انسان کی منفی سوچ ایک ایسی حالت ہے جو نہ صرف فرد کی ذہنی و جذباتی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے رویے، فیصلوں اور تعلقات پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہے، جب انسان بار بار منفی پہلوؤں پر غور کرتا ہے، تو وہ مایوسی، خوف، حسد اور غصے جیسے جذبات کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایسی سوچ انسان کو خود اعتمادی سے محروم کر کے زندگی کی خوبصورتی کو نظر انداز کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وقت کے ساتھ ذہنی بیماریوں، جیسے ڈپریشن اور اینگزائٹی میں اضافہ ہوا ہے۔علم نفسیات کے موضوعات میں ایک اہم موضوع ڈارک سائیکالوجی ہے، جو انسانی ذہن کی ان نفسیاتی تکنیکوں کا مطالعہ کرتی ہے، جنھیں دوسرے افراد پر اثر انداز ہونے، قابو پانے یا ان کے خیالات، احساسات اور رویے کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ اصطلاح عام طور پر ان منفی یا اخلاقی لحاظ سے قابل اعتراض طریقوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو جذباتی، ذہنی یا سماجی استحصال پر مبنی ہوتے ہیں۔ڈارک نفسیات میں کئی نفسیاتی رویے شامل ہوتے ہیں، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
ماہرانہ طور پر قائل کرنا (Manipulation) دوسروں کو اپنے مفاد میں قابو پانے یا ان سے کوئی مخصوص کام کروانے کے لیے چالاکی اور نفسیاتی حربے استعمال کرنا۔نفسیاتی استحصال کسی کی کمزوریوں، خوف یا احساسات کو اس کے خلاف استعمال کرنا ہے۔
اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی جذباتی کمزوریوں کو پہچانیں اور دوسروں کی باتوں پر اندھا اعتماد نہ کریں۔ جو لوگ آپ کے جذبات، ہمدردی یا ندامت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اُن کی چالاکیوں کو سمجھنا اور بروقت ردِعمل دینا بہت اہم ہے۔ ہمیشہ اپنے فیصلے خود سوچ سمجھ کر کریں اور اگر کوئی آپ پر دباؤ ڈالے یا بار بار آپ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے تو صاف الفاظ میں اپنی حدود کا اظہار کریں۔
خود اعتمادی، تنقیدی سوچ اور واضح گفتگو آپ کو ان منفی رویوں سے بچا سکتی ہے۔نفسیاتی استحصال ایک ایسا خاموش ظلم ہے جو انسانی ذہن و دل پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ یہ استحصال محض جسمانی نہیں بلکہ ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی دباؤ کی صورت میں ہوتا ہے، جس میں ایک شخص دوسرے کی خود اعتمادی، توقیر ذات اور ذہنی سکون کو مجروح کرتا ہے۔
استحصال کرنے والا اکثر الفاظ، رویوں یا خاموشی کے ذریعے دوسرے کو کنٹرول کرنے، شرمندہ کرنے یا کمتر محسوس کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے یا رہنے والے افراد اکثر خود کو بے بس، تنہا اور بے وقعت محسوس کرتے ہیں۔نارسیسزم (خود پسندی) ایک نفسیاتی کیفیت ہے جس میں انسان حد سے زیادہ خود کو اہم، برتر اور قابل ِ پرستش سمجھنے لگتا ہے۔
نارسیسٹ افراد اپنی ذات کے سحر میں گرفتار ہوتے ہیں اور دوسروں کے احساسات، خیالات یا ضروریات کو کم اہمیت دیتے ہیں۔ وہ تعریف کے طلبگار، تنقید سے چڑنے والے اور اکثر جھوٹی برتری کے خول میں چھپے ہوتے ہیں۔ بظاہر پُر اعتماد نظر آنے والے یہ لوگ دراصل اندر سے عدمِ تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے تعلقات سطحی ہوتے ہیں، کیونکہ وہ دوسروں کو محض اپنی تسکین کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
