قاضی فائز عیسی پر حملے کے الزام میں پاکستانیوں کے منسوخ کردہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
قاضی فائز عیسی پر حملے کے الزام میں پاکستانیوں کے منسوخ کردہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال WhatsAppFacebookTwitter 0 4 April, 2025 سب نیوز
لندن(آئی پی ایس )سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پر لندن میں حملے کے الزام میں پاکستانیوں کے منسوخ کردہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کردیے گئے۔گزشتہ برس اکتوبر میں سابق چیف جسٹس کی لندن میں مڈل ٹیمپل آمد پراحتجاج کے بعد ان کی کارکو نشانہ بنایا گیا تھا۔ پاکستانی وزارت داخلہ نے ملوث افراد کی شناخت کرکے کارروائی کا حکم دیا تھا اور پاکستان نے برطانوی حکومت کو خط لکھ کر ان افراد کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔وزیر داخلہ محسن نقوی نے ان افراد کی شہریت منسوخ کرنے کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان بھی کیا تھا تاہم اب یہ کارروائی روک دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق قاضی فائز عیسی پر لندن میں حملے کے الزام میں پاکستانیوں کے منسوخ کردہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کردیے۔ذرائع نے بتایاکہ حکومت پاکستان نے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے افراد کی شناختی دستاویز منسوخ کرنے کی کارروائی روک دی۔خیال رہے کہ لندن میں قاضی فائز عیسی کی مڈل ٹیمپل سے روانگی پر گاڑی روکنے اور دروازہ کھولنے کی کوشش کی گئی تھی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: قاضی فائز عیسی پر افراد کی
پڑھیں:
’ایک ہزار افغان علما کی منظور کردہ قرارداد خوش آئند مگر پاکستان تحریری ضمانت چاہتا ہے‘
گزشتہ سے پیوستہ روز افغانستان کے ایک ہزار علما نے مشترکہ طور پر ایک قرار دار منظور کی جس میں کہا گیا کہ افغان سرزمین کو دوسرے ملکوں میں دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور بغیر امیر کی اجازت کے کہیں بھی جنگ کرنا ممنوع ہے۔
افغانستان میں ہوئی اِس ڈیولپمنٹ کو پاکستان میں خوش آئند قرار دیا گیا اور افغانستان کی جانب سے امن کی طرف ایک قدم کے طور پر لیا گیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس تشویش کا اظہار بھی کیا گیا کہ آیا افغان طالبان حکومت اپنے وعدوں پر عملدرآمد کر پائے گی۔
مزید پڑھیں: پاک افغان تعلقات میں نرمی؟ افغان علما کا بیان ’حوصلہ افزا مگر ناکافی‘
پاکستان نے پیش رفت کو خوش آئند قرار دیاترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے 11 دسمبر کو صحافیوں کو ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ اگر افغان طالبان حکومت کی قیادت یا افغان معاشرے کے بعض طبقات اس بات کی سنگینی کو سمجھ رہے ہیں کہ اُن کی سرزمین نہ صرف ٹی ٹی پی جیسے گروہوں بلکہ اُن کے اپنے شہریوں کی جانب سے بھی پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے، تو یہ احساس ایک مثبت پیش رفت ہے، اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ افغان طالبان حکومت نے ماضی میں کیے گئے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے برادر ممالک کی ثالثی سے ہونے والی بات چیت کے دوران پاکستان نے افغانستان جانب سے تحریری یقین دہانیوں پر زور دیا تھا۔
’ہم اس دستاویز کو دیکھیں گے، اس کا جائزہ لیں گے اور اس کا انتظار کریں گے، لیکن یقیناً اس معاملے پر ہمیں افغان طالبان حکومت کی قیادت سے تحریری یقین دہانی درکار ہوگی۔‘
’2023 میں دیے گئے فتوے پر عملدرآمد نہیں ہوا‘افغان طالبان کی جانب سے ایسا ہی ایک فتوٰی 2023 میں جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جو بھی افغانستان سے باہر جہاد کے لیے جائے گا وہ جہاد شمار ہو گا نہ مارا جانے والا شہید۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں دہشتگردی میں مزید اِضافہ دیکھنے میں آیا۔
’افغان علما کا فتوٰی تین لحاظ سے اہم ہے‘اس فتوے میں سب سے اہم چیز اس کی ٹائمنگ ہے۔ اکتوبر میں پاکستان اور افغانستان سرحدی کشیدگی کا شکار ہو چکے ہیں اور تب سے اب تک دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی گزرگاہیں بند ہیں، جن کی وجہ سے تجارتی تعطّل ہے، اور سرحد کے ساتھ بسنے والی آبادیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کے مذاکرات ناکام ہوئے لیکن اِسلامی اور علاقائی ممالک اس کشیدگی میں کمی کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسے وقت میں اس طرح کے فتوے کا منظر عام پر آنا بظاہر ایک خوش کن پیشرفت ہے۔
