امریکی محصولات سے پاکستان کے چیلنجز میں اضافہ ہوگا:برآمد کنندگان
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )امریکا کی جانب سے پاکستان پر غیر متوقع طور پر عائد کردہ 29 فیصد جوابی محصولات کے بارے میں برآمد کنندگان کا خیال ہے کہ اس کے اثرات نقصان دہ ہوں گے، اگرچہ یہ خاص طور پر شدید نہیں ہوں گے کیونکہ حریفوں کو بھی امریکا میں اپنی برآمدات پر اسی طرح کے زیادہ ٹیکسز کا سامنا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو متعدد محصولات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکی معیشت کو ’دھوکا دہی‘ سے روکنے کے لئے ڈیزائن کئے گئے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستانی برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ محصولات سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا کیونکہ بھارت، چین، ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے حریفوں کو بھی امریکی مارکیٹ میں زیادہ محصولات کا سامنا کرنا پڑے گا۔یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) کے صدر اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق سربراہ زبیر طفیل نے کہا کہ پاکستان سے برآمدات پر امریکی ٹیرف کے منفی اثرات ناگزیر ہیں لیکن زیادہ وسیع نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ’امریکی محصولات کا بہت کم منفی اثر پڑے گا کیونکہ زیادہ تر حریفوں کو برآمدات پر مساوی، زیادہ یا کم محصولات کا سامنا کرنا پڑے گا‘، انہیں یقین تھا کہ برآمد کنندگان کو امریکی منڈیوں میں مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
تاہم دوسروں کو امید تھی کہ حکومت اس کا حل تلاش کر سکتی ہے کیونکہ امریکا سے درآمدات بہت کم ہیں۔
مالی سال 2024 میں پاکستان نے امریکا سے 1.
برآمد کنندہ اور تاجر رہنما جاوید بلوانی نے کہا کہ ’ہم تجویز کرتے ہیں کہ حکومت امریکی درآمدات کو زیرو ریٹڈ کرے، اس سے پاکستانی برآمدات کو خود بخود فائدہ ہوگا کیونکہ محصولات باہمی بنیاد پر عائد کئے گئے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ چونکہ مالی سال 2024 میں 53.7 ارب ڈالر کی مجموعی درآمدات کے مقابلے میں حجم بہت چھوٹا ہے لہٰذا اگر امریکا سے درآمدات کو زیرو ریٹڈ ڈیوٹی دی جائے تو پاکستان کو زیادہ لاگت نہیں آئے گی۔
تاہم امریکا پاکستان کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے، چین سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے تاہم مالی سال 2024 میں 13.5 ارب ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں بیجنگ کو برآمدات 2.7 ارب ڈالر تک محدود تھیں، جو پاکستان کے لئے 10.8 ارب ڈالر کے وسیع تجارتی خلا کو ظاہر کرتی ہیں۔
پاک-کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے سربراہ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ 29 فیصد ڈیوٹی شے بہ شے مختلف ہوگی جبکہ پاکستان کو چین اور ویتنام پر عائد کردہ زیادہ محصولات سے فائدہ مل سکتا ہے‘۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان امریکا سے درآمدات پر عائد ڈیوٹی ختم کرتا ہے تو ملک کے عوام کو فائدہ ہوگا کیونکہ پاکستان بنیادی طور پر کپاس، سویابین، دالیں اور دیگر غذائی اشیا درآمد کرتا ہے۔
مشکلات اور مواقع:
امریکی صدر ٹرمپ نے بدھ کو اسلام آباد کی 58 فیصد محصولات کے جواب میں 29 فیصد محصولات عائد کئے تھے۔ تجزیہ کاروں کو اس صورتحال میں پاکستان کے لئے فوری رکاوٹیں اور دیرپا مواقع نظر آئے۔
