سستی بجلی، معیشت کا استحکام
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عوام کو بڑا ریلیف دیتے ہوئے گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں 7.41روپے اور صنعتی صارفین کے لیے 7.69 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کردیا۔
انھوں نے کہا کہ آیندہ پانچ سال میں گردشی قرضوں کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا، بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی، سالہا سال سے بند پڑے زنگ آلود سرکاری پاور پلانٹس فروخت کرنا ہوں گے، ڈسکوز کو پرائیویٹائز یا پروفیشنلائزکیاجائے گا، سالانہ 600 ارب روپے کی بجلی چوری کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔
بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی کا اعلان ملکی معیشت کے لیے بڑی خوش خبری اور ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ حکومت نے بجلی سستی کر کے بڑا ریلیف دیا ہے جس سے لوگوں کی قوت خرید بہتر ہوگی اور تجارتی سرگرمیاں بھی بحال ہوں گی۔ بلاشبہ اس اعلان کے بعد عوام میں خوشی کی لہر دوڑگئی ہے، ریلیف پیکیج گھریلو صارفین اور انڈسٹری دونوں کے لیے خوش آیند ہے، اس اقدام سے برآمدات میں بہتری آئے گی، عوام کو امید ہے کہ حکومت مزید اقدامات اٹھائے گی تاکہ توانائی کے شعبے میں استحکام اور افورڈ ایبل قیمتوں کا نظام قائم ہو سکے۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی سے نہ صرف عوام کو فائدہ ہوگا، بلکہ یہ ملک کی معیشت پر بھی مثبت اثرات ڈالے گی۔
درحقیقت ماضی میں آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے، بجلی چوری، ٹرانسمیشن لائنز کے نقصانات اور دیگر چیلنجوں کی وجہ سے عوام کو ریلیف فراہم نہیں کیا جاسکا۔ حکومت کی جانب سے آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی اور بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی جانب مثبت پیشرفت سے بجلی صارفین کو سکھ کا سانس میسر آیا ہے۔
ماضی میں آئی پی پیز سے یک طرفہ شرائط پر کیے گئے معاہدوں سے صارفین پر ناروا بوجھ پڑا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ مہنگی بجلی کے سبب گھریلو و کمرشل صارفین سراپا احتجاج اور صنعتیں بندش کا شکار ہوگئیں۔ گو اب بھی بجلی کے نرخ پاکستان میں ہمسایہ ممالک کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں جس کے سبب نہ صرف عام گھریلو صارف کے لیے بلوں کی ادائیگی دشوار ہو چکی ہے بلکہ صنعتوں کی پیداواری لاگت بھی بے پناہ بڑھ چکی ہے اور بڑی حد تک اسی بنا پر گزشتہ دو‘ تین برس سے معیشت سخت بحران سے دوچار ہے۔
عالمی بینک کی حالیہ ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ پاور سیکٹر ڈسٹری بیوشن اصلاحات رپورٹ میں بھی پاکستان کے پاور سیکٹر کو اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے، نیز پاور جنریشن میں جدید ٹیکنالوجی کا فقدان، بجلی کی ترسیل اور تقسیم کی ناقص منصوبہ بندی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اب یہ امر تسلی بخش ہے کہ حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں کمی کی تدابیر کی جا رہی ہیں اور بجلی پیدا کرنے والے خود مختار کارخانوں یعنی آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں پر نظر ثانی ہو رہی ہے۔
یہ امر ہر کسی پر عیاں ہے کہ ان معاہدوں کی بعض شقیں قومی مفادات سے صریح متصادم ہیں، جن میں سے ایک بجلی گھروں کو پوری پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگی ہے، خواہ طلب میں کمی کی وجہ سے ایک یونٹ بجلی بھی خرید نہ کی گئی ہو۔ مزید برآں ملکی کرنسی کے بجائے امریکی ڈالروں میں ادائیگی کی وجہ سے زرِمبادلہ کے ذخائر پر غیر ضروری دباؤ پڑتا ہے۔ دوسری جانب بجلی کی پیداوار اور خرید کے لیے ملٹی پلیئر مارکیٹ کے قیام سے اس شعبے میں اجارہ داری کا خاتمہ ہونے اور موثر و شفاف مسابقتی مارکیٹ قائم ہونے کی امید ہے۔
مسابقتی نظام بجلی کے نرخوں میں کمی لانے کا بھی باعث بنے گا، البتہ اس نظام سے حقیقی فائدہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب تقسیم کار کمپنیوں کے متبادل سپلائر اپنا جدید ترسیلی نظام بھی قائم کریں۔ دوسری جانب بجلی کے نرخ کم کرنے کے لیے حکومت کو بجلی بلوں میں شامل متعدد ٹیکسوں پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ایک عام گھریلو صارف سے حکومت کم و بیش 24 فیصد ٹیکس وصول کرتی ہے۔ کمرشل بلوں میں 37 فیصد اور صنعتی بلوں میں 27 فیصد ٹیکسز شامل ہیں۔ سیلز ٹیکس (18 فیصد)، ایڈوانس انکم ٹیکس، جو صنعتی، گھریلو اور کمرشل صارفین کے لیے بالترتیب پانچ فیصد،7.
