Express News:
2025-04-22@01:22:53 GMT

چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط دہم)

اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT

اگرچہ فلسطینیوں کی پہلی عظیم مزاحمت (انیس سو چھتیس تا انتالیس) برطانوی انتظامیہ نے صیہونیوں اور کچھ مقامی فلسطینی طفیلیوں کے تعاون سے وقتی طور پر کچل دی۔ویسے بھی باہمی نفاق کے سبب اس کی کامیابی کا امکان کم ہی تھا۔مگر کچلنے کے بعد اگلا مرحلہ زخموں پر مرہم رکھنے کا ہوتا ہے۔ ایسا یوں بھی ضروری تھا کیونکہ ہٹلر کی گرم گرم پھونکیں برطانیہ اپنی گردن پر محسوس کر رہا تھا۔

یورپ میں بارود کا ڈھیر کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا۔برطانیہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی پیٹھ پیچھے نامکمل سامراجی وعدوں سے ڈسے ہوئے عرب نازی جرمنی کی برطانیہ دشمن پالیسی کے لیے خام مال ثابت ہوں۔

چنانچہ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے سے چار ماہ قبل مئی انیس سو انتالیس میں فلسطین سے متعلق برطانوی پارلیمنٹ نے چیمبرلین حکومت کے قرطاسِ ابیض کی سادہ اکثریت سے منظوری دے دی۔اس سے پہلے فروری میں فلسطینی عربوں اور صیہونیوں کو ایک مشترکہ ریاست میں رہنے پر آمادہ کرنے کے لیے لندن میں سرکاری سرپرستی میں کانفرنس ہوئی۔فریقین ایک دوسرے سے آمنے سامنے بات کرنے پر آمادہ نہیں تھے لہٰذا برطانوی حکومت نے انھیں کسی فارمولے پر متفق کرنے کے لیے بچولیے کا کردار ادا کیا۔مگر حسبِ توقع لگ بھگ ایک ماہ تک جاری یہ کانفرنس ناکام رہی۔

چنانچہ برطانوی حکومت نے معاملات براہ راست ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ قرطاس ابیض کی شکل میں سامنے آیا۔اس میں کہا گیا کہ اس وقت فلسطین میں یہودی آبادی ساڑھے چار لاکھ ہے۔یعنی انیس سو سترہ کے بالفور ڈیکلریشن کے تحت فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کا برطانوی وعدہ پورا ہو گیا۔بالفور ڈیکلریشن کا مطلب عرب اکثریت کو نظرانداز کر کے ایک یہودی ریاست کا قیام ہرگز نہ تھا۔لہٰذا برطانوی حکومت سمجھتی ہے کہ اگلے دس برس میں فلسطین ایک متحد آزاد مملکت کے طور پر ابھرے کہ جس میں اکثریت اور اقلیت کے مفادات کا یکساں تحفظ ہو اور وہ مشترکہ طور پر کاروبارِ حکومت میں شامل ہوں۔

اگلے پانچ برس میں پچھتر ہزار مزید یہودیوں کو قانونی طور پر فلسطین میں آباد ہونے کے اجازت نامے جاری کیے جائیں گے۔اور یہ میعاد ختم ہونے کے بعد مزید یہودی آبادکار عربوں کی رضامندی سے ہی فلسطین میں آباد ہو سکیں گے۔

قرطاسِ ابیض میں کہا گیا کہ لامحدود نقل مکانی کی صورت میں باہمی نفرتوں میں اضافہ لازمی ہے۔فلسطین کی معیشت بھی بے لگام نقل مکانی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔عربوں کے انھی خدشات نے گزشتہ تین برس سے جاری بے چینی کو جنم دیا۔لہٰذا تدارک کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

قرطاس ابیض کے ذریعے پچانوے فیصد فلسطین میں زرعی اراضی یہودی آبادکاروں کو فروخت کرنے پر پابندی لگا دی گئی تاکہ عرب آبادی میں اضافے کے سبب زمین کی کمیابی کے نتیجے میں زرعی و روزگاری بحران پیدا نہ ہو اور بے زمین کاشتکاروں کی بڑھتی تعداد میں کمی ہو سکے۔

اس قرطاسِ ابیض نے انیس سو سینتیس کے پیل کمیشن کی اس تجویز کو زندہ درگور کر دیا کہ فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا جائے۔قرطاسِ ابیض میں اتنی رعائیتوں کے باوجود فلسطین کی عرب ہائر کمیٹی نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس کے دو بنیادی معلومات نہیں مانے گئے۔ اول یہ کہ فلسطین کو فوراً آزاد کیا جائے اور دوم یہ کہ کوٹہ مقرر کرنے کے بجائے یہودیوں کی آمد پر مستقل پابندی لگائی جائے۔

تاہم جب صیہونیوں نے اس قرطاس ابیض کو اپنے لیے موت کا پروانہ قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا اور برطانیہ کو دشمن نمبر ون قرار دے کر مسلح دہشت گرد کارروائیاں شروع کر دیں تو فلسطینیوں نے قرطاسِ ابیض کی سفارشات کو مشروط طور پر تسلیم کر لیا۔

دہشت گرد تنظیم ارگون نے پولش حکومت اور یورپ میں موجود صیہونیوں کی مدد سے فلسطین میں چالیس ہزار مسلح یہودی لشکر اتار کے برطانوی ڈھانچے کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس جذباتی منصوبے پر اپریل انیس سو چالیس میں عمل ہونا تھا۔مگر ستمبر انیس سو انتالیس میں دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی تو یہ منصوبہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔

اس دوران جیوش ایجنسی کے رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے سیاسی ذہانت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ جب تک جنگ جاری ہے ہم برطانیہ سے ہٹلر کے خلاف مکمل تعاون کریں گے۔ جنگ کے بعد برطانیہ نے پیل کمیشن کی سفارشات کے مطابق ایک یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ پورا نہیں کیا تو پھر ہم سب برطانیہ سے شد و مد سے لڑیں گے۔

انیس سو چوالیس میں جب صیہونی قیادت نے بھانپ لیا کہ جنگ اپنے اختتامی مراحل میں ہے مگر برطانیہ ہر اعتبار سے کمزور ہو چکا ہے تو بن گوریان کی مسلح تنظیم ہگانہ سمیت تمام مسلح صیہونی دھڑوں نے اسٹرٹیجک اتحاد کر کے کمزور برطانیہ کو فلسطین میں نشانے پر رکھ لیا۔ یہودیوں کی غیر قانونی آمد میں یک بیک اضافہ ہو گیا۔برطانوی انتظامیہ جن غیرقانونی تارکینِ وطن کو گرفتار کر کے قبرس میں قائم کیمپ میں بھیجتی وہ دوبارہ چوری چھپے یہودی ایجنسی کی مدد سے فلسطین کا رخ کرتے اور جنگی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اکثر داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے۔

انیس سو پینتالیس کے انتخابات میں چرچل کو شکست ہوئی اور لیبر پارٹی برسرِ اقتدار آ گئی۔لیبر پارٹی کے کنونشن میں قرطاسِ ابیض کو منسوخ کر کے یہودی ریاست کی حمائیت کی کوشش ہوئی۔مگر وزیرِ خارجہ ارنسٹ بیون نے ایسے قدم کے مضمرات سے خبردار کرتے ہوئے قرطاسِ ابیض کی پالیسی کو کسی نہ کسی طور جاری رکھنے پر زور دیا۔چنانچہ علامتی طور پر یہ پالیسی فلسطین میں برطانوی راج کے خاتمے تک جاری رہی۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ اقوامِ متحدہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں فلسطین کو تقسیم کرنے کا جو فیصلہ کیا اس میں یہودیوں اور فلسطینیوں کو کم و بیش اتنی ہی زمین الاٹ ہوئی جس کی تجویز انیس سو سینتیس کے پیل کمیشن نے پیش کی تھی۔

جب چودہ مئی انیس سو اڑتالیس کو بن گوریان نے تل ابیب میں اسرائیل کے قیام کا اعلان پڑھا تو اس کے فوراً بعد قرطاس ابیض کے تحت کیے گئے اقدامات کو مکمل طور پر کالعدم قرار دے کر عربوں کو وسیع پیمانے پر قتل اور بے دخل کرنے کا کام عروج پر پہنچ گیا۔

گویا برطانوی پیل کمیشن دوبارہ زندہ ہو گیا اور برطانوی قرطاسِ ابیض تاریخ کی قبر میں گہرا دفن ہو گیا۔    (ختم شد)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں فلسطین فلسطین میں پیل کمیشن ابیض کی یہودی ا کے لیے ہو گیا کر دیا

پڑھیں:

کراچی: ڈکیتی مزاحمت پر شہری ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زخمی

اسٹیل ٹاؤن گلشن حدید میں ڈاکوؤں نے مزاحمت پر شہری کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا۔

کراچی کے علاقے ڈسٹرکٹ ملیر میں ڈاکوؤں نے پیر کی شب مزاحمت پر ایک شخص کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا جبکہ دوپہر میں اسی تھانے کی حدود گلشن حدید میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے کار شوروم کا مالک جاں بحق ہوا تھا اور اس قتل کے خلاف اہلخانہ اور علاقہ مکینوں نے پانچ گھنٹے تک نیشنل ہائی وے کے دونوں ٹریک پر دھرنا دیکر ٹریفک معطل کر دیا تھا۔

اسٹیل ٹاؤن کے علاقے گلشن حدید فیز 3 فلٹر پلانٹ کے قریب موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے لوٹ مار کی دوسری واردات کے دوران مزاحمت پر 33 سالہ اویس احمد کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا اور موقع سے فرار ہوگئے۔

مضروب کو ٹانگ پر گولی لگی تھی جسے چھیپا کے رضا کاروں نے فوری طبی امداد کے لیے جناح اسپتال پہنچایا۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر ( حصہ پنجم )
  • کراچی: ڈکیتی مزاحمت پر شہری ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زخمی
  • ملک میں نفرت انگیز مہمات؛ یہودی، یہودیوں کو ماریں گے، اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے خبردار کردیا
  • برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب رضوی کیلیے عالمی ایوارڈ
  • ایم کیوایم کا گلگت بلتستان انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ
  • بھگوڑا یوٹیوبر برطانوی عدالت کے کٹہرے میں
  • ہمارے حکمران اور سیاستدان اُمت مسلمہ سے نہیں ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 
  • ہم نے فلسطین کی حمایت کو زندہ رکھنا ہے، ہمارے حکمران اور سیاستدان اُمت مسلمہ سے نہیں ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 
  • غزہ میں مزاحمت کاروں نے اسرائیلی ٹینک کو اڑا دیا، ایک افسر ہلاک، کئی زخمی
  • جب مزاحمت بھی مشکوک ٹھہرے، فلسطین، ایران فوبیا اور امت کی بے حسی