لمز میں معاشیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی حسنین نے کہا کہ امریکا پاکستان کے اہم ترین تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے اور جس کے ساتھ ہمارا تجارتی سرپلس سب سے زیادہ ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی برآمدات کا تقریباً پانچواں حصہ امریکا کے لئے مقرر ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کو برآمدات پاکستان کی جی ڈی پی کے 1.5 فیصد سے بھی کم ہیں، انہوں نے کہا کہ ’اگر ان کو مکمل طور پر ختم کر دیا جاتا ہے (جس کا امکان بہت کم ہے) تو بھی اس کا اثر اس سے کئی گنا کم ہوگا جو ہم نے بدانتظامی کے ذریعے اپنی معیشت کو سکیڑ کر کیا ہے۔
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) میں ریسرچ کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ماہر معاشیات ساجد امین نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے فوری اثرات منفی ہوں گے کیونکہ امریکا ملک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کے ازالے کے لئے پاکستان کو زیادہ مسابقتی بننے کے لئے مقامی پیداوار پر سبسڈی دینا پڑ سکتی ہے، کہیں نہ کہیں، آپ کو امریکا کو بڑی برآمدات کی مقامی پیداواری لاگت کو کم کرنا پڑے گا‘۔انہوں نے کہا کہ ’چیلنج یہ ہوگا کہ آیا آئی ایم ایف ملک کو سبسڈی دینے کی اجازت دے گا یا نہیں، تاہم اس کے طویل مدتی اثرات غیر یقینی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے، آپ کو فوری منفی اثرات کو کامیابی کے ساتھ ختم کرنا ہوگا، دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کے محصولات بنگلہ دیش اور ویتنام سے کم ہیں جو ایک موقع ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے ہمیں جدت طراز ہونے کی ضرورت ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ درمیانی اور طویل مدتی اثرات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ملک محصولات کے فوری منفی اثرات کو کس طرح پورا کرسکتا ہے اور کس طرح پاکستان ان صنعتوں میں جدت طرازی کرسکتا ہے جہاں اسے ٹیرف سے متاثر ہونے والے دیگر ممالک پر برتری حاصل ہے۔
ٹیکسٹائل کے لئے مشکلات:انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی (آئی بی اے) کے پروفیسر اور ماہر معاشیات عادل ناخدا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ امریکا کو ملکی برآمدات ٹیکسٹائل تک محدود رہی ہیں، جسے مختصر مدت میں سب سے اہم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’امریکا، پاکستانی برآمدات کے لئے سب سے اہم سنگل کنٹری ڈیسٹینیشن مارکیٹ ہے‘ اور انہیں نہیں لگتا کہ باہمی محصولات غیر ملکی تعلقات پر اثر انداز ہوں گے کیونکہ امریکا نے تمام تجارتی شراکت داروں پر مختلف سطح کے محصولات عائد کئے ہیں۔ملک کی جانب سے ممکنہ اقدامات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان، یورپی یونین کو ٹیکسٹائل سے بنی مصنوعات کی برآمدات بڑھانے پر غور کر سکتا ہے۔
بزنس اور اکنامک جرنلسٹ خرم حسین کا کہنا ہے کہ عائد کئے گئے محصولات سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید لین دین پر مبنی ہو جائیں گے۔انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ملکی برآمدات کے لئے متبادل منڈیوں کو فروغ دینے میں کافی وقت لگے گا، اس وقت پاکستانی برآمد کنندگان کے لئے امریکا کا کوئی متبادل نہیں ہے، امریکا اور یورپی یونین سب سے اہم مارکیٹیں ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کی پنجاب حکومت کو ایک بار پھر واٹر ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ پاکستانی برآمد برآمد کنندگان تجارتی شراکت کرنا پڑے گا ارب ڈالر کی کہ پاکستان محصولات سے محصولات کا کی برآمدات پاکستان کے امریکا سے کہ امریکا کا سامنا مالی سال کا کہنا کے لئے ہوں گے
پڑھیں:
توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اردو ترجمان نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یہودی طلبا کو کلاسوں میں جانے سے روکنے والے بھی امریکا سے جائیں، جو طلبا توڑ پھوڑ اور احتجاج کرتے ہیں انہیں بھی واپس جانا ہوگا، قانون توڑ کر امریکا آنے والا سزا کا سامنا کرے گا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی محکمہ خارجہ کی اردو ترجمان مارگریٹ میکلاؤڈ کا کہنا ہے کہ جو پاکستانی طلبہ امریکا میں پڑھ رہے ہیں، ان کیلئے تشویش کی بات نہیں، اگر آپ قانون کے مطابق چلیں گے تو آپ کو امریکا میں مواقع ملیں گے۔ پاکستان میں تعینات چینی سفیرجیانگ زیڈونگ نے بھی آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو کی، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قومی خودمختاری اور ترقی میں مدد فراہم کریں گے۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اردو ترجمان مارگریٹ میکلاؤڈ نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی طور پر امریکا آنے والوں کو واپس بھیجنے کیلئے پاکستانی حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تاکہ ان کی دستاویزات کنفرم کریں۔ مارگریٹ میکلاؤڈ نے پاکستانی طلبہ کی ملک بدری کے حوالے سے سوال کے جواب میں بتایا کہ بہت زیادہ پاکستانی طالب علم جو امریکا میں پڑھ رہے ہیں، ان کے لیے کوئی تشویش کی بات نہیں ہے، وہ لوگ جو پڑھنے کے لیے امریکا آئے وہ پڑھ سکتے۔
امریکی اردو ترجمان نے کہا کہ پاکستان نژاد امریکی شہری ہمارے معاشرے، ہماری ثقافت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اگر آپ قانون کے مطابق چلیں گے تو آپ کو امریکا میں مواقع ملیں گے لیکن اگر امریکی قانون کی خلاف ورزی کریں تو اس کو سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مارگریٹ میکلاؤڈ نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے امریکی کانگریس میں پاکستان کا نام لیا اور شکریہ ادا کیا کیوں کہ پاکستانی حکومت نے ایک دہشت گرد کوہمارے حوالے کیا تاکہ وہ امریکا میں قانون کا سامنا کرے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان کاؤنٹر ٹیررازم تعاون بہت اہم ہے۔
انھوں نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ کے سینیئر بیورو آفیشل جو جنوبی ایشیا کے ذمے دار ہیں وہ پاکستان گئے تاکہ وہ امریکی اور پاکستان کے درمیان تجارت سے متعلق امور پر بات چیت کر سکیں، انھوں نے پاکستان میں منرل کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ کیوں کہ امریکا سمجھتا ہے کہ منرل کانفرنس امریکی اقتصادیات کے لیے کتنی ضروری ہے۔
پاکستان کے ساتھ بائیڈن والی پالیسی کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میرے خیال ہے کہ اس حوالے سے کسی تجزیہ کار سے پوچھ لیں، ترجمان کی حیثیت سے میں صرف ابھی کی انتظامیہ کے بارے میں بات کر سکتی ہوں، اسی انتظامیہ کی پاکستان سے متعلق پالیسی کے بارے میں بات کروں تو پاکستان کے ساتھ ہم تعاون جاری رکھنا چاہتے اور پاکستان کے ساتھ انصاف اور برابری کی بنیاد پرتجارت بڑھانا چاہتے ہیں۔
پچیس ہزار افغانیوں کو امریکا بلانے کے سوال کے جواب امریکی محکمہ خارجہ کی اردو ترجمان نے جواب دیا کہ اس کے بارے میں یا پالیسیوں کی تبدیلی کے بارے میں کوئی اعلان نہیں ہوا ابھی تک۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اردو ترجمان نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یہودی طلبا کو کلاسوں میں جانے سے روکنے والے بھی امریکا سے جائیں، جو طلبا توڑ پھوڑ اور احتجاج کرتے ہیں انہیں بھی واپس جانا ہوگا، قانون توڑ کر امریکا آنے والا سزا کا سامنا کرے گا۔