لاہور قلندرز کے بیٹر فخر زمان نے پاکستان سپر لیگ میں اپنی ٹیم کی کامیابی کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا بنیادی ہدف اس بار پی ایس ایل کا ٹائٹل جیتنا ہے اور اس کے لیے ہر ممکن محنت کریں گے لاہور میں گفتگو کے دوران انہوں نے اپنی فٹنس اور پریکٹس کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ انجری سے صحتیاب ہونے کے بعد پہلا دن مشکل تھا ڈیڑھ ماہ بعد جب دوبارہ بیٹنگ شروع کی تو عجیب سا محسوس ہو رہا تھا ایسا لگا جیسے میں بغیر پیڈز کے بیٹنگ کر رہا ہوں لیکن آہستہ آہستہ ردہم میں واپس آ رہا ہوں انہوں نے مزید کہا کہ پی ایس ایل کے پہلے میچ میں ابھی وقت باقی ہے اور میں اپنی فارم بحال کرنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہوں جب پریکٹس کے آخر میں بیٹنگ کر رہا تھا تو محسوس ہوا کہ گیند بیٹ پر ٹھیک سے آ رہی ہے امید ہے کہ اگلے تین چار دنوں میں مکمل ردہم میں آ جاؤں گا اور اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکوں گا فخر زمان نے کہا کہ میرا ذاتی ہدف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ میں بہترین بیٹر بنوں اور اپنی ٹیم کو فائنل جتوانے میں اہم کردار ادا کروں اس بار بھی اسی سوچ کے ساتھ کھیلوں گا اور کوشش ہو گی کہ زیادہ سے زیادہ میچز جتوا کر ٹیم کو فائنل تک پہنچاؤں لاہور قلندرز ایک مضبوط ٹیم ہے اور ہم سب کا عزم ہے کہ اس بار پی ایس ایل کی ٹرافی جیت کر اپنے مداحوں کو خوش کریں انہوں نے پی ایس ایل میں بیٹنگ اور بولنگ کے معیار کو شاندار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ لیگ دنیا کی بہترین لیگز میں شمار ہوتی ہے جہاں ہر میچ میں سخت مقابلہ دیکھنے کو ملتا ہے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہوتا ہے کہ وہ تجربہ کار کرکٹرز کے ساتھ کھیل کر اپنی صلاحیتوں کو نکھاریں میں خود بھی کوشش کرتا ہوں کہ اپنی ٹیم کے نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ دوسری فرنچائزز کے نوجوانوں کو بھی اپنے تجربے سے کچھ سکھا سکوں انہوں نے مزید کہا کہ ہماری ٹیم کا فوکس ہر میچ پر ہوگا اور ہم ہر میچ کو فائنل سمجھ کر کھیلیں گے تاکہ کوئی بھی کمزوری باقی نہ رہے پی ایس ایل میں ہر ٹیم مضبوط ہے اور ہر میچ ایک چیلنج ہوتا ہے لیکن ہمارا ہدف واضح ہے اور ہم سب اس کے لیے پرعزم ہیں تمام کھلاڑی اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں گے تاکہ اس بار لاہور قلندرز کی ٹیم چیمپئن بن کر ابھرے

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: لاہور قلندرز پی ایس ایل انہوں نے ہے اور کے لیے کہا کہ ہر میچ

پڑھیں:

بات ہے رسوائی کی

یہ خبر حیران کن اور توجہ طلب تھی کہ جب برطانیہ میں ہسٹری کی ایک ٹیچر پچاس سالہ وینیسا براؤن کو چھبیس مارچ کو دو آئی پیڈز چوری کرنے کے الزام میں جیل میں ساڑھے سات گھنٹے گزارنے پڑے، یہ آئی پیڈز کسی اور کے نہیں بلکہ ان کی اپنی بیٹیوں کے تھے جو وینیسا نے صرف اس لیے چھپائے تھے کہ ان کی بیٹیاں اپنے اسکول کے کام پر توجہ دیں۔

یہ ترغیب دلانے کا انداز تو روایتی ماؤں والا ہی تھا لیکن ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن گیا، صرف یہی نہیں بلکہ انھیں پابند بھی کر دیا گیا ہے کہ جب تک یہ مقدمہ خارج نہیں ہوجاتا وہ اس تفتیش کے حوالے سے نہ صرف اپنی بیٹیوں بلکہ کسی سے بھی بات نہیں کرسکتیں۔

