WE News:
2025-04-22@06:46:44 GMT

قبل از وقت بچے کی پیدائش: وجائنا بیمار ہے!

اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT

بچے کی تھیلی 7ویں مہینے میں پھٹ گئی!

بچہ 8ویں مہینے میں پیدا ہونے کے بعد 2 دن بعد چل بسا !

ساڑھے 6 مہینے کا بچہ ہے اور بچے دانی کا منہ کھل گیا ہے، کیا کریں ؟

32 ہفتے کا بچہ پیدا ہوا مگر بچ نہ سکا !

ایسے بہت سے ایسے سوالات اکثر ہم سے پوچھے جاتے ہیں۔ تشویش کے ساتھ ساتھ وجہ جاننے پر بھی اصرار ہوتا ہے۔ اگر چہ زیادہ تر لوگ ڈاکٹر کے زیر علاج ہوتے ہیں مگر کسی ایک کے پاس بھی تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔

وقت سے پہلے درد زہ شروع ہونے کی یا بچے کی تھیلی وقت سے پہلے پھٹنے کی زیادہ تر کیسسز میں وجہ وجائنا کی کمزور صحت ہے۔

جی ٹھیک سنا آپ نے۔ ۔ ۔ وجائنا جسے عرف عام میں شرمگاہ کہا جاتا ہے گو ہم اس سے متفق نہیں کہ اسی شرمگاہ سے ہی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تھیلی وقت سے پہلے کیوں پھٹ گئی؟

خالق نے انسانی جسم میں بہت سے سوراخ بنائے ہیں جو اندرونی جسم کو بیرونی دنیا سے ملاتے ہیں۔ آنکھیں، ناک، کان، منہ، وجائنا، یورتھرا اور مقعد۔ ان سب سوراخوں میں ایسے بے شمار پہریدار بٹھائے گئے ہیں جو جراثیموں کی فوج کو اندرونی جسم میں داخل نہیں ہونے دیتے۔

مثال کے طور پر آنکھوں کے آنسو، کان میں پائی جانے والی ویکس، ناک کے بال، منہ کا لعاب یا تھوک ، یورتھرا اور مقعد کے تنگ پیچ ان سب اعضا کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں  جراثیموں سے بچاتے ہوئے انفکشن سے روکتے ہیں۔ آشوب چشم تب ہوتا ہے جب حملہ شدید ہو اور آنکھ کمزور پڑ جائے، زکام تب ہوتا ہے جب ناک کے بال اور پانی وائرس اور بیکٹریا کو نہ روک سکیں، کان سے پیپ تب بہتا ہے جب کان کی ویکس کمزور پڑ جائے۔ پیشاب میں انفیکشن تب ہوتا ہے جب یورتھرا ڈھیلا پڑ جائے اور جراثیم مثانے میں داخل ہو جائیں اور مقعد میں پھوڑا بننے کی بھی یہی وجہ ہے۔

وجائنا کا مسئلہ کچھ گمبھیر ہے۔

1 -وجائنا کسی پیچ وغیرہ سے بند نہیں۔

2-  اس میں کوئی ویکس وغیرہ نہیں پیدا ہوتی۔

3-  وجائنا پیشاب پاخانے والی جگہ سے بہت نزدیک ہے سو ہر وقت جراثیم کے شدید حملے کا خطرہ رہتا ہے۔

4-  وجائنا کے راستے رحم سے ماہواری کا خروج ہوتا ہے سو اس وقت بھی جراثیم حملہ کرتے ہیں۔

5- وجائنا میں جماع کے دوران بہت سے جراثیم منتقل ہوتے ہیں۔

آتشک اور سوزاک کا نام آپ نے شہر کی سڑکوں کے کنارے لگے اشتہاروں میں پڑھا ہی ہوگا جہاں حکیم صاحب یہ دعوت دے رہے ہوتے ہیں کہ آتشک اور سوزاک کے شافی علاج کے لیے مطب تشریف لائیے، جملہ امور راز میں رکھیں جائیں گے۔