نارسیسزم نہ صرف فرد کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کے اردگرد کے لوگوں کی ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات ڈالتا ہے۔ ایسے رویوں کو سمجھنا اور ان کے اثرات سے خود کو بچانا بہت ضروری ہے، خاص طور پر قریبی رشتوں میں یہ رویے عام ہوتے ہیں جو گھر اور خاندان میں نفاق ڈال دیتے ہیں۔سائیکو پیتھی بھی سیاہ نفسیات کا اہم حصہ ہے۔ ایسے لوگ ہمدردی سے محروم ہوتے ہیں، دوسروں کے درد کو محسوس نہیں کرتے اور جھوٹ بولنے یا دھوکا دینے میں کسی قسم کی ندامت محسوس نہیں کرتے۔
سائیکوپیتھی کا شکار افراد بظاہر خوش اخلاق، دلکش اور ذہین لگ سکتے ہیں، لیکن ان کے اندرونی رویے میں خودغرضی، جارحیت اور بیرحمی چھپی ہوتی ہے۔ وہ اکثر سماجی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق، سائیکوپیتھی کا تعلق جینیاتی، ماحولیاتی اور دماغی ساخت سے ہوتا ہے۔ اس بیماری کا بروقت علاج اور نفسیاتی رہنمائی ضروری ہوتی ہے تاکہ مریض معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکے۔
اس کے علاوہ تاریک نفسیات کا ایک اور موثر حربہ گیس لائٹنگ ہے۔ یہ ایک مؤثر نفسیاتی حربہ ہے جس میں کوئی شخص دوسروں کو بار بار جھوٹ بول کر یا حقیقت کو مسخ کر کے ان کی یادداشت، ادراک پر شک کرواتا ہے۔ اس عمل کا مقصد کسی کو اس کے ذہنی توازن پر شک میں مبتلا کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی بات یا احساسات پر بھروسا نہ کر سکے۔ یہ رویہ اکثر قریبی رشتوں، جیسے کہ ازدواجی تعلقات، دوستی، یا کام کی جگہوں پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ گیس لائٹنگ کا شکار فرد دھیرے دھیرے خود پر اعتماد کھو دیتا ہے، الجھن میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور اپنی شخصیت کو کمزور محسوس کرنے لگتا ہے۔
یہ ایک طرح کا جذباتی اور ذہنی استحصال ہے، جسے پہچان کر اس سے بچنا اور مناسب مدد حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ سیاست میں ڈارک سائیکالوجی کا اطلاق عوام کو ایک خاص بیانیے پر قائل کرنے کے لیے جذباتی کرنا یا غلط معلومات کا استعمال کرتے ہوئے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔عوامی جذبات کو خوف، نفرت، یا حب الوطنی کے جذبات کے ذریعے ابھارتے ہوئے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔
مخالفین کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے گیس لائٹنگ، بہتان تراشی، اور دیگر نفسیاتی حربے شامل ہیں۔کاروباری دنیا میں ڈارک نفسیات مارکیٹنگ اور اشتہارات کے ذریعے صارفین کی نفسیات کا استحصال کر کے انھیں غیر ضروری مصنوعات خریدنے پر مجبور کرتی ہے۔ کارپوریٹ سیاست کے وسیلے دفتر کے ماحول میں دھوکا دہی، افواہیں پھیلانے یا دوسروں کی محنت کا کریڈٹ لینے جیسی تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں جو ہماری سماجی اور سیاسی ماحول کا حصہ ہیں۔ذاتی اور سماجی تعلقات میں ڈارک نفسیات میں زہریلے تعلقات (Toxic Relationships) کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی شخص کو جذباتی طور پر کنٹرول کرنے اور اسے احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
دوستی اور سوشل نیٹ ورکس میں اثر و رسوخ کا طریقہ آج کل عام ہے۔ گروہی دباؤ، بلیک میلنگ، یا کسی شخص کو تنہائی میں ڈال کر اسے قابو میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ڈارک نفسیات کے منفی اثرات افراد اور معاشرے پر گہرے پڑ سکتے ہیں۔ تاہم، ان سے بچاؤ کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
