ یہ کیسا قانون اور حکومت ہے؟ جو تعیشات زندگی کے مزے لوٹنے میں مست ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ڈیتھ بیڈ
ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اﷲ تعالیٰ نے اس کی زبان میں تاثیر رکھی تھی‘ وہ جس سے بات کرتا تھا‘ وہ اپنااکاؤنٹ اس کی کمپنی کے حوالے کر دیتا تھا‘ ٹام روز کمپنی کے سرمائے میں ایک دو ملین ڈالر کا اضافہ کر تا تھا‘ کمپنی اس سے خوش تھی اور وہ کمپنی سے بہت خوش تھا۔
ٹام کا لنچ فائیو اسٹار فرنچ‘ اٹالین اور مراکو ریستورانوں میں ہوتا تھا‘ لنچ کا بل کمپنی ادا کرتی تھی‘ کمپنی نے اس کے دوسرے اخراجات بھی اٹھا رکھے تھے‘ گاڑی کمپنی نے دی‘ مین ہیٹن میں تین بیڈ روم کا فلیٹ بھی کمپنی نے دیا تھا‘ وہ کمپنی کا جیٹ اور ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرتا تھا‘ کمپنی فرسٹ کلاس فضائی ٹکٹ بھی دیتی تھی‘ تنخواہ بھی چھ ہندسوں میں تھی اور ٹام کے پورے خاندان کی میڈیکل انشورنس بھی کمپنی کے ذمے تھی۔
شام چھ بجے اس کی ذاتی مصروفیات شروع ہو جاتی تھیں‘ وہ کلب جاتا تھا‘ وہاں نئے دوست بناتا تھا‘ یہ نئے دوست آنے والے دنوں میں اس کے کلائنٹ بنتے تھے‘ وہ ڈنر بھی فائیو اسٹار ہوٹل میں کسی فائیو اسٹار بزنس مین کے ساتھ کرتا تھا‘ دس بجے کے بعد وہ کسی اعلیٰ درجے کے پب یا رقص گاہ میں چلا جاتا تھا‘ وہ دو گھنٹے وہاں رہتا تھا‘ بارہ بجے واپس آتا تھا تو اس کی بیگم اور تینوں بچے سو چکے ہوتے تھے‘ وہ بھی آڑھا ترچھا ہو کر لیٹ جاتا تھا‘ اگلی صبح آٹھ بجے پھر کام شروع ہو جاتا تھا۔
یہ سلسلہ جمعہ تک چلتا تھا‘ وہ جمعہ کی شام کمپنی کا جیٹ جہاز لے کر نیویارک سے باہر چلا جاتا تھا‘ کبھی شکاگو‘ کبھی آرلینڈو‘ کبھی میامی‘ کبھی سان فرانسسکو اور کبھی ہونولولو۔ وہ مہینے میں ایک بار یورپ‘ مڈل ایسٹ یا مشرق بعید کا چکر بھی لگا تا تھا‘ مارتھا اس کی بیوی یورپ اور فارایسٹ کی وزٹس میں اس کے ساتھ ہوتی تھی‘ یہ اس کے معمولات تھے‘ اﷲ نے جوانی ہی میں اسے نعمتوں سے نواز دیا تھا‘ پیسہ تھا‘ دوست تھے‘ توانائی تھی‘ فیملی تھی اور نصف درجن کریڈٹ کارڈ ۔ ٹام کی زندگی شاندار تھی لیکن پھر اسکو نظر لگ گئی۔
ٹام ایک صبح اٹھا تو اس کا سر بھاری تھا‘ اس نے اس بھاری پن کو رات کی شراب نوشی کے کھاتے میں ڈال دیا‘ اس نے ’’ہینگ اوور‘‘ سمجھ کر اپنا سر جھٹک دیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھاری پن درد بن گیا‘ وہ ڈاکٹر کے پاس گیا‘ ڈاکٹر نے اسے درد کش گولیاں دیں اور گھر بھجوا دیا لیکن درد میں افاقہ نہ ہوا‘ وہ رات بے چینی اور بے آرامی میں گزری‘ وہ اگلی صبح دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گیا۔