لیکن آپ میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ یہ آتشک اور سوزاک ہیں کیا؟

صاحب یہ وہ بیماریاں ہیں جو بیویوں کو شوہر حضرات سے تحفے میں ملتی ہیں اور انہیں  STD ( sexually transmitted diseases)

کہا جاتا ہے۔ ان بیماریوں کی وجہ بننے والے جراثیم وجائنا میں نہ صرف بدبو دار گاڑھی رطوبتیں، خارش اور بدبو کی وجہ بنتے ہیں بلکہ اسقاط حمل، وقت سے پہلے زچگی اور پانی کی تھیلی کا پھٹ جانا بھی ان ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ وجائنا کی حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا؟

ایسا ہے کہ خالق نے اچھے بیکٹریا کی صورت میں ایسے پہرے دار بنائے تو ہیں جو اپنی جان دے کر وجائنا کی حفاظت کرتے ہیں مگر بہت سی کنڈیشنز ایسی ہوتی ہیں جن میں ان کی تعداد کم رہ جاتی ہے اور نقصان پہنچانے والے بیکٹریا زیادہ ہو جاتے ہیں، یعنی وجائنا بیمار ہو جاتی ہے۔ اس صورت حال کو بیکٹریل وجینوسس BV کہتے ہیں۔

حمل، خون کی کمی، اسقاط حمل، حفظان صحت کی کمی، پیڈز کا ناکافی استعمال، ناکافی غذا اور ایسے بہت سے عوامل ہیں جو وجائنا کی بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔

مزید پڑھیے: امریکی ویزا، ایڈولسینس اور 14سالہ پاکستانی امریکن ٹک ٹاکر لڑکی کا قتل!

خاتون اگر موٹاپے اور ذیابیطس کی شکار ہوں تب بھی وجائنا اپنی صحت کھو دیتی ہیں۔ ان دونوں کیفیات میں فنگس وجائنا میں گھر بنا لیتا ہے اور جانے کا نام نہیں لیتا۔ یہ وہی فنگس ہے جو منہ میں بھی نظر آتا ہے جب کسی کی صحت کمزور ہو۔

ہمارے یہاں وجائنا کا معائنہ کرکے اندر پائی جانے والی رطوبتوں کی پہچان اور اس کے مطابق علاج تجویز کرنے کا رواج کچھ کم ہی ہے۔ عرف عام میں لوگ ایک ہی لفظ جانتے ہیں اور وہ ہے لیکوریا۔

ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ لیکوریا بذات خود کوئی بیماری نہیں۔ وجائنا میں کچھ نہ کچھ رطوبتیں ہر وقت موجود ہوتی ہیں جیسے آنکھ میں آنسو اور کان میں ویکس یا منہ میں تھوک۔

یہ رطوبتیں ابنارمل تب سمجھی جاتی ہیں جب ان میں انفیکشن پیدا ہو جائے اور بد بو آنے لگے، وجائنا میں خارش شروع ہو جائے یا رطوبتوں کا رنگ پیلا، سبز یا دہی کی پھٹکیوں جیسا ہو جائے۔

مزید پڑھیں: نومولود کو دھاتی چمچ پسند نہیں!

مارکیٹ میں ایسے بہت سے کیمیکلز موجود ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وجائنا میں انہیں ڈال کر دھونا چاہیے۔ اس عمل کو Douching کہتے ہیں۔ ہم اس کے حق میں نہیں۔ وجائنا کی کیمیکلز سے اندرونی صفائی بھی وجائنا کو مزید کمزور کرتی ہے کہ قدرت کا بنایا ہوا دفاعی نظام گڑ بڑ ہو جاتا ہے۔

کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ہمیں زندگی میں محض ناک کے انفیکشن سے پالا پڑا ہے اور وہ بھی شاید اس لیے کہ ہماری ناک بہت اونچی ہے۔ بات کا دوسرا حصہ تو تفنن طبع کے لیے کہا گیا ہے مگر بات کا پہلا حصہ بالکل سچ ہے۔

