سستی بجلی ، ویلڈن شہباز شریف
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز بجلی سستی کرنے کا اعلان کیا۔ گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمت 7.41 روپے فی یونٹ سستی کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں 7.69روپے فی یونٹ کمی کی بھی خوش خبری سنائی گئی۔ گرمی کا موسم شروع ہوا ہی چاہتا ہے اس میں بجلی کی کھپت میں اضافہ ہونا لازمی امر ہے۔ لوگوں نے پنکھے اور اے سی چلانے ہیں۔ اس لیے بجلی کے بلوں میں یہ ریلیف بہت ضروری تھا۔
میری پہلے دن سے یہ رائے تھی اور میں نے لکھا بھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا سیاسی حریف بجلی کا بل ہے۔ مہنگی بجلی کے بلوں نے مسلم لیگ (ن) کے ووٹر کو بھی پارٹی سے ناراض کیا ہے۔
اس لیے میری رائے یہی رہی ہے کہ بجلی کے بل ہی اس حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن بن چکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) 2013کے مقام ہی پر کھڑی ہے۔ تب لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی جاتی تو سیاست نہیں بچتی تھی۔ آج بجلی سستی نہ کی جاتی تو سیاست نہیں بچتی تھی۔ لیکن تب مسلم لیگ (ن) نے تین سال میں دس دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ختم کر کے دکھا دی تھی۔ آج حکومت کے پہلے سال کے خاتمہ پر ہی شہباز شریف نے بجلی سستی کر دی ہے۔
بجلی کی قیمت میں بلا شبہ ریکارڈ کمی کی گئی ہے اس کے اچھے نتائج بھی ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین پر بجلی کی قیمت میں اتنی بڑی کمی یقینا بجلی بن کر ہی گری ہے۔ ان کے لیے یہ کمی سیاسی دھچکے سے کم نہیں۔ ایک سال پہلے جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مرکزی حکومت سنبھالی تھی تو سب کہتے تھے کہ مرکزی حکومت نہ لی جائے۔ مرکزی حکومت سنبھالنا ایک سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔ معیشت کی حالت ایسی نہیں کہ حکومت لی جائے۔
سخت فیصلے کرنے ہونگے۔ آئی ایم ایف نے جان کھا لینی ہے۔ بجلی مہنگی کرنی ہوگی۔ سب کچھ مزید مہنگا ہو جائے گا۔ اس لیے حکومت سے دور رہا جائے لیکن کیا کسی کو اندازہ تھا کہ ایک سال بعد شہباز شریف بجلی کی قیمت میں تاریخ کی سب سے بڑی کمی کر دیں گے۔ آج ایسا لگ رہا ہے کہ سب کے سیاسی تجزئیے اور معاشی ماہرین کے معاشی تجزئیے سب غلط ہو گئے ہیں۔ حالات بدل رہے ہیں اور کسی کو اس کا اندازہ بھی نہیں تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ پیپلزپارٹی نے بھی وزارتیں اسی لیے نہیں لی تھیں کہ انھیں بھی یہی خیال تھا کہ مرکزی حکومت سے دور رہنا ہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ پی ڈی ایم کی پہلی حکومت کی طرح اس حکومت میں بھی معاشی مسائل زیادہ رہیں گے۔ مہنگائی بڑھے گی، ڈالر اوپر جائے گا، بجلی مہنگی ہوگی، جس کا سیاسی نقصان ہوگا۔
وہ اس سیاسی نقصان سے بچنے اور بعد میں ن لیگ کو ہونے والے سیاسی نقصان کا فائدہ اٹھانے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے بلاشبہ شہبازشریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے ووٹ تو دیا تھا۔ لیکن ان کا سیاسی تجزیہ یہی تھا کہ یہ حکومت زیادہ دن نہیں چل سکے گی۔ معاشی بدحالی کے بوجھ تلے دب کر خود بخود گر جائے گی۔ اس کو گرانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اس لیے ابھی اس حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
لیکن شہباز شریف نے صرف سیاسی حریفوں کے ہی نہیں بلکہ سیاسی حلیفوں کے سیاسی تجزئیے بھی غلط ثابت کر دیے ہیں۔ ایک سال قبل کیے جانے والے تمام سیاسی تجزئیے غلط ثابت ہو گئے ۔ ایک سال قبل جو ملک ڈیفالٹ کر رہا تھا اس کی معیشت سنبھل گئی ہے۔ سیاسی مخالفین حیران ہیں وہ ملک کو سری لنکا اور ڈھاکا بنانے کی تیاری کر رہے تھے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ گیا ہے۔ لوگ بجلی کا یونٹ سو روپے کا ہونے کی پیش گوئی کر رہے تھے اور یہاں قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ سب تدبیریں الٹی ہوگئی ہیں۔ اس لیے سب حیران ہیں۔