دوسری چیز افغان علما کے اجتماع میں افغانستان کے چیف جسٹس ملا عبدالحکیم حقانی کی شمولیت ہے جو افغان پالیسی کے اہم رُکن سمجھے جاتے ہیں۔
تیسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد ایک ایسے ہی طالبان اجتماع نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے نہیں کریں گے اور اس پر عملدرآمد کیا گیا تھا۔
اس فتوے پر تنقیدی نقطہ نظر کیا ہے؟اس فتوے پر بعض اہم شخصیات کا تنقیدی نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ مُبہم اور غیر واضح فتوٰی ہے۔ ایک ہزار افغان علما کا حالیہ فتوٰی بظاہر دہشتگردی کے خلاف مذہبی اتفاقِ رائے کا تاثر دیتا ہے، لیکن عملی اور سیاسی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس فیصلے کی روشنی میں دہشتگردی کو روکے جانے کے امکانات کم ہیں۔
اس وقت افغانستان میں طالبان حکومت نہ مکمل ریاستی طاقت رکھتی ہے کہ ایسے فتوے کو مسلح گروہوں پر نافذ کر سکے اور نہ ہی ایسے گروہ خصوصاً ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کسی ایسے فتوے کو قبول کرتے ہیں جو اُن کے نظریے یا حکمتِ عملی کے خلاف ہو۔
اگر فتوٰی واضح، دو ٹوک انداز میں خودکش حملوں، ریاست کے خلاف بغاوت اور عام شہریوں پر تشدد کو حرام قرار دیتا ہے اور طالبان اسے مؤثر ریاستی دباؤ اور عملی اقدامات کے ساتھ نافذ کرتے ہیں تو یہ محدود حد تک شدت پسندی کو کم کر سکتا ہے، لیکن اگر متن مبہم ہو یا اسے صرف سیاسی جواز کے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ شدت پسند گروہوں کے لیے مزید پروپیگنڈا فراہم کر کے تشدد کے بیانیے کو مضبوط بھی کر سکتا ہے۔
لہٰذا مجموعی طور پر موجودہ حالات میں یہ فتوٰی زیادہ تر ایک علامتی قدم دکھائی دیتا ہے جو دہشتگردی کے رجحان میں کسی بنیادی کمی کی ضمانت نہیں دیتا۔
افغان سیاست کو دیکھنے والے صحافی کیا کہتے ہیں؟معروف صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ ممکن ہے افغان علما کا اِجلاس پاکستان کے خدشات کو دور کرنے کے لیے بُلایا گیا ہو، کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی، ممکن ہے علما کی رائے معلوم کرنے کے لیے اِجلاس بُلایا گیا ہو لیکن ایسا ہی ایک فتوٰی 2023 میں بھی جاری کیا گیا تھا لیکن اُس کے بعد بھی پاکستان میں دہشتگردی میں اِضافہ ہوا۔
انہوں نے کہاہ اس فتوے کی ٹائمنگ اہم ہے جیسا کہ دو مہینے سے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدیں اور رابطے بند ہیں۔
ایک اور صحافی حسن خان کے مطابق پاکستان نے اس صورتحال کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن پاکستان کو تحریری ضمانتیں درکار ہیں۔
افغانستان کے حوالے سے معروف صحافی اور تجزیہ نگار ہارون رشید نے وی نیوز کو اپنے حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ افغانستان میں مذہبی طبقے کا اثر پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، اور اس سطح کے اجلاس کو اہم پیشرفت سمجھا جا رہا ہے۔
تاہم ہارون رشید سمجھتے ہیں کہ یہ اجلاس دراصل اندرونی مشاورت تھا، جس کی قراردادیں منظرِ عام پر نہیں آنا تھیں لیکن خبر لیک ہونے کے بعد اسے سیاسی رنگ مل گیا ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان دہشتگردی کا سرپرست، ایسے عناصر کا زمین کے آخری کونے تک پیچھا کریں گے، خواجہ آصف
ان کا کہنا ہے کہ علما کی حمایت طالبان حکومت کے لیے دباؤ ضرور پیدا کرتی ہے، مگر حتمی فیصلے طالبان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ہی کرنا ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان دونوں اس وقت معاشی دباؤ کا شکار ہیں، اور سرحدی کشیدگی سے نہ صرف تجارت بلکہ خطے کا مجموعی استحکام متاثر ہو رہا ہے۔ ’اسٹیٹس کو زیادہ دیر چل نہیں سکتا، تجارت، روزگار اور علاقائی رابطے پر اس کے اثرات ہیں، اس لیے فریقین پر دباؤ تھا کہ کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغان سرزمین افغان طالبان افغانستان پاکستان دہشتگردی علما کا فتویٰ وی نیوز