کیا کرنا چاہیے؟

باقی آئندہ پڑھیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

آتشک بچے کی تھیلی حمل حمل ضائع سوزاک قبل از وقت پیدائش لیکوریا وجائنا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سوزاک قبل از وقت پیدائش لیکوریا وقت سے پہلے وجائنا کی کرتے ہیں ہوتا ہے پیدا ہو ہیں کہ کی وجہ بہت سے ہے اور بچے کی سے بہت ہیں جو

پڑھیں:

بجلی

ہمارے پاس کوئی ایسا قومی رہنما موجود نہیں ہے جو پہلے قوم کو بتا سکتا کہ ہماری اصل بدحالی کتنی گھمبیر ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران‘ اس کا حد درجہ مہنگا علاج اور آئی پی پیز وہ استعارے ہیں جس کی آڑ میںبجلی کا بحران پیدا کیا گیا۔ آج بھی حکومتی پالیسی کی وجہ سے گردشی قرضے ادا کرنا مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔

Ember‘ لندن میں موجود ایک ایسا تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں دنیا کے ہر ملک کی بجلی بنانے کے ذرائع اور حکمت عملی پر غیر متعصب تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ادارہ کی رپورٹ کے مطابق‘ پوری دنیا میں کلین انرجی’’Clean Energy‘‘کا تناسب 41فیصد ہے۔ 2024ء میں سولرانرجی میں 29فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں (Wind energy) تقریباً آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے کم ترین اضافہ‘ کوئلے اور ڈیزل (Fossil) سے حاصل کرنے والی توانائی کے ذرائع میں ہوا ہے۔ جو تقریباً 1.4 فیصد کے قریب ہے۔ یعنی پوری دنیا ‘ فوسل توانائی سے دور بھاگ رہی ہے اور کلین انرجی کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

مگر ہمارے ملک کی داستان الگ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نام پر وہ کرپشن ہوئی ہے، جو ایک منفی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ کمال عیاری سے ڈیم بنانے کے کام کی رفتار کو حد درجہ شکستہ کردیا گیا ہے۔ پھر لوڈشیڈنگ کو بطور ہتھیار استعمال کیاگیا، اس کی آڑمیں نجی بجلی گھر بنانے کے معاہدے شروع ہو گئے۔ جن سے ہمارے ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔

کمال دیکھئے کہ پاکستان میں زیادہ تر بجلی ڈیزل یا کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے‘ ایسے استعمال شدہ بجلی گھر درآمد کیے گئے جو متعلقہ ممالک میں متروک کیے جارہے تھے۔ یہ ملک سے انتقام لینے کی مونہہ بولتی تصاویر ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ باخبر حلقے حقائق جانتے ہیں ۔ مگر ہمارے نیرو تو دہائیوں سے چین کی بانسری مسلسل بجاتے آرہے ہیں۔

ایک سابقہ بجلی اور پانی کے وزیر ملے، فرمانے لگے کہ جب میں وزیر بنا تو پیغام بھجوایا گیا کہ آپ اگر نجی شعبے کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کریں تو … وزیر موصوف کاریگر آدمی تھے، ہر چیز کو بھانپ گئے ، پھر سیاست میں آ گئے۔ اور آج بھی خیر سے میڈیا پرمیرٹ اور شفافیت پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال جانے دیجیے۔

اس طرح کے سرفروش کردار ‘ ہر سیاسی جماعت میں اور ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔ کیا آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران کسی بھی بڑے آبی ڈیم کو مکمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ واپڈا کو تو ویسے ہی کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو چیئرمین بنائے جاتے ہیں اور ان کی ’’کہانیاں‘‘ آپ واپڈا ملازمین سے پوچھ سکتے ہیں۔ شاید انھیں بتا دیاجاتا ہے کہ برخوردار کسی ڈیم کو بروقت مکمل نہیں کرنا ۔ ہاں‘ ان کی طرف‘ ایک مصنوعی توجہ ضرور رکھنی ہے۔