ڈاکٹر نے خون چیک کرانے کا مشورہ دیا‘ وہ لیبارٹری چلا گیا‘ بلڈ رپورٹس آئیں توڈاکٹر نے خون کے مزید دو نمونے لیے اور یہ دو مختلف لیبارٹریوں میں بھجوا دیے‘ ہفتے بعد رپورٹس آ گئیں‘ تینوں لیبارٹریوں کی رپورٹ ایک جیسی تھیں‘ ڈاکٹر نے اس سے مزید دو دن مانگے اور اسکی رپورٹس ملک کے تین بڑے اسپیشلسٹس کو بھجوادیں‘ تینوں کا ایک ہی جواب تھا‘ معجزے کے علاوہ مریض کا کوئی علاج نہیں‘پھر ڈاکٹر نے اسے بلایا‘ کرسی پر بٹھایا‘ پانی کا گلاس اسکے ہاتھ میں دیا اور سرجھکا کر بولا ’’ٹام تمہارے پاس صرف تین ماہ ہیں‘‘۔
ٹام کے طوطے اڑ گئے‘ اس نے گھبرا کر پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ ڈاکٹر نے بتایا ’’تم بلڈ کینسر کی آخری اسٹیج پر ہو‘ اس اسٹیج کا معجزے کے سوا کوئی علاج نہیں ہوتا‘ تمہارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ تم یہ تین مہینے مختلف ڈاکٹروں اور مختلف اسپتالوں کا چکر لگا کر گزار دو یا پھر ان تین ماہ کو اپنی زندگی کے بہترین دن رات بنا لو‘ چوائس از یورز‘‘۔
یہ لفظ بم تھے اور ان بموں نے ٹام کی بنیادیں ہلا دیں‘ وہ اٹھا اور چپ چاپ باہر نکل گیا‘ وہ دماغی طور پر غائب ہو چکا تھا‘ وہ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا لیکن اسے نظر کچھ نہیں آ رہا تھا‘ وہ کانوں سے سن رہا تھا لیکن اسے سنائی کچھ نہیں دے رہا تھا اور وہ چل رہا تھا لیکن اس کے قدم نہیں اٹھ رہے تھے‘ وہ دس منٹ میں کامیاب لوگوں کی فہرست سے ناکام ترین لوگوں میں شامل ہو چکا تھا‘ وہ چلتا رہا‘ صبح تک پیدل چلتا رہا‘ اگلے دن کے سورج نے آنکھ کھولی تو ٹام کی آنکھ بھی کھل گئی۔
وہ بیخودی میں چلتے چلتے نیویارک سے باہر آ گیا‘ وہ نیویارک کے مضافات کا چھوٹا سا گاؤں تھا اور وہ گاؤں کی مصنوعی جھیل کے کنارے کھڑا تھا‘ اس نے جھرجھری لی‘ ایک لمبا سانس لیا‘ اپنی ٹائی کھولی‘ اوورکوٹ کی جیب سے میڈیکل رپورٹس نکالیں‘ پھاڑیں‘ ڈسٹ بین میں پھینکیں اور ڈیتھ بیڈ کے تین ماہ کو آئیڈیل بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ فیصلے کے اس لمحے نے ٹام کی زندگی بدل دی۔
ٹام روز آسمان دیکھتا تھا‘ وہ زندگی میں سیکڑوں جھیلوں کے کناروں پر گیا‘ اس نے زندگی میں ہزاروں پھول بھی دیکھے اور اس نے کم وبیش اتنے ہی پرندوں کی آوازیں بھی سنی تھیں لیکن فیصلے کے اس ایک لمحے نے ان تمام آوازوں‘ پھولوں‘ جھیلوں اور آسمانوں کا رنگ بدل دیا‘ آسمان‘ جھیل‘ پھول اور آوازیں‘ کائنات کی ہر چیز خاص ہو گئی۔
اس کے حلق میں چالیس برس سے درج ذائقے زندہ ہو گئے‘ وہ ماں کے دودھ سے پچھلی رات کی شراب تک ہر نگلی چکھی چیز کا ذائقہ محسوس کرنے لگا‘ وہ چالیس برس سے گھروں کی چمنیاں اور ان چمنیوں سے ابلتا دھواں دیکھ رہا تھا لیکن دھوئیں میں تین رنگ ہوتے ہیں‘ یہ اسے زندگی میں پہلی بار معلوم ہوا‘ وہ روز سانس لیتا آیا تھا‘ اس کے پھیپھڑے روزانہ سکڑتے اور پھیلتے تھے لیکن اس نے ہوا کے ذائقے‘ ہوا کی خوشبو کو پہلی بار محسوس کیا تھا۔
شبنم جب پاؤں کے نیچے کچلی جاتی ہے تو وہ ایک خاص آواز میں احتجاج کرتی ہے‘ شبنم کا وہ احتجاج بھی اس نے زندگی میں پہلی بار محسوس کیا‘ آبی پرندے جب جھیل سے جدا ہوتے ہیں تو یہ جھیل کو بوندوں کی سلامی پیش کرتے ہیں‘ جدائی کی یہ سلامی بھی اس نے پہلی بار محسوس کی‘ وہ ہمیشہ فراری اور لیموزین میں سفر کرتا تھا۔