صرف بجلی ہی سستی نہیں ہوئی بلکہ مارچ میں مہنگائی بھی ساٹھ سال کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی ہے۔ مہنگائی کی شرح کے کم ہونے کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔ کہاں مہنگائی بڑھنے کے ریکارڈ بن رہے تھے کہاں مہنگائی کم ہونے کا ساٹھ سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ اس کی بھی کسی کو توقع نہیں تھی۔ سب کی رائے تھی کہ مہنگائی بڑھنے کا ریکارڈ بنے گا۔ سب کچھ مہنگا ہو جائے گا۔ لیکن یہاں تو مہنگائی کم ہونے کا ریکارڈ بننا شروع ہو گیا ہے۔ یہ ریکارڈ بجلی سستی ہونے سے پہلے بن گیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ بجلی مزید سستی کی جائے گی۔ یہ بھی اچھی خبر ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ ابھی تو پاکستانی آئی پی پی کے ساتھ معاملات از سر نو طے کیے گئے ہیں۔ ابھی چائنیز آئی پی پی کے ساتھ معاملات طے کیے جانے ہیں۔ چائنیز کا یہی موقف تھا کہ پہلے آپ پاکستانی آئی پی پی کے ساتھ از سر نو معاملات طے کر لیں پھر ہم کریں گے۔ اس لیے امید یہی ہے کہ اب چائنیز آئی پی پی کے ساتھ جب معاملات طے ہونگے تو بجلی مزید سستی ہو جائے گی۔ اس ماحول میں جب دنیا میں ہر طرف مہنگائی کا شور ہے۔ ایسے میں پاکستان میں بجلی سستی ہونا ایک بڑا واقع ہے۔
ایک طرف ٹرمپ کے ٹیرف کی وجہ سے پوری دنیا کی عالمی مالیاتی منڈیاں کریش کر گئی ہیں۔ عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاروں کے اربوں نہیں کھربوں ڈالر ڈوب گئے ہیں۔ امریکی اسٹاک مارکیٹ میں بھی بھونچال ہے۔ عالمی کساد بازاری کی بات کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی اسٹاک مارکیٹ نہ صرف مستحکم رہی ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ جب مئی میں بجلی کے بل آئیں گے تو لوگوں کو بل کم ہونے کا احساس ہوگا۔ اس سے پہلے وزیراعظم سولر صارفین کے ریٹ ریورس کرنے کی سمری کو بھی مسترد کر چکے ہیں۔ جس سے ہزاروں نہیں لاکھوں سولر صارفین کو تحفظ ملا ہے۔
صنعتی صارفین کے لیے گھر یلو صارفین سے کچھ زیادہ بجلی سستی کی گئی ہے۔ ایک رائے ہے کہ اس وقت ہمارے برآمد کنندگان کو مہنگی بجلی کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ اب ان کے لیے مقابلہ کرنا آسان ہوگا۔
ٹیرف کا اثر بھی سستی بجلی کم کرے گی۔ اس لیے برآمد کنندگان کے گلے شکوے بھی کافی حد تک کم ہوئے ہیں۔صنعتی سستی بجلی صنعتوں کا پہیہ چلانے میں مدد کرے گی۔ صنعتوں کا پہیہ چلے گا تو روزگار کے مواقع پیدا ہونگے اور معیشت کا پہیہ بھی چلے گا۔ اس لیے سستی بجلی معاشی استحکام کا نیا باب کھولے گی اور پاکستان معاشی طور پر مزید مستحکم ہوگا۔ اس لیے ہم ویلڈن شہباز شریف ہی کہہ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا ئی پی پی کے ساتھ بجلی کی قیمت میں شہباز شریف نے مرکزی حکومت کم ہونے کا بجلی کے بل کا ریکارڈ سستی بجلی بجلی سستی صارفین کے مسلم لیگ ایک سال رہے تھے گیا ہے گئی ہے تھا کہ اس لیے کے لیے
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری تقسیم
اسلام ٹائمز: فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔ خصوصی رپورٹ:
غاصب صیہونی ریاست کی فضائیہ کی پائلٹوں سے لے کر موساد کے افسران تک، جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج کی لہر اسرائیل میں اندرونی تقسیم اور دراڑ کی گہرائی کیسے ظاہر کرتی ہے؟ اس بارے میں عبرانی حلقوں کا خیال ہے کہ جنگ کے خلاف مظاہرے اور پٹیشن، جو فضائیہ کے اندر سے شروع کی گئی اور موساد جیسے حساس اداروں کے افسران میں شامل ہوتے گئے، اب نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے خلاف اس احتجاج میں سول ملٹری اور سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہو چکی ہے۔ یہ احتجاج اسرائیلی معاشرے میں دراڑ کی گہرائی، اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ صیہونی آبادکاروں کے درمیان بے چینی اور اضطراب کو ظاہر کرنیوالا ایک بے مثال منظرنامہ ہے، جس میں صیہونی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج حکومتی، فوجی اور سیکورٹی اداروں سے نکل کر ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، مصنفین وغیرہ سمیت اعلیٰ طبقات تک پہنچ گیا ہے، یہ سب غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کی یہ لہر 9 اپریل کو شروع ہوئی تھی۔ جب 1200 سے زائد پائلٹوں اور فضائیہ کے ریزرو دستوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے خلاف احتجاج کے طور پر خدمت جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔
معاشرے اور ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا:
ملٹری برانچز کے مختلف افسروں اور اہلکاروں نے بھی پٹیشن پر دستخط کیے، جن میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ بین گوریون، تل ابیب اور ایریل یونیورسٹیوں کے سابق ڈینز سمیت 1800 سے زائد افراد نے 11 اپریل کو ایک احتجاجی پٹیشن جاری کی۔ ان مظاہروں کی لہر برف کے گولے کی مانند تھی جس نے پورے صہیونی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور فضائیہ کے یونٹوں کے علاوہ بحریہ کے افسران، بکتر بند فوج، ریزرو فورسز اور ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ، انٹرنل سیکیورٹی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہم جنگ کو مسترد کرتے ہیں اور قیدیوں کی فوری واپسی چاہتے ہیں۔
