ٹرمپ کے 75 دن، کیا یہ واقعی ایک سنہری دور کا آغاز ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
کراچی (نیوز ڈیسک) ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری صدارتی مدت کے پہلے ڈھائی ماہ میں معاشی پالیسیوں کے حوالے سے کئی بڑے فیصلے کیے، جن میں سخت ٹیرف، ٹیکس کٹوتیوں کی تجدید، اور ضابطوں میں نرمی شامل ہیں۔
اگرچہ ان اقدامات پر تنقید بھی ہوئی، لیکن ماہرین اور کچھ معتبر ذرائع کے مطابق، ان پالیسیوں کے کئی مثبت اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی وہی ہے جس کے لیے امریکیوں نے انہیں ووٹ دیا، انہوں نے دنیا بھر کےممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جیسا سلوک ہم کرتے ہیں ویسے ہی کریں ۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یہ کامیاب ہوئی تو نہ صرف معیشت مضبوط ہوگی بلکہ امریکہ اپنی صنعتی عظمت دوبارہ حاصل کر لے گا۔ کیا یہ واقعی ایک “سنہری دور” کا آغاز ہوگا؟ ٹرمپ کے ٹیرف نے غیر ملکی کمپنیوں کو امریکہ میں سرمایہ کاری کے لیے مجبور کیا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ جو ممالک امریکی مصنوعات پر زیادہ ٹیکس لگائیں گے، انہیں بھی اسی طرح کے ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے امریکی فیکٹریوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری شروع کی، خاص طور پر آٹو موٹیو اور اسٹیل کے شعبوں میں۔ عالمی کمپنیوں نے اپنی سپلائی چینز کو امریکہ منتقل کرنا شروع کیا، جس سے امریکی معیشت کو فائدہ ہوا۔
ٹرمپ کی امریکا پہلےپالیسی نے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں نئی نوکریاں پیدا کیں۔ انہوں نے مقامی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے کمپنیوں کو مراعات دیں۔ فروری 2025تک، مینوفیکچرنگ میں 50ہزار نئی نوکریاں پیدا ہوئیں، جو کہ گزشتہ تین سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
امریکی ملازمتوں کی واپسی سے دیگر ممالک میں لیبر مارکیٹ پر دباؤ کم ہوا۔ ٹرمپ نے تیل اور گیس کی پیداوار بڑھانے کے لیے نئے اجازت نامے جاری کیے، جس سے توانائی کے اخراجات کم ہوئے۔ تیل کی عالمی قیمتیں مستحکم ہوئیں، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے اچھا رہا۔ وائٹ ہاؤس سے جاری فیکٹ شیٹ کے مطابق، ٹرمپ نے غیر ملکی تجارت کو قومی ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے جوابی محصولات نافذ کر دیے ۔
یہ پالیسی نہ صرف امریکی معیشت کو مضبوط کرنے کا وعدہ ہے بلکہ کارکنوں کی حفاظت، صنعتی طاقت کی بحالی، اور قومی سلامتی کو یقینی بنانے کا عزم بھی ہے۔
تجارتی خسارے پر ضرب لگاتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ معیشت کے لیے زہر ہے۔ 10 فیصد بنیادی محصول سے اسے کم کرنے کی کوشش معاشی استحکام کی نوید ہے۔غیر ملکی حریفوں پر انحصار ختم کر کے، یہ پالیسی اہم سپلائی چینز کو محفوظ بناتی ہے، جو قومی سلامتی کے لیے سنگ میل ہے۔
امریکی محنت کشوں کو غیر منصفانہ تجارت سے بچانے کے لیے محصولات کا نفاذ نوکریوں کو محفوظ اور نئے مواقع پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ کھوکھلی صنعتی بنیاد کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے، یہ پالیسی پیداوار کو وطن واپس لانے کی ترغیب دے رہی ہے۔
تمام ممالک پر 10 فیصد محصول عائد کر کے، ٹرمپ نے کہاہمارے ساتھ ویسا سلوک کرو جیسا ہم تمہارے ساتھ کرتے ہیں۔یہ منصفانہ تجارت کی طرف بڑا قدم ہے۔ سب سے بڑے خسارے والے ممالک پر زیادہ محصولات سے تجارت کو متوازن کرنے کا راستہ ہموار ہوگا۔ اگر شراکت دار جوابی کارروائی کریں تو محصول بڑھائیں، یا تعاون کریں تو کم کریں۔یہ لچک کامیابی کی ضمانت ہے۔
ادویات، سیمی کنڈکٹرز، اور توانائی جیسے شعبوں کو مستثنیٰ رکھ کر ملکی ضروریات کو ترجیح دی گئی ہے۔ امریکی مارکیٹ تک رسائی مراعات ہے، حق نہیں۔یہ اعلان عالمی سطح پر امریکہ کی طاقت بڑھا سکتا ہے۔