ایک استاد کو جو دوسرے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، اپنے ہی بچوں کی پڑھائی کی خاطر اس اقدام کی وجہ سے جس کوفت اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا، اس تجربے کو انھوں نے ناقابل بیان تباہی اور صدمہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ ان کی تمام تر توجیہات بے اثر ثابت ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ آئی پیڈز ان کے بچوں کے تھے اور وہ انھیں ضبط کرنے کی حق دار تھیں۔ پولیس نے مذکورہ آئی پیڈز ان کی والدہ کے گھر سے برآمد کیے تھے۔ایک ماں خاص کر جب وہ استاد کے رتبے پر بھی فائز ہو، دہری ذمے داریوں کی حامل ہوتی ہے۔

اسے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے علاوہ اس کے اردگرد کے ماحول کو بھی دیکھنا پرکھنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس کی اولاد کے لیے موافق ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے بچوں کی راہ سے کانٹے چننے کی اہل ہوتی ہے جس کے لیے انھیں پولیس کی مدد اور معاونت کی ضرورت نہیں، لیکن بدقسمتی سے مغربی ممالک میں حقوق کی علم برداری کے بڑے جھنڈے گڑھے ہوتے ہیں، جو ایک ماں سے اپنی اولاد کے حقوق تک چھین لیتے ہیں۔

ایک ماں کو اپنی اولاد کے لیے کیا تحفظات ہوتے ہیں، وہ پڑھے لکھے، صحت مند اور تندرست رہے،کھیل کود بھی کرے اور اپنی دوسری ذمے داریاں بھی نبھائے، اس تمام کے لیے اس کا ذہن صحت مند سوچ رکھنے کا حامل پہلی ترجیح ہوتا ہے۔

ماں بری سوچ سے اپنی اولاد کو الگ رکھنا چاہتی ہے۔آج کل بچوں کے ہاتھ میں بالشت بھر موبائل ساری حشر سامانی لیے ہر دم موجود اور تازہ دم تیار رہتا ہے۔ وہ اپنے والدین اور بڑوں کی نظر سے چھپ کر برا اور غلیظ مواد بھی دیکھ سکتے ہیں۔ فحش مواد دیکھنے سے ذہن کس طرح اثرانداز ہوتا ہے، کینیڈا کی لاوال یونیورسٹی کی ایک محقق ریچل اینی بارر نے ایک تحقیق کی جس میں انھوں نے بتایا۔

’’دنیا بھر میں کروڑوں افراد انٹرنیٹ کو مثبت کی بجائے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، خصوصاً فحش مواد یا پورن سائٹس پر وقت گزارتے ہیں، یہ عادت دماغ کے اہم ترین حصے کو چاٹ لیتی ہے اور کند ذہن یا تعلق بچگانہ ذہنیت کا مالک بنا سکتی ہے ۔‘‘

دراصل غیر اخلاقی مواد کو دیکھنا عادت بنا لینے والے افراد کے دماغی حصے پری فرنٹل کورٹیکس کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس اہم حصے قوت ارادی جسمانی حرکات اور اخلاقیات کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایک تحقیق تو فحش مواد اور فلموں کے دیکھنے والوں کے متعلق کہتی ہے کہ ان کے دماغ سے منسلک ’’ریوارڈ سسٹم‘‘ چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔

جرمنی کی اس سائنسی تحقیق کی مصنفہ زیمونے کیون کا کہنا ہے ’’باقاعدگی سے فحش فلمیں دیکھنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کم یا زیادہ آپ کا دماغی ریوارڈ سسٹم ضایع ہوتا جاتا ہے۔‘‘دماغ میں موجود عصبی ڈھانچوں کے مجموعے کو ریوارڈ سسٹم کہتے ہیں اور عصبی ڈھانچے خوشی فراہم کرتے ہوئے دماغی رویے کو کنٹرول کرتے ہیں۔

