بھارتی جزیرے میں داخل ہونے پر امریکی سیاح گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 اپریل 2025ء) ایک امریکی سیاح کو شمالی سینٹینیل جزیرے میں داخل ہونے پر گرفتار کیا گیا، جہاں کے باشندے بیرونی دنیا سے ہر طرح کا رابطہ ختم کر چکے ہیں۔ یہ سیاح سینٹینی باشندوں کے لیے "تحفے" کے طور پر ایک ناریل اور ڈائٹ کوک ساتھ لے گیا تھا۔
بھارتی پولیس نے جمعرات کو بتایا کہ ایک امریکی سیاح کو ایک آئسولیٹڈ قبیلے کے جزیرے میں داخل ہونے پر گرفتار کیا گیا۔
اس کے پاس ڈائٹ کوک کا ایک کین اور ایک ناریل تھا۔24 سالہ شخص شمالی سینٹینیل جزیرے میں داخل ہوا، جو بھارت کے جنوب مشرقی ساحل سے دور جزائر انڈمان اور نکوبار کا حصہ ہے۔
وہ سینٹینی لوگوں سے ملنا چاہتا تھا، جو باقی دنیا سے بالکل علیحدہ رہتے ہیں۔
(جاری ہے)
تقریباً 150 کی تعداد میں موجود سینٹینیلیز افراد بیرونی دنیا کے ساتھ تمام تر رابطہ ترک کر چکے ہیں اور جو بھی ان کے جزیرے کے قریب آتا ہے اس پر وہ نیزے پھینکنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
ان کی زبان اور ثقافت باہر کے لوگوں کے لیے آج بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ اس دورے کو GoPro کیمرے پر ریکارڈ کیا گیاسیاح نے مبینہ طور پر مرکزی جزیرے سے ممنوعہ علاقے تک کھلے سمندر میں تقریباً 35 کلومیٹر کا سفر کرنے کے لیے ایک موٹر والی کشتی کا استعمال کیا۔
مقامی لوگوں کو بیماریوں سے بچانے اور ان کے طرز زندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے بھارتی اور غیر ملکی شہریوں پر شمالی سینٹینیل جزیرے کے پانچ کلومیٹر کے اندر سفر کرنے پر یکساں پابندی ہے۔
انڈمان اور نکوبار جزائر کے پولیس چیف ایچ جی ایس دھالیوال نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا، "وہ تقریباً پانچ منٹ کے لیے مختصر طور پر اترا، ساحل پر تحفہ چھوڑا، ریت کے نمونے اکٹھے کیے اور اس نے اپنی کشتی پر واپس آنے سے پہلے ایک ویڈیو ریکارڈ کی۔" ان کے بقول مذکورہ شخص کے GoPro کیمرہ فوٹیج کے جائزے میں اس کو جزیرے پر پہنچتے اور اترتے ہوئے دیکھا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ "امریکی شہری کو گرفتاری کے بعد مقامی عدالت میں پیش کیا گیا اور اب مزید پوچھ گچھ کے لیے اسے تین روزہ ریمانڈ پر رکھا گیا ہے۔"
شمالی سینٹینیل جزیرے پر جانے کی کوششیںپولیس کے مطابق اسی سیاح نے اس سے قبل اکتوبر 2024 میں کیاک (کشتی) کا استعمال کرتے ہوئے جزیرے میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی لیکن ہوٹل کے عملے نے اسے روک دیا تھا۔
بعد میں اس نے جنوری 2025 میں دوبارہ کوشش کی۔اس بار اس نے ابتدا میں سیٹی بجا کر توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس کے بعد اس نے ناریل اور ڈائیٹ کوک کو بطور "تحفہ" چھوڑ دیا اور قبیلے سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ اس امریکی سیاح کو کیا سزا مل سکتی ہے۔ انڈمان 400 مضبوط جاراوا قبائل کا گھر بھی ہے، جن کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں بیرونی لوگوں کے رابطے سے بھی خطرہ ہے۔
مقامی لوگوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم سروائیول انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر کیرولین پیئرس نے ڈی پی اے نیوز ایجنسی کو بتایا، "اب تک یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ غیر رابطہ شدہ لوگوں میں فلو یا خسرہ جیسی عام بیرونی بیماریوں سے بچنے کے لیے کوئی قوت مدافعت نہیں پائی جاتی ہے، جو ان کا مکمل صفایا کر سکتی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ سیاح کا رویہ بظاہر "احمقانہ" تھا۔