لیکن ان مظاہروں میں صہیونی حکام کو سب سے بڑا جھٹکا یہ لگا کہ موساد کے اندر سے مختلف عناصر بھی جنگ کے خلاف مظاہروں کی تازہ لہر کا حصہ بن گئے۔ جہاں اسپائی سروس کے 250 سابق ملازمین بشمول اس کے تین سابق سربراہان نے ایک احتجاجی پٹیشن تیار کی اور جنگ کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ایلیٹ یونٹس جیسے شیلڈگ، شیطت 13، اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور سابق کمشنر بھی ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ ان پٹیشنز پر دستخط کرنیوالوں میں سب سے نمایاں موساد کے سابق سربراہان جیسے ڈینی یتوم، ابراہم حلوی اور تمیر پارڈو شامل ہیں۔
اسرائیلی محکمہ صحت کے 3000 سے زائد ملازمین، نوبل انعام یافتہ شخصیات 1700 فنکاروں، اور سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ، اس سلسلے میں احتجاجی پٹیشنز پر دستخط کر چکی ہیں، جس میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر، 3500 ماہرین تعلیم، 3000 تعلیمی شعبے کے ملازمین، اور 1000 طلباء ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ یہ پٹیشنز اب محض علامتی بیانات نہیں ہیں، بلکہ صیہونی حکومت کے لئے کئی دہائیوں سے اس کی بقا کا سب سے اہم عنصر سمجھنے والی اشرافیہ میں عدم اطمینان اور تقسیم اور دراڑ کی عکاسی ہے۔
قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کا اختتام اور جنگ کے خاتمے کے لیے واضح سیاسی نقطہ نظر کی عدم موجودگی صیہونی اشرافیہ کی احتجاجی مظاہروں کی لہر میں شمولیت اسرائیلی معاشرے میں گہری تقسیم کی علامت بن گئی ہے جو اسے اندر سے درہم برہم کر سکتی ہے۔ ان احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں کی اہمیت کے حوالے سے عبرانی حلقوں کا کہنا ہے یہ رجحان اسرائیل مقتدرہ، اشرافیہ اور اداروں میں اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے اور گہری ہوتی سماجی تقسیم کے علاوہ سیاسی پولرائزیشن میں اضافے کا سبب ہے، فوجی اور سیکورٹی یونٹس کے ارکان کی جانب سے احتجاجی پٹیشنز پر دستخط اسرائیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اندر سے اتنے بڑے پیمانے پر داخلی مظاہرے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
سیاسی اور عسکری اداروں میں عدم اعتماد کا بحران:
یہ تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگ کے خلاف احتجاجی پٹیشنز اسرائیل کی سیاسی قیادت اور عسکری کمانڈروں پر اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہیں اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے خصوصاً اشرافیہ کا کابینہ اور فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسرائیلی فوج اور سول اداروں کی طرف سے جاری احتجاجی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کی بے نتیجہ جنگ کے بعد سیاسی ذرائع سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ پر بڑھتے ہوئے احتجاج اور اندرونی دباؤ کی مثال ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ریزرو جنرل اسرائیل زیو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں سول نافرمانی تو نہیں، لیکن یہ اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی کابینہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔
اس صہیونی جنرل، جو اس سے قبل انفنٹری اور پیرا ٹروپرز ڈویژن کے کمانڈر، غزہ ڈویژن کے کمانڈر اور اسرائیلی فوج کے آپریشنل شعبے کے سربراہ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، نے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کی سائیٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاکید کی ہے کہ جن لوگوں نے احتجاجی درخواستوں پر دستخط کیے ہیں وہ فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اشرافیہ کے اہم لوگ ہیں، یہ اس جنگ میں اسرائیل کی سیاسی قیادت کی ناکامی پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پٹیشنز پر دستخط کرنے والے نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے، ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے اسرائیلیوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں، اور وہ غزہ سے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اس کا مطلب ہوگا واضح قومی اور فوجی اہداف کے بغیر جنگ جاری رہے گی، جس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے۔
صیہونی فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