 پاکستان کا نجی شعبہ ’’کلین انرجی‘‘ نہیں پیدا کر رہا۔ ہمارے ہاں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری ایک حکومت میں تعینات ہونے والے مشیر نے اچھی خاصی کمائی کی ، ذرا سی بازپرس ہوئی تو بوریا بستر گول کر کے باہر چلے گئے۔ یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے ‘ جو صرف ساڑھے تین سال حکومت کر پائی۔ جناب ‘ ہمارے تمام اکابرین ایک جیسے رویے کے حامل ہیں۔ شفاف حکومت‘ تبدیلی حکومت اور عوامی حکومت کے طرز عمل میں رتی برابر کا کوئی فرق نہیںہے۔

ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ بجلی کی چار گنا اور انواسنگ بھی ہوتی ہے۔ اور ہمارے سرکاری بابوؤں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔کسی سرکاری بابو نے یہ معائنہ نہیں کیا‘ کہ اصل پیداواری صلاحیت کتنی ہے۔ آپ خود مجھے سمجھائیے کہ کیا ہماری معیشت کو ہندوستان نے تباہ کیا ہے؟ نہیں جناب! یہ کام ہم نے خود کیا ہے۔ اقتدار بھی اشرافیہ کا‘ میڈیا بھی ان کا‘ ریاستی ادارے بھی ان کے ۔Amber کی رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں سولر انرجی کو لوگوں نے مجبوراً استعما ل کرنا شروع کیا ہے کیونکہ سرکاری بجلی ناقابل برداشت حد تک مہنگی کردی گئی ۔

لوگوں نے پیٹ کاٹ کر سولر پینل اور نیٹ میٹرنگ پر توجہ دی ہے۔ 2024 میں ہمارے ملک میں سترہ گیگا واٹ کے پینل امپورٹ کیے گئے ہیں۔ World Economic Forumنے بتایا ہے کہ چین نے سولر پینلزکی پیداوار حد سے زیادہ کر دی ہے۔ اور انھوں نے پاکستان کے عوام کی نفسیات سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چین نے ڈبل منافع کمایا۔ ایک طرف تو چین نے بجلی گھر فراہم کیے ‘ دوسری طرف‘ ہمیں سولر پینل مہیا کرنے شروع کر د یئے۔

 بہرحال لوگوں میں سولر پینل کے بڑھتے ہوئے استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری بجلی کا استعمال کم ہونا شروع ہوا ، سرکاری بجلی کی فروخت میں کمی آنی شروع ہو گئی۔ اس پر حکومت نے وہ بجلی جو لوگ سولر پینل سے اپنے گھروں میں پیدا کر رہے تھے، اس کی قیمت خرید مبینہ طور پر صرف دس روپے کر دی۔ عوامی رد عمل کا خوف محسوس ہوا تو بجلی کی قیمت میں سات روپے کی کمی فرما دی۔ اس کی تشہیر ایسے کی گئی جیسے کہ ملک پر ایک ایسا احسان فرما دیا گیا ہے یا عوام کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اس پر کیا لکھوں۔ بلکہ کیوں لکھوں۔ہر ایک کو بجلی کے معاملات کی اصلیت معلوم ہے۔ لوگوں میں شعور کی سطح حد درجہ بلند ہے۔ وہ اپنے غم خواروں اوررقیبوں کو خوب پہچانتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • نئے پوپ کا انتخاب کیسےکیا جاتا ہے؟
  • ’باپ تو سپر مین ہوتا ہے‘، بچے کو گرمی سے بچانے کے لیے باپ نے سیٹ پر ہاتھ رکھ لیے، ویڈیو وائرل
  • امرود
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • تھرپارکر، پراسرار بیماری سے 8 سے زائد مور ہلاک، سیکڑوں بیمار
  • بجلی
  • کسی صوبے کا دوسرے صوبے کے پانی پر ڈاکا ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: احسن اقبال
  • شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ
  • نوجوانوں میں مشہور ہوتا ’ہرے ناخنوں‘ کا رجحان کیا ہے؟
  • ایف آئی آر کی کہانی