سن 2018 میں ایک امریکی مشنری غیر قانونی طور پر شمالی سینٹینیل جزیرے پر اترا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مقامی باشندوں نے اسے تیروں سے مارا تھا۔
انڈمان اور نکوبار جزائر، میانمار کے قریب، بھارت کے لیے تزویراتی طور پر اہم ہیں اور اہم جہاز رانی کے راستوں پر واقع ہیں۔ نئی دہلی کا اس جزیرہ نما خطے میں فضائی اور بحری اڈے بنانے کا منصوبہ ہے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شمالی سینٹینیل جزیرے جزیرے میں داخل ہونے امریکی سیاح کیا گیا کے لیے
پڑھیں:
کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے
اس بلاگ کی تحریک سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک تحریر اور ویڈیو بنی ہے۔ پہلے ہم تحریر پر بات کرلیتے ہیں۔ تحریر کچھ یوں تھی کہ ایک پاکستانی صاحب رمضان المبارک کے مہینے میں کسی غیر مسلم ملک کے دورے پر گئے۔ جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو ان کے میزبان نے کہا کہ چلیے لنچ پر چلتے ہیں۔ ان پاکستانی صاحب نے کہا کہ وہ لنچ نہیں کرسکتے۔ میزبان کے استفسار پر انھوں نے کہا کہ وہ روزے سے ہیں۔
میزبان نے پوچھا کہ یہ روزہ کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے روزے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ہم اللہ کے حکم سے سورج طلوع ہونے سے پہلے کھانا بند کر دیتے ہیں اور پھر سورج غروب ہونے پر اللہ کے نام سے افطار یا کھانا کھاتے ہیں۔
میزبان نے کہا کہ میں کھانا یہاں منگوا لیتا ہوں یہاں تمہیں کھاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھے گا۔ اس پر بھی ان صاحب نے کہا کہ یہاں مجھے کھاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھے گا مگر اللہ تو ہر جگہ ہے اور چونکہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اس لیے میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا۔ اس پر میزبان نے پوچھا کہ کیا تمھارے ملک کے تمام لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں؟ اس پر ان صاحب نے سینہ پھلا کر فخریہ انداز میں بتایا کہ ان کے ملک کا کیا بچہ کیا بڑا سب ہی ایسا سوچتے ہیں۔
میزبان نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا کہ پھر تو تمھارے ملک میں کوئی جرم نہیں ہوتا ہوگا کیونکہ اللہ تو ہر جگہ ہے اور وہ یقیناً دیکھتا ہوگا؟ وہ صاحب دورہ مکمل کرکے پاکستان واپس آگئے ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنے میزبان کی اس بات کا جواب نہیں دے پائے۔
دوسری تحریک جو ایک ویڈیو بنی وہ کچھ یوں تھی کہ ایک صاحب خریداری کےلیے دکان پر جاتے ہیں لیکن دکان پر دکاندار نہیں ہوتا۔ وہ کچھ چیزیں چرا کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں کہ یکایک ان کی نظر اوپر کیمرے پر پڑتی ہے جو دکاندار نے نصب کروایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ فوراً تمام چیزیں واپس اپنی اپنی جگہ پر رکھ دیتے ہیں۔ اتنے میں دکاندار واپس آجاتا ہے اور وہ اس کی سمجھداری کی تعریف کرتے ہیں کہ اس نے دکان سے چیزوں کی چوری سے بچاؤ کےلیے کیمرہ نصب کروا لیا ہے۔
دکاندار انھیں بتاتا ہے کہ کیمرہ تو لگوا لیا ہے پر ابھی وہ کارآمد نہیں کیونکہ ابھی تک اسے وقت نہیں ملا کہ وہ اس کا کنکشن کروا سکے۔ اس کے بعد اس گاہک کے ذہن پر کیا گزری ہوگی یہ میں آپ کے تخیل پر چھوڑتا ہوں۔
ہم اللہ سے زیادہ ڈرتے ہیں یا کیمرے کی آنکھ سے؟ اس کا جواب کسی کے تخیل پر نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ ہمارا جواب دراصل ہمارے عقائد کا حصہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ من حیث القوم ہم چوری کرنے سے نہیں ڈرتے بلکہ چوری کرکے پکڑے جانے سے ڈرتے ہیں۔