نفسیاتی آگاہی کے توسط سے لوگوں کو تعلیم دی جائے کہ وہ ان حربوں کو پہچان سکیں۔اعتماد اور خود آگہی کے ذریعے اپنی ذہنی طاقت اور جذباتی استحکام کو بڑھایا جائے تاکہ دوسروں کے قابو میں نہ آیا جائے۔حقیقت پسندی اور تنقیدی سوچ بہتر نتائج دے سکتی ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
انتھونی ہاپکنز نے ایک بار کہا تھا: دوسرے میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں یا کہتے ہیں اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں صداقت کے ساتھ جیتا ہوں، اس بات کی بنیاد پر کہ میں کون ہوں اور میری کیا قدر ہے۔ میں توثیق کا پیچھا نہیں کرتا یا دوسروں کی رائے سے چمٹا نہیں رہتا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی سکون زندگی کی نعمتوں اور اس کے چیلنجوں کو کھلے بازوؤں سے قبول کرنے سے حاصل
ہوتا ہے۔ توقعات کو چھوڑ کر اور تمام تجربات کا خیرمقدم کرتے ہوئے، مجھے ایک قسم کی آزادی ملتی ہے جو ہر دن کو ہلکا اور زیادہ پورا کرنے
والا بناتی ہے۔ہم ایک ایسے وقت میں رہتے ہیں جب ظاہری شکل دل سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اور تقریبات اکثر ان جذبات سے
کہیں زیادہ ہوتی ہیں جن کا مقصد ان کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں لوگ شاندار ڈسپلے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، پھر بھی کنکشن اور موجودگی کی پرسکون، ضروری خوبصورتی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جنازوں کو خراج تحسین کے طور پر تیار کیا جاتا ہے، پھر بھی اکثر منائے جانے والے شخص کے جوہر سے محروم رہتے ہیں۔ شادیاں دو لوگوں کے درمیان محبت سے زیادہ شو کے بارے میں بن جاتی ہیں۔ ہم تصاویر، لیبلز، اور تعریفوں کی قدر کرتے ہیں، جو اکثر اندر کی روح، کردار اور مہربانی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ظاہری شکل کے اس کلچر میں، واقعی معنی خیز چیز کو نظر انداز کرنا آسان ہے۔لیکن میں مختلف طریقے سے رہنے کا انتخاب کرتا ہوں۔ میں سطح سے آگے جانے، ڈسپلے پر گہرائی کی قدر کرنے، اور ان چیزوں کو ترجیح دینے کے لیے پرعزم ہوں جن کو پسندیدگیوں یا لیبلز سے ماپا نہیں جا سکتا۔
زندگی اس وقت امیر ہو جاتی ہے جب ہم لوگوں کو ان کی روحوں کے لیے، ان کی گرمجوشی کے لیے، اور ان کے حقیقی روابط کے لیے
جو وہ ہماری زندگیوں میں لاتے ہیں۔ دوسروں کے لیے منظوری حاصل کرنے یا پرفارم کرنے کے لامتناہی چکر میں پھنسنے سے بچنے کے
لیے شور سے پیچھے ہٹنا آزاد ہے۔ اس کے بجائے، میں اپنی اقدار کو پروان چڑھانے، بامعنی تعلقات استوار کرنے، اور زندگی کو
خوبصورت بنانے والے چھوٹے، مستند لمحات میں خوشی تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہوں۔اس طرح زندگی گزارنا ظہور کے جنون میں
مبتلا دنیا میں بغاوت کا خاموش عمل ہے۔ یہ ظاہری نمائش پر اندرونی طاقت، رسم پر محبت، اور معاشرے کے معیارات پر دل کی سچائیوں
کا احترام کرنے کا انتخاب کر رہا ہے۔ میں سادگی اور مادہ کو قبول کرتا ہوں، یہ سمجھتے ہوئے کہ حقیقی قناعت اسپاٹ لائٹ میں نہیں بلکہ
امن، شکرگزاری اور حقیقی تعلق کے لمحات میں پائی جاتی ہے۔لہذا، میں فیصلے کے شور یا موافقت کے دباؤ سے بے نیاز ہوکر اپنے راستے
پر چلتا رہوں گا۔ میں جیسا کہ میں ہوں کافی ہوں، اور میری زندگی اس چیز کی قدر کرنے کے لیے زیادہ امیر ہے جو واقعی اہم ہے۔ ایک
