ترکی میں جعلی خزانوں کے نقشے بیچنے والا فراڈیا گروہ گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
ترک پولیس نے حال ہی میں دھوکہ دہی کرنے والوں کے ایک نیٹ ورک کو گرفتار کیا ہے جو لوگوں کو خزانے کے جعلی نقشے بیچ کر لوگوں کو لوٹتا تھا۔
ترکی کے 9 صوبوں میں کیے گئے ایک پیچیدہ آپریشن کے حصے کے طور پر، درجنوں فنکاروں نے جعلی خزانے کے نقشوں کا استعمال کرتے ہوئے متاثرین کے ساتھ 50 ملین ترک لیرا (13 لاکھ ڈالر) سے زیادہ کا فراڈ کیا۔
مبینہ طور پر مشتبہ افراد ملک کے دیہی علاقوں میں گھومتے تھے جو راتوں رات امیر ہونے کے خواہاں دیہاتیوں کو کاغذ کے مصنوعی طور پر بنے پرانے ٹکڑے دکھاتے تھے جس پر ہاتھ سے خزانے کے نقشے بنے ہوتے تھے۔
نقشے بہت تفصیلی تھے اور ان میں قریبی مقامات کو نمایاں کیا گیا تھا جن سے متاثرین واقف تھے۔ چونکہ فراڈیے یہ ظاہر کرتے تھے کہ انہیں خزانے تک پہنچنے کے لیے علاقے میں گشت کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے لہٰذا وہ نقشے متاثرین کو بھاری فیسوں کے بدلے بیچ ڈالتے تھے۔
بد قسمتی سے دھوکہ بازوں کے لیے ان کی اسکیم اتنی کامیاب تھی کہ کئی متاثرین نے پولیس سے رابطہ کیا۔ اسی طرح کے دیگر واقعات کی اطلاع پا کر حکام نے تحقیقات کیں اور بالآخر ٹونسیلی کے قصبے میں گروپ کے رہنماؤں کا سراغ لگایا۔
ایک مربوط آپریشن کے دوران درجنوں فراڈیوں کو ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیا اور کافی شواہد قبضے میں لیے گئے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
افغان مہاجرین کے جعلی شناختی کارڈز کی تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع
ذرائع نے بتایا کہ پشاور کے مختلف یونین کونسلوں کے سیکریٹریوں کو ریکارڈ سمیت تحقیقات کے لیے طلب کیا گیا ہے اور بعض سرکاری ملازمین کے حوالے سے بھی تحقیقات ہو رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ افغان مہاجرین کے جعلی پاکستانی کارڈز کی تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے پشاور کی 15 یونین کونسل کی سیکریٹریز سے ریکارڈ طلب کر لیا گیا ہے اور اپنے خاندان میں شامل کرنے والے پاکستانیوں کی نشان دہی بھی کر دی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق خیبر بازار، گنج بازار، نمک منڈی، جناح پارک روڈ، دیر کالونی، زرگر آباد، پیپل منڈی، حیات آباد، افغان کالونی سمیت مختلف علاقوں میں رہائش پذیر اور بازاروں میں کاروبار کرنے والے مہاجرین کی گرفتاریوں کے لیے ان کی فہرستوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پشاور کے مختلف یونین کونسلوں کے سیکریٹریوں کو ریکارڈ سمیت تحقیقات کے لیے طلب کیا گیا ہے اور بعض سرکاری ملازمین کے حوالے سے بھی تحقیقات ہو رہی ہے۔