کسی افغان کو زبردستی نہیں نکالیں گے، این ایف سی اجلاس نہ بلایا تو عوام کو لیکر نکلوں گا: گنڈا پور
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وزیر اعلیٰ خیبر پی کے علی امین گنڈاپور نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ہماری پارٹی کے لوگوں کو توڑا گیا۔ اس کا نتیجہ دہشت گردی کے شکل میں آپ دیکھ رہے ہیں۔ افغانستان کے خلاف جنگ میں باقاعدہ اعلان کر کے حصہ لیا۔ ہم نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کیلئے ٹی او آرز بنائے، فیڈرل حکومت ٹی او آرز والے مسئلے کو سنجیدگی سے لے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کیپیسٹی کی کمی ہے، یہ فیڈرل گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ عوام کا تحفظ کریں۔ انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن اطلاعات کے بعد ہوتی رہتی ہیں مگر یہ آپریشن باقاعدہ طور پر فیڈرل ادارے کے تحت کیا گیا۔ تیس ارب روپیہ ہم نے پولیس کو دیا۔ جب سے ہماری حکومت ہے ہم نے صوبائی ایکشن پلان تیار کیا ہے جس کے اچھے رزلٹ آئیں گے۔ جب تک افغانستان میں امن نہیں ہوگا اس حطے میں امن لانا ناممکن ہے۔ اب اگر انہوں نے ہتھیار اٹھایا ہے تو ان سے اس طرح نہ نمٹا جائے، پہلے آپ کو دل جیتنے پڑیں گے۔ افغان مہاجرین کے معاملہ پر ہمارا واضح موقف ہے۔ ہمارے صوبے میں جو افغان مہاجرین جانا چاہتے ہیں ان کو ہم خوش آمدید کہیں گے۔ خیبر پی کے بالکل بھی کسی کو اس طرح نہیں نکالے گی، یہ نہ ہماری پالیسی نہ ہی روایات ہے۔ ملک میں دہشگردی کے حالات سے متعلق قوم کو بتانا چاہتا ہوں۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایات کے مطابق ہماری اب بھی دہشگردی سے نمٹنے کی پالیسی مذاکرات کے ذریعے ہی ہے۔ ہماری حکومت کو ختم کرنے کے لیے زور لگایا گیا۔ ہمارے ممبران کو توڑا گیا۔ عوام اور اداروں کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوگیا۔ ہمیں افغانستان سے مذاکرات کی اجازت دی جائے۔ اس سب کا بہت نقصان ہورہا ہے۔ کاٹلنگ میں افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ پہلے بھی یہاں ہمارے ایک ایس ایس پی بھی شہید ہوئے۔ کپیسٹی کی کمی ہے۔ 10 بے گناہ شہری اس میں شہید ہوئے۔ ہر چیز پر سیاست نہ کی جائے۔ ہمارے شہری شہید ہوئے۔ وفاقی حکومت نے اسے سیاسی رنگ دیا۔ اس آپریشن سے متعلق ہماری پولیس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ وفاقی اداروں نے آپریشن کیا۔ آنکھیں بند کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کولیٹرل ڈیمج ہورہا ہے۔ ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے۔ ہم نے اپنی پولیس کو 30 ارب روپے دیے ہیں۔ وفاقی حکومت نے جو بیانات دیے وہ قابل مذمت ہیں۔ صوبائی ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع کردیا ہے۔ اس ایکشن پلان کے بہت اچھے نتائج آرہے ہیں۔ لوگ ہم پر اعتماد کر رہے ہیں۔ عوام فورسز کے ساتھ کھڑے ہوکر دہشتگردی کا خاتمہ کرے گی لیکن جو وفاقی حکومت کی پالیسی ہے اس کے بہت خوفناک نتائج ہوں گے۔ لوگوں نے ہتھیار کیوں اٹھایا اس کی وجہ تلاش کی جائے۔ لوگوں کے دلوں کو جیتا جائے، اعتماد کا رشتہ بحال کیا جائے۔ ہم پولیس کو مضبوط کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت بارڈرز سکیورٹی سے متعلق اقدامات نہیں کرتی تب تک نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ افغان پناہ گزینوں سے متعلق بھی ہم پالیسی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بارڈر پر چھوڑنا مناسب نہیں۔ ہمارے صوبے کی پولیس اور انتظامیہ زبردستی افغان پناہ گزینوں کو نہیں نکالے گی‘ این ایف سی کے مطابق مطلوبہ فنڈز نہیں دیے جارہے۔ اپریل میں این ایف سی بلانے کی کمٹمنٹ کی گئی تھی لیکن وہ کمٹمنٹ پوری نہیں کی۔ صدر مملکت کی صحتیابی کے لیے دعا گو ہوں۔ اپریل کا مطلب اپریل ہے۔ اگر یہ حق نہ دیا گیا تو پورے صوبے کی عوام کے ساتھ نکلوں گا اور اپنا حق لے کر رہوں گا۔ نیٹ ہائیڈل کا 75 ارب روپے بھی ہمیں نہیں دیے گئے۔ ہم نے فنڈز سے لوگوں کی ڈیویلپمنٹ کے کام کرنے ہیں۔ کرم میں مسئلہ بنا تو اس کا تدارک صوبائی حکومت اپنے فنڈز سے کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت غیر سنجیدگی دکھا رہی ہے۔ ٹائم لائن میں نے دے دی ہے، اس پر ہر صورت عملدرآمد کرنا ہوگا۔ بانی پی ٹی آئی نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی۔ بانی پی ٹی آئی ڈیل نہیں کرے گا۔ بانی پی ٹی آئی ایک مقصد کے لیے جیل میں ہے۔ مذاکرات کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ جو خبریں چلیں ایسی کوئی بات نہیں۔ بانی چیئرمین نے دہشتگردی اور بد امنی سے متعلق سب سے زیادہ گفتگو کی۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی مجھے اپنے لیے کچھ نہیں کہتا۔ میں بطور خان کا سپاہی بانی پی ٹی آئی کی جنگ لڑتا رہوں گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی وفاقی حکومت پولیس کو رہے ہیں
پڑھیں:
ہماری اولین ترجیح صیہونی جیلوں سے اپنے قیدیوں کی رہائی ہے، لبنانی صدر
اپنے ایک بیان میں جوزف عون کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے بعض عناصر امریکہ کیجانب سے لبنانی فوج کی مدد کو بہانہ بنا کر اشتعال پھیلا رہے ہیں حالانکہ فوج کی ذمے داری صرف "حزب الله" کو غیر مسلح کرنا نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ عسکری پہلووں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لبنان کے صدر "جوزف عون" نے کہا کہ جب کوئی فوج جنگ میں داخل ہوتی ہے لیکن پھر بھی تنازعات کا حل نہ نکال سکے تو ایسے میں مذاکرات کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ انہوں نے سوال اُبھارا کہ کیا حالیہ صورت حال میں لبنان کسی نئی جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے؟، جب کہ ہمارا سامنا ایسے دشمن سے ہو جس نے ہماری سرزمین پر قبضہ کیا ہو، ہمیں ہر روز نشانہ بنائے اور ہمارے بیٹے اس کی قید میں ہوں۔ اس لئے ہماری اولین ترجیح صیہونی جیلوں سے اپنے قیدیوں کی رہائی ہے۔ امریکی ایلچی "ٹام باراک" کے لبنان کو شام سے ملحق کرنے کے بیان پر انہوں نے کہا کہ تمام لبنانی اس بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ شام کے ساتھ لبنان کی سرحد کے تعین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ فرانس نے شام کے ساتھ بارڈر کا نقشہ ہمیں فراہم کر دیا ہے اور جب بھی دمشق اپنی حدود کا تعین کرنے کے کا فیصلہ کرے گا لبنان اس کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے۔
تاہم شبعا فارمز کو آخر کے لئے چھوڑ دیں گے۔ نیز ہم سمندری و زمینی سرحدوں کے تعین کے لئے بھی ایک کمیٹی تشکیل دے سکتے ہیں۔ جوزف عون نے ہتھیاروں سے پاک لبنان کے حوالے سے کہا کہ امریکی حکومت میں لبنانی فوج کی مدد کے لئے بہت زیادہ اور متاثرکن آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بعض عناصر امریکہ کی جانب سے لبنانی فوج کی مدد کو بہانہ بنا کر اشتعال پھیلا رہے ہیں حالانکہ فوج کی ذمے داری صرف "حزب الله" کو غیر مسلح کرنا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کی توجہ صرف جنوبی علاقوں پر نہیں بلکہ وہ اپنی ذمے داری پورے ملک میں احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ فوج کے علاوہ کسی کے پاس ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں۔ اس منصوبے پر عمل ہو رہا ہے اور ہم اس منصوبے کو مکمل کر کے رہیں گے۔ واضح رہے کہ ہتھیاروں سے پاک لبنان کا منصوبہ، دراصل امریکی و صیہونی چال ہے، جس کا ہدف مقاومت اسلامی کو کمزور کرنا ہے۔