سورج کی روشنی کو بجلی میں تبدیل کرنے والی منفرد کھڑکیاں تیار
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
سائنسدانوں نے ایسی ٹرانسپیرنٹ ونڈو یا کھڑکی تیار کی ہے جو سورج کی روشنی کو بجلی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے ایک نئی کھڑکی تیار کی ہے جو سورج کی روشنی کو اس وقت بجلی میں تبدیل کر دیتی ہے جب روشنی اس کے آر پار ہوتی ہے۔یہ بنیادی طور پر ٹرانسپیرنٹ سولر سویل ٹیکنالوجی پر مبنی کھڑکی ہے جو بلند و بالا عمارات اور دفاتر کو ہی ماحول دوست پاور پلانٹس میں تبدیل کر دے گی۔
سٹی سولر نامی پراجیکٹ کے تحت اس کھڑکی کی تیاری پر کام کیا گیا جس کا مقصد 2050 تک تمام نئی عمارات کو ماحول دوست توانائی سے لیس کرنا ہے۔اس سے قبل بھی اس طرح کے ٹرانسپیرنٹ سولر سیلز پر مبنی کھڑکیوں پر کام ہوا ہے مگر وہ سورج کی روشی کی توانائی کو جذب کرکے اتنی بجلی پیدا کرنے میں ناکام رہی جو کسی عمارت کی ضرورت کے لیے کافی ہو۔
سائنسدانوں نے بتایا کہ بڑے شیشوں پر مشتمل کھڑکیوں کا استعمال موجودہ عہد کی دفتری عمارات میں عام ہوتا ہے اور اب انہیں توانائی کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا جاسکے گا جس کے لیے اضافی جگہ یا عمارت کی ساخت میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سیلز کے لیے جن میٹریلز کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ بہت سستے ہیں اور انہیں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں تبدیل سورج کی کے لیے
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں 'یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔
البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔
سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔
ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔
اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔
یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