چند ماہ قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اجلاس میں سیکریٹری پاور نے انکشاف کیا تھا کہ بجلی بلوں پر عائد ٹیکسوں کی مد میں حکومت 860 ارب روپے سالانہ حاصل کر رہی ہے، اگر حکومت کی جانب سے یہ ٹیکس کم کیے جائیں تو بجلی کی قیمت میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔ ایک طرف بجلی مہنگی ترین ہے تو اس پر طرہ یہ کہ اس کے ساتھ جانے اور انجانے ٹیکسوں کی حد بجلی کی قیمت سے بھی زیادہ ہو چکی ہے جس کا اثر پورے ملک کی معاشی گراؤٹ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ 2007 سے 2020 کے دوران توانائی کے شعبے نے ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچایا اس کا تخمینہ 82 ارب ڈالر لگایا گیا جس سے فی کس قومی پیداوار میں 23 فیصد کمی ہوئی۔
بیروزگاری بڑھنے سے غربت میں اضافہ ہوا۔ گویا جتنے قرضے پاکستان پر چڑھے تقریباً اتنا ہی نقصان توانائی کے شعبے نے پاکستان کو صرف 13 سالوں میں پہنچایا۔ دراصل توانائی کا بحران ملک میں ترقی کی راہ کو مسدود کر چکا ہے۔ پیداواری لاگت اتنی بڑھ چکی کہ برآمد کنندگان کے لیے اب ممکن نہیں کہ وہ عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں، پیداواری لاگت کا ایک اثر جہاں صنعتی شعبے پر پڑا وہیں زرعی شعبے میں بھی قیمتیں اتنی بڑھ گئیں کہ فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ ملک کی ایک بڑی آبادی کو، جو خط غربت سے نیچے جا چکی ہے، دو وقت کا کھانا میسر نہیں رہا۔ کسان کے پاس کبھی بیج خریدنے کے پیسے نہیں تو کبھی کھاد۔
توانائی کے متبادل ذرایع کی جانب منتقلی سے روزگار کے زیادہ مواقع، مقامی صنعتوں کی حوصلہ افزائی، فضائی معیار میں بہتری اور انرجی سیکیورٹی کو تقویت کی امید کی جاتی ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس طرح کے سماجی اور معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے؟ انٹرنیشنل رینیو ایبل انرجی ایجنسی(IRENA) کے اندازوں کے مطابق، قابل تجدید توانائی کا حصہ دوگنا کرنے سے جی ڈی پی میں 0.2 سے 4 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے اور فوسل فیول ٹیکنالوجی کے مقابلے میں دوگنا ملازمتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ایندھن کی درآمدات مجموعی درآمدات پر غالب ہیں، بچت کے مواقع زیادہ ہیں۔
توانائی کے متبادل ذرایع کے فروغ سے یوٹیلیٹی بلوں میں کمی سے لے کر صحت عامہ کی بہتری تک فوائد حاصل ہوں گے۔قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی کو اپنانے کا براہ راست تعلق گھریلو بجٹ اور اخراجات کے طریقوں میں تبدیلیاں لانے سے ہے۔ شمسی اور توانائی کے دیگر صاف ذرایع کے استعمال سے بجلی کے بلوں میں کمی آئی ہے۔ پاکستان کے کچھ دور افتادہ دیہات میں، جہاں بجلی تک رسائی کبھی ایک خواب تھا، قابل تجدید توانائی روشنی اور امید لا رہی ہے۔
بعض ماہرین توانائی کا یہ بھی خیال ہے کہ ملک میں بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو کیپیسیٹی پیمنٹس کا مسئلہ ضرورت سے زیادہ اچھالا گیا۔ صرف کپیسٹی پیمنٹ ہی کے باعث ملک میں بجلی مہنگی اور اس شعبے میں حکومت کو سرکلر ڈیبٹ (گردشی قرضوں) کا سامنا نہیں بلکہ اس مسئلے کے دیگر عوامل بھی ہیں جن پر جان بوجھ کر نظر نہیں ڈالی جاتی۔ اس کے ساتھ بجلی کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں ہونے والے نقصانات، چوری اور سسٹم کی ناکاریاں، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے دیگر نقصانات وغیرہ کو بھی بجلی کے صارف سے وصول کیا جا رہا ہے۔
توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کا کُل حجم اب ملک کے دفاعی بجٹ سے بڑھ چکا ہے۔ ماضی میں روپے کی قدر میں بڑی کمی،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ زیادہ ہونے کے باعث ادائیگیوں پر بھی بہت بڑا اور منفی اثر پڑا ہے۔ جب کہ حکومت کی جانب سے بجلی گھروں کو چلانے کے لیے میرٹ آرڈر کی بہت کم پیروی کی جا رہی ہے کیوں کہ زیادہ موثر پلانٹس ملک کے جنوبی حصے میں ہیں۔ شمالی علاقوں میں ان پلانٹس کی اکثریت ہے جو ناکارہ ہیں۔ مزید یہ کہ پیک آور میں بجلی کی ڈیمانڈ، موسمی حالات اور دیگر عوامل بھی بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر کسی کو اس صورتِ حال کا ذمے دار ٹھہرایا جائے تو یہ وہ حکومتیں اور پالیسی ساز لوگ ہیں جنھوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ان پالیسیوں کو تبدیل کرنے یا ان میں ضروری ترامیم کرنے کی کوشش تک نہیں کی جب کہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں سرمایہ کاری کیے بغیر جنریشن کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے رہے۔بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی کے حوالے سے ایک مستقل پالیسی کی ضرورت ہے، اگر صنعتی اور پیداواری شعبے کو مہمیز لگانی ہے تو توانائی کے نرخوں کو کم ترین سطح پر برقرار رکھنا ناگزیر ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بجلی کی قیمتوں میں حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے ڈسٹری بیوشن ا ئی پی پیز بلوں میں بھی بجلی سے بجلی بجلی کے ملک میں عوام کو کے لیے رہی ہے چکی ہے
پڑھیں:
ترقی کا واحد راستہ، محنت اور معاشی استحکام
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کرے گا، عسکری و سیاسی قیادت نے مل کر کام کیا اور ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت دوبارہ پٹری پر آئی، افواج کی قربانیوں کا مذاق اڑائیں گے تو کون پاکستان کی عزت کرے گا؟ ملکی ترقی اور استحکام کے لیے اتحاد و یکجہتی ناگزیر ہے، علمائے کرام کو تفرقہ بازی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔
اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا، جب کہ چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں، بھارت کا وتیرا ہے، ہم دشمن کو چھپ کے نہیں للکار کر مارتے ہیں، انھوں نے ان خیالات کا اظہار قومی علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب امریکا کے ایگزم بینک نے پاکستان کے لیے ایک ارب 25 کروڑ ڈالر کی نئی مالی معاونت کی منظوری دے دی ہے‘ یہ سرمایہ کاری بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں اہم معدنیات کی کانکنی میں مزید پیشرفت کے لیے ہے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی گفتگو نے ایک ایسے وقت میں قومی بیانیے کو مہمیز دی ہے جب ملک ایک جانب معاشی مشکلات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کی مسلسل لہر سیاسی و معاشرتی استحکام کے لیے چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ ملک جادو ٹونے سے نہیں بلکہ محنت سے ترقی کرے گا، محض ایک جملہ نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے میں رائج اس سوچ کی نفی ہے جو مسائل کے حقیقی اسباب کو سمجھنے کے بجائے غیر حقیقی سہولت پسندی اور ماورائی حل تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی قوم جب تک اجتماعی کوشش، منظم پالیسی، مربوط حکمت عملی اور طویل المدت منصوبہ بندی کے ساتھ محنت کو اپنا شعار نہیں بناتی وہ ترقی کے راستے پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وزیراعظم کی اس بات کا اصل تناظر بھی یہی ہے کہ ملک کی معیشت، سیاست، اداروں اور سماجی ڈھانچے کو کسی شارٹ کٹ، کسی کرشمے یا کسی چھپے ہاتھ سے نہیں بلکہ انتھک کام اور اصولوں کے ساتھ جمایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے عسکری و سیاسی قیادت کی مشترکہ کوششوں کا ذکر بھی کیا جن کے نتیجے میں ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لایا گیا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی معیشت ایک ایسے بحران کا شکار ہو چکی تھی جس سے نکلنے کے لیے غیر معمولی اقدامات ضروری تھے۔
