Islam Times:
2025-04-22@14:16:35 GMT

کیا ایران پر حملہ ہوگا؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

کیا ایران پر حملہ ہوگا؟

اسلام ٹائمز: امریکہ اسوقت اپنی تاریخ کے سب سے کمزور دور میں جی رہا ہے اور بہت سے عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ملک تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس تناظر میں وہ ایران سے جنگ جیسے ایک بڑے بحران اور چیلنج کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پس امریکہ کی یہ شیخیاں اور گیدڑ بھبکیاں ایران میں موجود انکے اندرونی ایجنٹوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ہیں، لہذا ایران کو اندرونی فتنہ پروری سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ان دنوں سوشل میڈیا اور الیکٹرک میڈیا میں درج ذیل خبریں بکثرت دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
1۔ ایک مخصوص امریکی جنگی جہاز کی خلیج فارس کی طرف روانگی۔
2۔ قطر میں امریکی بی ٹو بمبار طیاروں کی تعیناتی۔
3۔ خطے میں امریکی اڈوں کو الرٹ کر دیا گیا۔
4۔ ایران پر جلد بمباری کی جائے گی۔
5۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیلی بمباری میں ایران کے دفاعی مراکز مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔
6۔ مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی کارگو پروازوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
7۔ امریکا نے ایران کو انتباہی پیغام بھیج دیا ہے۔
8۔ روس نے امریکا کو ایران پر حملے سے خبردار کیا ہے اور۔۔۔۔۔۔

ان خبروں کی روشنی میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ
ا۔ غیر ملکی میڈیا اس طرح کی خبروں کو کیوں اہمیت دیتا ہے۔؟
ب۔ کیا امریکہ کے پاس ایران پر حملہ کرنے کے لیے ضروری شرائط ہیں۔؟
ج۔ کیا ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی رکاوٹیں ہیں۔؟
د۔ امریکہ کا مقابلہ کرنے میں ایران کی ممکنہ کمزوری کیا ہے۔؟
ان سوالوں کے جواب کے لیے چند نکات قابلِ غور ہیں۔
 1۔ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی جب بھی کسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے قریب پہنچتے ہیں تو وہ مخصوص میڈیا آپریشنز کے ذریعے نفسیاتی دباؤ پیدا کرتے ہیں، تاکہ مذاکرات کو اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھا سکیں۔ حالانکہ وہ فوجی تصادم کے خواہاں نہیں ہوتے ہیں۔

2۔ ایران کے ناسازگار اقتصادی اور معاشی حالات کو بہانہ بنا کر بے اطمینانی پیدا کرنا  اور اندرونی انتشار پھیلانے کے منصوبے تیار کرنا، جیسے انہوں نے ماضی کی ناکام بغاوتوں میں باہر کے دباؤ کا سہارا لیا تھا۔ پس فوجی حملے کے پروپیگنڈے کا مقصد حزب اختلاف کو مضبوط کرنا اور ایران میں موجود انقلاب مخالف قوتوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔
3۔ جو اعلان کیا گیا ہے، اس کے مطابق امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے اور اس وقت شدید اقتصادی دباؤ میں ہے۔ امریکی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے، لہذا ٹرمپ اور اس کی کاروباری سرشت کے لیے دو ٹریلین ڈالر کی اس جنگ کو برداشت کرنا بالکل بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ فوربس میگزین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایران کے ساتھ فوجی تنازعے کی لاگت پہلے تین مہینوں میں 60 بلین سے 2 ٹریلین ڈالر کے درمیان ہوسکتی ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک ایسی معیشت کے لیے بہت بھاری ہیں جسے داخلی چیلنجوں کا سامنا ہو۔

4۔ کسی بھی امریکی حملے کی صورت میں ایران کم سے کم لاگت اور فوجی سازوسامان کے ساتھ دنیا کی اہم اقتصادی شاہراہ آبنائے ہرمز کو بند کرسکتا ہے اور اس کا مطلب تیل کی قیمتوں میں 200 ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوگا، جسے دنیا اور امریکا برداشت نہیں کرسکیں گے۔
5۔ عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کا ناکام تجربہ امریکیوں کے لیے ایک اور رکاوٹ ہے اور یہ ناکامی یقیناً ان کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی ہے۔
6۔ ایران پر فوجی حملے کی علاقائی ممالک اور یہاں تک کہ یورپی ممالک کی طرف سے وسیع پیمانے پر مخالفت امریکہ کو اس اقدام کے بارے میں فطری طور پر بہت  زیادہ تذبذب کا شکار کرے گی۔

7۔ امریکیوں کے لیے اس وقت اصل ترجیح ایران پر حملہ نہیں ہے۔ امریکیوں کو چین، تائیوان، روس اور یوکرین جیسے اہم مسائل نیز یورپ اور کینیڈا کے ساتھ نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس صورت حال میں امریکہ کے لئے ایک نیا محاذ کھولنا بہت مہنگا پڑے گا۔
8۔ ایران کی فوجی طاقت اور ممکنہ انتقامی کارروائیاں ایک اور نکتہ ہے، جو امریکیوں کے لیے ایران پر حملہ کرنے کے فیصلہ کو مشکل بنا دیتا ہے۔ ایران کے میزائل اور ڈرون طاقت کے علاوہ، دنیا بھر میں مزاحمتی گروہ ایران پر امریکی حملے کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ مختصراً امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے کمزور دور میں جی رہا ہے اور بہت سے عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ملک تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس تناظر میں  وہ ایران سے جنگ جیسے ایک بڑے بحران اور چیلنج کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پس امریکہ کی یہ شیخیاں اور گیدڑ بھبکیاں ایران میں موجود ان کے اندرونی ایجنٹوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہیں، لہذا ایران کو اندرونی فتنہ پروری سے ہوشیار رہنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایران پر حملہ کے مطابق ایران کے کا سامنا کے ساتھ نہیں ہے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

ایران کا جوہری پروگرام(3)

اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا

مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"

اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔

امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"

اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے

اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔  
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔

اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"

ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔

مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟

متعلقہ مضامین

  • امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت
  • غزہ جنگ کے خلاف احتجاج پر امریکہ میں قید خلیل، نومولود بیٹے کو نہ دیکھ سکے
  • افریقہ میں امریکہ کا غیر ضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غور
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
  • امریکی وزیر دفاع نے یمن حملے سے متعلق حساس منصوبہ غیر متعلقہ افراد سے  شیئر کیا، میڈیا رپورٹس
  • صنعا پر امریکی فضائی حملہ، 12 افراد جاں بحق، 30 زخمی
  • یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
  • بھارت پر امریکی شہری کے قتل کیلئے انعام مقرر کرنے کا الزام، سکھ تنظیموں کی امریکہ سے مداخلت کی اپیل
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