اسلام ٹائمز: اسرائیلی حملوں کے بارے میں جولانی حکومت کی خاموشی کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ علاقائی کھلاڑیوں بالخصوص ترکیہ وغیرہ پر انحصار کر رہی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی بالواسطہ حمایت اسے اسرائیل کیخلاف کچھ کرنے سے روکتی ہے۔ اسکے برعکس عوامی مزاحمت روز بروز جولانی حکومت سے مایوس ہو رہی ہے۔ شامی عوام اپنی سرزمین کے دفاع کی خواہش مند ہے، جبکہ جولانی حکومت کا موقف اسکے برعکس ہے۔ اسکے نتیجے میں شام میں داخلی تناؤ اور کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے، جو خطے میں سلامتی کے توازن کو تبدیل کرسکتا ہے۔ تحریر: سید رضی عمادی
صیہونی حکومت نے جولانی حکومت کی خاموشی کے باعث شام پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام کے کچھ علاقوں میں لوگوں نے خود ہتھیار اٹھائے ہیں اور اس وقت صیہونی فوجیوں کے ساتھ باقاعدہ جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ شام پر اسرائیل کے حملے سے مغربی ایشیا میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور اس سے خطے میں نئے تنازعات اور عدم استحکام پیدا ہوسکتے ہیں۔ شام کے جنوب میں درعا صوبے میں الجبلیہ ڈیم کے قریب حماہ کے فوجی اڈے پر صیہونی حکومت نے شدید فضائی حملے کیے ہیں۔ اسی طرح اس علاقے میں زمینی فوجی کارروائی بھی جاری ہے۔ مقامی ذرائع نے اسرائیلی حکومت کے ڈرون طیاروں کے علاقے کے اوپر سے گزرنے اور فائرنگ کے مناظر کی بھی اطلاع دی ہے۔ ان حملوں میں اب تک درجنوں شامی شہید ہوچکے ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شام کی مختلف فوجی تنصیبات پر صیہونیوں کی فضائی بمباری کے بعد صیہونی فوجی دسیوں بکتربند گاڑیوں میں صوبہ درعا کے شہر "نوی" میں داخل ہونے کے علاوہ الجبلیہ ڈیم کے اطراف میں واقع جنگلوں تک آگے بڑھ گئے ہیں۔ ان حملوں کی مختلف ممالک کی طرف سے مذمت کی جا رہی ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہر دور میں شام کی ارضی سالمیت، قومی وقار اور اقتدار اعلیٰ کی حمایت کی ہے۔ اسماعیل بقائی نے دمشق، حماہ، حمص اور درعا صوبوں میں شام کی فوجی اور شہری، سائنسی اور تحقیقاتی مراکز اور تنصیبات پر صیہونیوں کے فضائی اور زمینی حملوں کی شدید الفاظ مین مذمت کی۔
انہوں نے کہا صیہونیوں کے ہاتھوں شام کے سب سے قیمتی اثاثوں کی تباہی کا ذمہ دار ان ممالک کو بھی ٹھہرانا چاہیئے، جنہوں نے ان جرائم کا راستہ ہموار کیا ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران چند ماہ قبل خبردار کرچکا تھا کہ شام میں خلفشار سے صیہونی حکومت غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے غاصبانہ رویہ کو علاقے کے دیگر ممالک تک بھی پھیلا دے گی۔ انہوں نے کہا کہ تہران ماضی کی طرح شام کے عوام کے قومی وقار اور قدیم تمدن اور اس ملک کی ارضی سالمیت کے تحفظ پر زور دیتا ہے اور عالمی برادری بالخصوص علاقے کے ممالک اور اسلامی تعاون تنظیم سے اپیل کرتا ہے کہ صیہونی حکومت کے باغیانہ رویے کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور اسے قانون کی کھلی خلاف ورزی اور دیگر ممالک پر دراندازی کی خاطر ذمہ دار ٹھہرائیں۔
ادھر سعودی خبر رساں ادارے "ایس پی اے" کے مطابق سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری مذمتی بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی قابض فورسز کی کارروائیاں شام اور خطے کی سلامتی و استحکام کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزیاں ہیں، جنہیں یکسر مسترد کرتے ہیں۔ سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں عالمی برادری بالخصوص سلامتی کونسل کے مستقل ارکان پر زور دیا گیا کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اور شام و خطے میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں پر سنجیدگی سے حقیقی احتسابی عمل کو تیز کریں۔ جولانی حکومت کا کمزور ردعمل اس وقت سب سے اہم مسئلہ ہے۔ بشار اسد کے دور میں جب بھی شام پر اسرائیل کا حملہ ہوتا تو بشار کی فوج دفاعی میزائلوں کے ذریعے ضرور جواب دیتی، لیکن اب اس کے برعکس جولانی حکومت نے صرف لفظی مذمت پر اکتفا کیا ہوا ہے۔
اسرائیل کی مغربی حمایت بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ امریکہ اور مغرب کی حمایت سے اسرائیل نے ہمیشہ استفادہ کیا ہے۔ اسی طرح سلامتی کونسل کی اسرائیل کے خلاف غیر فعال حیثیت سے بھی اس غاصب حکومت نے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ بہرحال اس وقت درعا اور نوئی جیسے علاقوں میں لوگوں نے اپنے طور پر مسلح ہو کر اسرائیلی فورسز کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ درعا کی مسجدوں سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ عوام اسرائیلی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔
اسرائیلی حملوں کے بارے میں جولانی حکومت کی خاموشی کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ علاقائی کھلاڑیوں بالخصوص ترکیہ وغیرہ پر انحصار کر رہی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی بالواسطہ حمایت اسے اسرائیل کے خلاف کچھ کرنے سے روکتی ہے۔ اس کے برعکس عوامی مزاحمت روز بروز جولانی حکومت سے مایوس ہو رہی ہے۔ شامی عوام اپنی سرزمین کے دفاع کی خواہش مند ہے، جبکہ جولانی حکومت کا موقف اسکے برعکس ہے۔ اس کے نتیجے میں شام میں داخلی تناؤ اور کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے، جو خطے میں سلامتی کے توازن کو تبدیل کرسکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی حکومت جولانی حکومت میں اضافہ کے برعکس حکومت نے رہی ہے نے کہا شام کے اور اس
پڑھیں:
اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط
ایک اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹ نے اتوار کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے چار ناقابل قبول اسرائیلی شرائط کا انکشاف کیا۔ اسلام ٹائمز۔ آج بروز اتوار، ایک اسرائیلی میڈیا چینل نے غزہ میں نسل کشی کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی چار ناقابلِ قبول شرائط کو بے نقاب کیا۔ فارس نیوز مطابق، اسرائیلی چینل i24NEWS نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کا خاتمہ اسرائیل کی درج ذیل چار شرائط کی تکمیل پر منحصر ہے، تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، حماس کا مکمل طور پر اقتدار سے دستبردار ہونا، غزہ پٹی کا مکمل غیر مسلح ہونا اور حماس کے درجنوں رہنماؤں کو ملک بدر کرنا۔ یہ شرائط ایسے وقت میں پیش کی جا رہی ہیں جب حماس کئی بار واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی جنگ کے خاتمے سے مشروط ہے، اور وہ مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے یا اپنے رہنماؤں کو وطن سے نکالنے کی شرائط کو قبول نہیں کرے گی۔
اس سے قبل، حماس کے ایک رہنما نے المیادین ٹی وی کو بتایا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور اس کی غزہ میں واپسی کو روکنا اسرائیل کے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے کا مرکزی نکتہ ہے، جبکہ اس میں مستقل جنگ بندی یا اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی جیسے بنیادی مطالبات شامل نہیں ہیں۔ اسرائیل صرف حماس سے قیدیوں کا کارڈ چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔ حماس نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ ایک جامع قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ جنگ مکمل طور پر بند کی جائے، اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائے، باریکے کی تعمیر نو کا آغاز ہو، اور محاصرہ ختم کیا جائے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم نے گزشتہ شب مظاہروں اور طوماروں کے باوجود جن پر عام شہریوں، ریزرو فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں نے دستخط کیے تھے تاکہ قیدیوں کی واپسی کے لیے جنگ بندی کی جائے کہا کہ ہمارے پاس فتح تک جنگ جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم ایک نازک مرحلے میں ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حماس نے زندہ قیدیوں میں سے نصف اور کئی ہلاک شدگان کی لاشوں کی رہائی کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہ دعویٰ ایسی حالت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے جمعرات کی شب اعلان کیا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ فوری طور پر ایک جامع پیکیج مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
اس پیکیج میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، متفقہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مکمل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی انخلاء، تعمیر نو کی بحالی اور محاصرہ ختم کرنا شامل ہیں۔ خلیل الحیہ، جو مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ غزہ سے متعلق جزوی معاہدے دراصل نیتن یاہو کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں، جو جنگ، نسل کشی اور بھوک کے تسلسل پر مبنی ہے۔