یہ بات بھی کچھ لوگوں کےلیے ہی کہی جاسکتی ہیں۔ ہماری اشرافیہ تو چوری کرکے دو انگلیوں سے فتح کا نشان بھی بناتے ہیں اور ضرورت پڑے تو بیماری کی اداکاری کرکے اسپتال میں داخل بھی ہوجاتے ہیں۔ ملک میں کرپشن کے مقدمات اس کا عملی ثبوت ہے۔
ہم چاہیں زبانی طور پر چوری کی جتنی بھی مذمت کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے قول اور ہمارے افعال ایک نہیں اور بقول سہیل وڑائچ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
ہمارے بچپن میں یہ کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی گناہ یا جرم کرنا ہے تو وہاں جاکر کروں کہ جہاں اللہ نہ دیکھ رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی تو کوئی جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔ لہٰذا اس طریقے سے لوگوں کو گناہ اور جرم سے روکنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ آج کل ویسے بھی یہ سب باتیں کتابی لگتی ہیں۔ لوگوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ہر جگہ جرم و گناہ کرو ماسوائے اس جگہ کے جہاں کیمرے لگے ہوں۔
ان دنوں جرائم کو بھی دو وسیع معنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نیلے کالر والے جرائم اور سفید کالر والے جرائم۔ نیلے کالر والے جرائم جیسے فون چھیننا، موٹر سائیکل یا گاڑی چوری کرنا وغیرہ۔ سفید کالر جرائم تو باقاعدہ ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکے ہیں کہ جس میں بہت قابل اور تعلیم یافتہ لوگ آپ کےلیے کام کرتے ہیں۔ اس کام میں ایسا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی جمع پونجی خود ان کے حوالے کردیں یا لوگوں کی جیب سے اس طرح پیسے نکلوائے جائیں کہ لوگوں کا اس کا پتہ بھی نہ چلے اور اگر پتہ چل بھی جائے تو انگلی ان تک نہ پہنچ پائے۔ اسٹاک ایکسچینج اور جائیداد کی خرید و فروخت کے سودے اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ اس سے زیادہ مثالیں آپ کےلیے نہ سہی مگر میرے لیے یقیناً مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں، اس لیے اس بات کو یہی روک دیتے ہیں۔
ہم لوگوں کو اس سے ڈر کیوں نہیں لگتا کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے؟ اس کی وجہ وہ بے شمار وظائف، روایات اور رسومات ہیں کہ جن پر عملدرآمد کرکے ہم اپنے تئیں گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ جس طرح موٹر وے پر رفتار زیادہ ہونے کی ریکارڈنگ دکھا کر جرمانہ کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح ہمارے تمام افعال بھی ریکارڈ ہورہے ہیں اور یوم الدین پر ہمارے اپنے اعضاء ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے اور اس وقت لوگوں کے حق کو کھانے والے کی سزا کی تلافی کسی عبادت کے وسیلے سے ممکن نہ ہوگی۔ لیکن ہاں عبادت کے بدلے شاید ممکن ہوں لیکن وہ بھی اس صورت میں کہ اگر اس شخص کی رضا یا منشا ہو جس کا حق غصب کیا گیا تھا۔ اگر یہ سب کچھ کرکے آخر میں تہی دامن ہی ہونا ہے تو پھر آخرت میں کیوں اور دنیا میں کیوں نہیں کہ جہاں شاید اس کا ازالہ بھی ممکن ہے۔
اگر وقت ملے تو ضرور سوچیے گا ورنہ اللہ تو دیکھ رہا ہے کہ جس کی من حیث القوم نہ ہم نے پہلے کبھی پروا کی تھی اور نہ آئندہ کی کوئی امید ہے کیونکہ اگر ہم نے پروا کی ہوتی تو آج اقوام عالم میں ہماری یہ عزت افزائی نہ ہورہی ہوتی اور آخرت میں کس کے ساتھ کیا ہوگا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