وہ طویل عرصے بعد بس اور ٹرین میں سوار ہوا‘اس نے پہلی بار ٹرین کی ٹک ٹک ٹھک ٹھک محسوس کی‘ وہ بچپن سے کافی پی رہا تھا لیکن کافی کا ذائقہ اسے پہلی بار محسوس ہوا‘ ہوا میں نمی بھی ہوتی ہے‘ اس کا احساس اسے پہلی بار ہوا‘ چلتے ہوئے قدموں کی آواز میں ایک ردھم‘ ایک موسیقی ہوتی ہے‘ یہ بھی اسے پہلی بار محسوس ہوا اور موبائل فون‘ نیوز چینلز‘ مہنگی گاڑیاں اورتعلقات یہ دنیا کی واہیات ترین چیزیں ہیں۔
یہ بھی اسے پہلی بار پتا چلا‘ وہ گھر پہنچا‘ اس نے بچوں کے چہرے دیکھے‘ اپنے کتے جیری کو غور سے دیکھااور بیوی کو نظر بھر کر دیکھا تو معلوم ہوا اصل خوشی تو یہ ہیں‘ اس نے اپنے بینک اکاؤنٹس دیکھے‘ کریڈٹ کارڈ کے بل پڑھے اور قسطوں پر خریدی چیزوں کا ڈیٹا دیکھا تو پتا چلا وہ آج تک بینکوں‘ پراپرٹی ڈیلروں اور الیکٹرانکس بنانے والی کمپنیوں کے لیے پیسہ کماتا رہا تھا‘ اسے زندگی میں پہلی بار اپنے لان میں کھلے پھول اور میز پر پڑے سنگترے کی خوشبو محسوس ہوئی‘ اسے پہلی بار اپنی وارڈروب کے کپڑے اور جوتے اضافی لگے اور اسے گھر کی گراسری فضول خرچی محسوس ہوئی ۔
ٹام کی زندگی کا اگلادن بظاہر موت کی طرف ایک اور قدم تھا لیکن عملاً وہ اس کی زندگی کا پہلا دن تھا‘ اس نے زندگی کے اس پہلے دن جاب سے استعفیٰ دے دیا‘ کریڈٹ کارڈ توڑ کر ٹوکری میں پھینک دیے‘ بینک میں پڑی ساری دولت نکال لی‘ آدھی پر اپرٹی بیچ کر آدھی کی قسطیں ادا کر دیں‘پراپرٹی کو کرائے پر چڑھا دیا‘ بچوں کو اسکول سے چھٹی کرائی اور فیملی کو ساتھ لے کر لانگ ہالیڈیز پر نکل گیا۔
اس نے اپنے تمام مخالفوں‘ تمام دشمنوں سے اپنے رویے کی معافی مانگ لی اور وہ لوگ جنھوں نے اس کا دل دکھایا تھا‘ ان سب کو صدق دل سے معاف کر دیا‘ اس نے وہ سو کتابیں بھی خرید لیں جنھیں وہ زندگی میں پڑھنا چاہتا تھا‘ ٹام نے اس دن ہر ملنے والے کو مسکرا کر ملنا شروع کر دیا‘ سوری اور تھینک یو اس کا تکیہ کلام بن گیا تھا۔
وہ لوگوں کو کم اور فیملی اور دوستوں کو زیادہ وقت دینے لگا‘ وہ شام ساڑھے سات بجے ڈنر کرنے لگا‘ وہ نو بجے سو جاتا تھا‘ ساڑھے چار بجے اٹھ جاتا تھا اور صبح تین گھنٹے جنگلوں‘ جھیلوں اور پارکوں میں گھومتا تھا‘ موبائل اس نے بند کر دیا‘ فلمیں وہ دیکھنے اور میوزک سننے لگا‘ ٹام کی اس نئی زندگی نے ٹام کو بتایا‘ اصل زندگی تو ڈیتھ بیڈ کی زندگی ہے‘ہم انسان تو اس وقت جینا شروع کرتے ہیں جب ہم اپنی موت کا دن معلوم کر لیتے ہیں‘ ہمیں اس وقت معلوم ہوتا ہے‘ ہم انسان جسے زندگی سمجھتے ہیں‘ وہ دراصل مرے ہوئے بے جان دن ہوتے ہیں اور جسے ہم موت سمجھتے ہیں وہ اصل زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
ٹام نے اپنی زندگی کے شاندار دن ڈیتھ بیڈ پر گزارے‘ اصل زندگی کے اصل دن لیکن ہم یہ اصل زندگی کب شروع کرینگے؟ اس دن جب ہمیں بھی ڈاکٹر یہ بتائے گا ’’آپ کے پاس صرف ایک مہینہ بچا ہے‘‘۔