چاہے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ مشکل مذاکرات ہوں، دوست ممالک سے مالی معاونت حاصل کرنا ہو، محصولات میں اضافہ ہو، کفایت شعاری کے اقدامات ہوں یا پھر برآمدات و مقامی صنعت کو سہارا دینے کی مساعی۔ یہ تمام اقدامات اسی صورت میں نتیجہ خیز ہوتے ہیں جب سیاسی اور عسکری سطح پر ہم آہنگی موجود ہو۔ ملکوں کی تاریخ گواہ ہے کہ داخلی خلفشار، بے یقینی اور ادارہ جاتی کشمکش معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کی بات ایک مثبت پیغام بھی رکھتی ہے کہ قیادت نے مل کر ملک کو بحران سے نکالا، تاہم یہ شروعات ہیں، منزل ابھی بہت دور ہے۔
وزیراعظم نے افواج پاکستان کی قربانیوں کا مذاق اڑانے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ اگر ہم اپنی فوج کی عزت نہیں کریں گے تو دنیا پاکستان کا احترام کیسے کرے گی؟ یہ سوال بنیادی نوعیت رکھتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں متاثرین اور ہزاروں شہداء دے چکا ہے۔ یہ وہ جنگ تھی جو پاکستان نے کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنی بقا کے لیے لڑی۔ دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ فوج ہو یا پولیس، شہری آبادی ہو یا کمزور اضلاع، کسی میں تمیز نہیں کی گئی۔
ایسے میں ان قربانیوں کو متنازع بنانے یا ان کا مذاق اڑانے کا طرزِ عمل نہ صرف قومی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ دشمن کو تقویت بھی دیتا ہے۔ حساس قومی اداروں اور ان کی قربانیوں کو تضحیک کا نشانہ بنانا کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوتا۔
دہشت گردی اور معاشی ترقی کے باہمی تعلق پر وزیراعظم کی گفتگو بالکل درست سمت کی نشاندہی کرتی ہے۔ دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک ملک جس میں روزانہ دھماکے ہوں، شہری خوف و ہراس میں مبتلا ہوں، پولیس اور سیکیورٹی فورسز نشانہ بن رہی ہوں، صوبے عدم استحکام سے دوچار ہوں اور وہاں سرمایہ کار تحفظ محسوس کریں، صنعتکار اعتماد کے ساتھ سرمایہ لگائیں یا عالمی کمپنیوں کے وفود وہاں آکر بیٹھنے میں آسودگی پائیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے واقعات اس حقیقت کا دردناک چہرہ ہیں کہ دہشت گردی صرف انسانی جانوں کا نقصان نہیں کرتی بلکہ پورے ترقیاتی عمل کو یرغمال بنا دیتی ہے۔
ایک طرف عوام کی زندگی عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہے اور دوسری طرف حکومت پر سیکیورٹی اخراجات بڑھ جاتے ہیں، صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر خرچ ہونے والا پیسہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے دوٹوک انداز میں کہا کہ دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔
علمائے کرام کو فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل بھی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر قائم تفریق نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو توڑتی ہیں بلکہ دہشت گرد عناصر کے لیے غذا بھی فراہم کرتی ہیں۔ اگر علماء کرام منبر و محراب کے ذریعے امن، وحدت، باہمی احترام اور رواداری کا درس دیں، فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن بنائیں اور مذہبی جھگڑوں کا دروازہ بند کریں تو ملک کی داخلی استحکام کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ دور ہو سکتی ہے۔