کرنسی ہیر پھیر اور 200 ارب ڈالر کے ویلیو ایڈڈ ٹیکس بوجھ کو کم کر کے امریکی کمپنیوں کو سہارا دیا جا رہا ہے۔ 225 سے 600 ارب ڈالر کے جعلی سامان کے نقصان کو روک کر، یہ پالیسی مسابقت اور صارفین کی حفاظت کو یقینی بناتی ہے۔
1997سے کھوئی گئی پچاس لاکھ نوکریوں کو واپس لانے کا عزم امریکی خواب کو زندہ کر سکتا ہے۔ متوسط طبقے اور چھوٹے شہروں کو معاشی طاقت دے کر، یہ پالیسی سماجی انصاف کی طرف پیش رفت ہے۔ بائیڈن دور کے 49 ارب ڈالر کے زرعی خسارے کو پلٹا کر، ٹرمپ زراعت کو دوبارہ عروج پر لے جانا چاہتے ہیں۔
امریکا سب سے پہلے کے نعرے کے تحت، یہ محصولات عالمی منڈیوں میں امریکی دبدبہ بڑھائیں گے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ 10فیصد عالمی محصول سے معیشت 728ارب ڈالر بڑھے گی، 28 لاکھ نوکریاں پیدا ہوں گی، اور ملکی آمدنی ساڑھے پانچ فیصد بہتر ہوگی۔
پہلے دور کے محصولات نے معیشت کو مضبوط کیا اور پیداوار واپس لائی۔ تحقیق بتاتی ہے کہ محصولات سے قیمتوں پر کم اثر پڑتا ہے، یعنی صارفین کے لیے سستی برقرار رہے گی۔ امریکی مصنوعات کی خریداری کو فروغ دے کر، یہ پالیسی گھریلو صنعتوں کو نئی زندگی دے گی۔ توانائی، ٹیکس کٹوتی، اور ضابطوں میں کمی کے ساتھ مل کر، یہ پالیسی امریکی خوشحالی کا نیا دور شروع کر سکتی ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے شہریوں کی جبری بیدخلی روک دی
امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کو وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری طور پر ملک بدر کرنے سے تاحکم ثانی روک دیا ہے۔ یہ حکم وینزویلا کے متاثرہ تارکین وطن کی جانب سے دائر کی گئی مداخلتی استدعا پر جاری کیا گیا، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہیں عدالتی جائزے کے بغیر جبری بیدخلی کا سامنا ہے۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں بنیادی عدالتی عمل کے بغیر ملک بدر کیا جا رہا ہے، جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تارکین وطن خطرناک گینگز سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کی موجودگی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف آخری کامیابی وائٹ ہاؤس کو ہی حاصل ہوگی، تاہم انتظامیہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ عدالتی حکم پر عملدرآمد سے انکار کرے گی۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اب بھی مزید پچاس سے زائد وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری بیدخل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل دو سو سے زائد وینزویلا کے باشندوں سمیت متعدد افراد کو السلواڈور کی جیلوں میں منتقل کیا جا چکا ہے، جس پر انسانی حقوق کے اداروں نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف امریکہ بھر میں مظاہرے
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اور ٹرمپ انتظامیہ کی سخت پالیسیوں کے خلاف امریکہ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی سامنے آئے ہیں۔ واشنگٹن، شکاگو اور دیگر اہم شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے، جب کہ نیویارک میں صدر ٹرمپ کے خلاف سب سے بڑی ریلی نکالی گئی، جس کی قیادت ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنماؤں نے کی۔
مظاہرین نے صدر ٹرمپ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ ان کے غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدامات کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی سخت گیر پالیسیوں اور متنازع اقدامات سے نہ صرف ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے بلکہ امریکہ کی عالمی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔
ان مظاہروں کی کال معروف تحریک ’ففٹی ففٹی ون موومنٹ‘ کی جانب سے دی گئی تھی، جس کا مقصد تمام پچاس امریکی ریاستوں میں بیک وقت مظاہروں کا انعقاد کرنا ہے تاکہ ایک منظم عوامی ردعمل دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔
Post Views: 3