ایسی دنیا میں جو اکثر تحفے سے زیادہ لپیٹنے کو اہمیت دیتی ہے، میں جیسا کہ میں ہوں، مستند طور پر، غیر معذرت کے ساتھ، اور خوشی سے
زندگی گزارنے کا انتخاب کرتا ہوں، یہ جان کر کہ حقیقی دولت ان دیکھی خصوصیات میں پنہاں ہے جو روح کی تشکیل کرتی ہیں۔ہمارے
غصے ، جھنجھلا ہٹ، طیش میں آنے، احساس بربری کا شکار ہوجانے ، نفرت ، اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے، صرف اپنے آپ سے محبت کرنے
کے پیچھے حالات و واقعات نہیں ہوتے بلکہ ہماری ذہنی و جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں اگر ہم ذہنی و جسمانی طور صحت مند ہونگے تو ہمارے
روئیے بھی صحت مند ہونگے جب روئیے صحت مند ہونگے تو ان سے صحت مند حالات و واقعات کا جنم ہوگا لیکن اگر ہم ذہنی و جسمانی
طورپر بیمار ہونگے تو ہمارے روئیے بھی بیمار ہونگے اور جب روئیے بیمار ہونگے تو پھر اس سے بیمار حالات و واقعات جنم لیں گے ایسا
ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی صحت مند آدمی غصے، جھنجھلاہٹ، احساس بر تری یا صرف اپنے آپ سے محبت کرنے جیسی بیماریوں کا شکا ر
ہوجائے ۔ اس لیے اگر آپ کو کوئی شخص غصے، جھنجھلاہٹ ، طیش میں بے تکی باتیں یا تقریر کرتے ہوئے نظر آئے تو آپ کارویہ اس کے
ساتھ وہ ہی ہونا چاہیے جو ایک بیمار آدمی کے ساتھ آپ کا ہوتا ہے اس لیے آئیں سب سے پہلے تو ہم اپنے ملک کے سب ذہنی و جسمانی
بیماریوں کے لیے مل کر دعا کریں ۔ یہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ بیمار سخت بے سکونی کا شکار ہوتے ہیں ۔ سارتر لکھتاہے کہ ”
میری ماں صرف یہ دعا مانگتی تھی کہ اسے سکون نصیب ہو ‘ ‘ جبکہ سیموئیل جانسن کہتاہے ” اطمینان کے سوتے ذہن سے پھوٹتے ہیں اور
انسانی فطرت کے بارے میں وہ کم علم جو اپنی بجائے دوسری چیزوں کو تبدیل کرکے خو شیوں کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں وہ نہ صرف
اپنی تمام کوششوں کو ضائع کرتے ہیں بلکہ ان ہی غموں کو اپنے لیے بڑھا لیتے ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے وہ ساری جدو جہد کررہے
ہوتے ہیں ”۔
یاد رہے جب ہم مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور یہ سو چتے ہیں کہ مسئلہ کہیں باہر ہے تو دراصل یہ سو چ ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے یہ کہہ کر ہم اپنا کنٹرول اس باہر کے مسئلے کے ہاتھ میں دیتے ہیں لیکن کبھی بھی مسئلہ باہر نہیں ہوتا مسئلہ ہمیشہ اندر ہوتاہے ۔ اسی لیے ایمر سن کہتا تھا کہ ” تم جو کچھ ہو اس ہونے کا شو ر میرے کانوں میں اسی قدر زیادہ ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا ” ۔اب ہمارے ملک کے اہم کرداروں کو ہی لے لیجئے جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی جارہی ہے غصے، طیش اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں وہ سب کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں یہ سو چے سمجھے بغیر کہ مسئلہ باہر نہیں ہے بلکہ مسئلہ خود ان کے اندر ہے اور یہ وہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں حتی کہ انہوں نے نا سمجھی میں اپنی ہر چیز دائو پر لگا دی ہے نتیجے میں مسئلے نے تو کیا ختم ہونا تھا انہوں نے اپنی لیے ان گنت اور نئے مسائل پیدا کردئیے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ یہ نئے مسائل اور نئے مسائل کو جنم دیں گے او ر وہ مسائل اور نئے