اسی منظر نامے میں آرمی چیف سید عاصم منیر کے خطاب نے قومی بیانیے کو ایک اور زاویہ فراہم کیا ہے۔ ان کا کہنا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت کا وطیرہ ہے، اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ خطے میں دشمن قوتیں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے بارہا اس بات کے ثبوت پیش کیے ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کو بیرونی معاونت فراہم کی جاتی ہے، انھیں عسکری، مالی اور تکنیکی مدد دی جاتی ہے تاکہ وہ پاکستان کے اندر افراتفری اور خوف کی فضا قائم رکھ سکیں۔ آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ہم دشمن کو للکار کر مارتے ہیں، پاکستان کی عسکری قوت کے اس اعتماد اور صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جو طویل جنگی تجربے اور مسلسل آپریشنز کے نتیجے میں پروان چڑھی ہے۔
پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کو شکست دی بلکہ اپنے علاقوں کو کلیئر کیا، لاکھوں شہریوں کو واپس ان کے گھروں میں آباد کیا اور دنیا کو دکھایا کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو دہشت گردی ناقابل شکست نہیں رہتی۔دوسری جانب امریکی ایگزم بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ارب 25 کروڑ ڈالر کی نئی مالی معاونت کی منظوری ملک میں معدنیات کے شعبے کے لیے امید کی نئی کرن ہے۔ ریکوڈک منصوبہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے معاشی امکانات کا دروازہ ہے۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں امریکا میں چھ ہزار اور بلوچستان میں تقریباً ساڑھے سات ہزار روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ روزگار کے مواقعے میں اضافہ خوشحالی اور معاشی سرگرمی کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔
امریکی سرمایہ کاری کا پاکستان کے لیے ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ اس وقت دنیا خصوصی طور پر معدنیات، توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کر رہی ہے۔ اگر پاکستان شفاف سیاسی ماحول، مضبوط اداروں، مستحکم سیکیورٹی صورتحال اور معیاری قانونی فریم ورک فراہم کرے تو بیرونی سرمایہ کار یقیناً ملک کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ریکوڈک کا منصوبہ ایک ایسی کامیاب مثال بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی بیرونی سرمایہ کاری اپنی نئی راہوں پر چل نکلے گی۔
اگر ہم نے محنت کو اپنا شعار نہ بنایا، اگر ہم نے سیکیورٹی کو مضبوط نہ کیا، اگر ہم نے فرقہ واریت کو جڑ سے نہ اکھاڑا ، اگر ہم نے قومی اداروں کی عزت نہ کی، اگر ہم نے بیرونی سرمایہ کاری کو جذب کرنے کے لیے مربوط پالیسی نہ بنائی تو پھر کوئی جادو، کوئی دعا، کوئی شارٹ کٹ اور کوئی خفیہ طاقت ہمیں ترقی نہیں دلا سکتی۔
وزیراعظم شہباز شریف کا پیغام، آرمی چیف کا عزم، امریکی سرمایہ کاری کی نوید، یہ سب پاکستان کے لیے ایک نئی امید کی علامت بن سکتے ہیں۔ لیکن اس امید کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے اجتماعی طور پر بطور قوم اپنی ذمے داریوں کا احساس۔ یہ پاکستان ہم سب کا ہے، اس کی ترقی ہم سب کی ترقی ہے، اس کا استحکام ہم سب کا استحکام ہے۔ آج وقت ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں، اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈالیں، ملک میں امن و اتحاد کو فروغ دیں اور دنیا کو دکھائیں کہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے جو ہر چیلنج کا مقابلہ کر سکتی ہے۔