اس تحقیق کے لیے چونسٹھ لوگوں کا انتخاب کیا گیا جن کی عمریں اکیس سے چونسٹھ سال کے درمیان تھیں۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ جو لوگ فحش فلمیں دیکھتے ہیں ان کے دماغ کا ’’اسٹریم‘‘ نامی حصہ چھوٹا ہو جاتا ہے، ریوارڈ سسٹم کا یہ اہم جز جنسی تحریک کا اہم کردار ہے۔فحش مواد دیکھنے والوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ریسرچ کی ایک طویل فہرست ہے اس لیے کہ آج کی دنیا کا یہ اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے، بچے اور بڑے، خواتین اور مرد فحش مواد کو دیکھنے کے باعث منفی رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں زیادتی، تشدد، مار پیٹ، خود غرضی اور قتل بھی شامل ہیں۔

ایسے افراد سرد مہری اور ظلم و جبر کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں باالفاظ دیگر وہ عام انسانوں کے برخلاف زیادہ تلخ، کرخت اور بدمزاج ہو جاتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو کسی بھی حد تک پورا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہم اس قسم کے لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں آسانی سے پہچان بھی سکتے ہیں کیونکہ ان کے رویے اور جذبات عام انسانوں کے مقابلے میں مختلف ہوجاتے ہیں۔

برقی تاروں سے پوری دنیا میں نجانے کیا کچھ دیکھا جا رہا ہے جو دیکھنے والوں کا قیمتی وقت تیزی سے برباد کرتا چلا جاتا ہے اب چاہے وہ طالب علم ہو یا گھریلو خواتین اور عام لوگ۔ یہ ایک ایسا سحر ہے جو اپنے اندر سب کچھ اتارتا چلا جا رہا ہے لیکن ماں باپ اور اساتذہ کے حوالے سے ایک بہت بڑا امتحان وہ غلیظ مواد ہے جو معاشرے کے نہ صرف معماروں کو بلکہ معمر شہریوں کی دماغی استعداد پر اثرانداز ہوتا ہے۔

ہمارے اپنے ملک میں اسلام کے حوالے سے روایتیں تو سخت ہیں لیکن درحقیقت اب جو کچھ کھلے عام اس انٹرنیٹ کے حوالے سے چل رہا ہے شرم انگیز ہے۔ کیا سب کچھ اسکرین پر لگا دینا ہماری اقدار کے ساتھ انصاف کرتا ہے؟ محبت،ایک اور لفظ کے اضافے سے جوکچھ مختصر ترین چند منٹوں میں دیکھا تو عقل ماتم کرنے لگی کہ یہ کمائی کا خوب اچھا طریقہ ہے۔

نجانے کون لوگ اس کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر و لکھاری تھے، پر نامعقولیت میں اول تھے۔ مرکزی کردار درمیانی عمر کے کردار ادا کرتے آنکھوں میں وحشت بھرے اداکار تھے۔ لوگ تنقید بھی کر رہے تھے اور تعریف بھی۔ ہمارے معاشرے میں، تو شاید یہ کہنا فضول ہی ہوگا کہ برطانیہ میں ہسٹری کی استاد کو اپنی ہی بچیوں کا آئی پیڈ چھپانے کی سزا جیل میں کیوں بھگتنی پڑی؟ اس لیے کہ تاریخ کی استاد جانتی تھی کہ ماضی میں عیش و عشرت اور فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے قومیں کیسے برباد و خوار ہوئیں۔

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل 10 میں کراچی کنگز کی تیسری کامیابی، پشاور زلمی کو 2 وکٹوں سے شکست دیدی
  • علامہ اقبال ؒکا پیغام اُمید، اتحاد اور خودی کا ہے، محسن نقوی
  • شاہین شاہ آفریدی کو گولڈ پلیٹڈ آئی فون کا تحفہ، ویڈیو وائرل
  • وزیراعظم نے بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور کرلیا، FBR پر تجربہ کامیاب، تنخواہیں کامیابی سے مشروط
  • ڈار کا دورہ کابل، سیکیورٹی بنیادوں پر کامیابی کیلیے طویل سفر باقی
  • بات ہے رسوائی کی
  • ٹرانس جینڈر کپ: سکھر نے خیرپور کو شکست دیکر ٹائٹل جیت لیا
  • اوورسیز پاکستانی کنونشن کی کامیابی ریاست سے وابستگی کا مظہر ہے ، فیصل کریم کنڈی
  • خرم شیر زمان کا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کی گئی ترمیم واپس لینے کا مطالبہ
  • پیپلز پارٹی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کی گئی ترمیم واپس لے: خرم شیر زمان