مسائل کو جنم دیں گے اور پھر وہ وقت آجائے گا کہ وہ اگر چاہیں گے بھی تو کبھی اپنے مسائل سے نکل ہی نہیں پائیں گے اصل میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم اپنی دنیا کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس عینک پر بھی غور کر لیاکریں کہ جس کے ذریعے ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیںدنیا کے بارے میں ہمارے خیالا ت کی ساری تشکیل کا اسی عینک پر انحصار ہے لیکن افسوس ہماری اکثریت ساری زندگی اپنی عینک کے بارے میں بھی سو چتی تک نہیں ہے یاد رکھیں ہم جوکچھ ہیں اس کا سب کو پتہ ہوتا ہے سوائے خود ہمارے ۔نامور ماہر نفسیات اسٹیفن آر کو ۔ کو وے لکھتاہے ” برائے مہربانی کو شش کیجئے کہ اپنے ذہن سے ہر چیز نکال دیں اور اپنی پوری توجہ میری بات پر مرکو ز رکھیں اپنے وقت ، بزنس، خاندان ، احباب وغیرہ کسی کے بارے میں بھی فکر مند نہ ہوں اور اپنے ذہن کو حقیقتاً کھلا رکھیں ۔ اب آپ اپنے ذہن کی آنکھ سے اپنے آپ کو اپنی کسی پیارے کے جنازے پر جاتا دیکھیں خود کو جنازے کی جگہ پر پہنچتا دیکھیں اور اپنی کار سے باہر آتا دیکھیں آپ جب عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو پھول دیکھتے ہیں اور دھیمی دھیمی ماتمی موسیقی آپ کے کانوں میں پڑتی ہے آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں آپ کا احساس زیاں وہاں موجود ہر شخص کے دل سے بہہ رہا ہے اور شناسائی کے مہ وسال کی خوش کن یادوں میں بھی بڑھتا جاتا ہے یہ احساس آپ کے دل میں بھر جاتا ہے جب آپ اس کمرے کے آخر پر پہنچتے ہیں اور تابوت میں جھانکتے ہیں تو اچانک آپ خود کو اپنے مقابل پاتے ہیں یہ آپ کی اپنی میت ہے اور آخری رسومات کی تقریب ہے جو کہ آج سے تین سال بعد منعقد ہورہی ہے۔ اور یہ تمام لوگ آپ کے لیے اپنی عزت کا اظہار کرنے اپنی محبت نچھاور کرنے اور آپ کی بھر پور زندگی کی یاد میں یہاں اکٹھے ہوئے ہیں آپ رسومات کے شرو ع ہونے کے انتظار میں جب اپنی نشست پر بیٹھتے ہیں تو آپ کی نظر اپنے ہاتھ میں رسومات کے پروگرام کی کاپی پر پڑتی ہے تقریب میں چار مقرر ہونگے پہلا ، آپ کے خاندان سے قریبی یادور کا، بچوں ،بھائیوں ، بہنوں ، بھانجے ، بھتیجوں ، چچائوں میں سے کوئی جو سارے ملک کے طول و عر ض سے آپ کے جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہوئے ہیں دوسر امقرر ،آپ کے دوستوں میں سے کوئی ہوگا جو کہ آپ کی شخصیت پر روشنی ڈال سکے تیسرا مقرر ،آپ کے پیشے سے متعلق ہوگا اور چوتھا آپ کے مذہبی یا پھر ایسے فلاحی ادارے سے کہ جہاں آپ اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ اب آپ ذرا گہرائی سے سوچئے آپ ان تمام مقررین کے منہ سے اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں کیسی باتیں سننا پسند کریں گے؟ تو پھر آپ کو اپنی کامیابی کی تعریف مل جائے گی اور یہ ممکن ہے کہ یہ تعریف آپ کے ذہن میں اس سے پہلے موجود تعریف سے مختلف ہو ہماری تمام جدوجہد کے مطمح ہائے نظر یعنی شہرت، کامیابی، دولت اور ایسی ہی دوسری چیزیں شاید صحیح دیوار کا حصہ بھی نہ نکلیں ۔اس لیے آئیں پہلی فرصت میں اپنی عینک کو بدل دیں تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ مسائل باہر نہیں بلکہ آپ کے اندر ہیں اور آخر کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنا آج گذاریں یا درکھیں ایک نہ ایک دن ہم سب نے چلے جانا ہے یہ ہمارے آج پر منحصر ہے کہ کل لوگ ہمیں کس طرح یاد کریں گے ۔