پشاور ہائیکورٹ: لاپتہ چار بھائیوں کے کیس کی فوری سماعت کی حکومتی درخواست مسترد
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
پشاور: پشاور ہائیکورٹ نے حیات آباد سے لاپتہ چار بھائیوں کے کیس کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی صوبائی حکومت کی درخواست مسترد کر دی۔
قائمقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے استفسار کیا کہ کیس میں ایسی کیا ایمرجنسی ہے کہ ایڈوکیٹ جنرل آفس نے جلد سماعت کے لیے درخواست دائر کی۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ کیس کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں تھی، اس لیے درخواست دائر کی گئی۔ تاہم، عدالت نے استفسار کیا کہ درخواست کس بنیاد پر دائر کی گئی ہے اور بعد ازاں اسے مسترد کر دیا۔
واضح رہے کہ حیات آباد پشاور سے گزشتہ سال چار بھائی لاپتہ ہوئے تھے جن کا کیس پشاور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔
صوبائی حکومت نے کیس کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی درخواست دائر کی تھی، تاہم عدالت نے اسے مسترد کر دیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جعلی و غیر ضروری کیسز کا خاتمہ؛ مقدمے کیلیے درخواست گزار کا عدالت آنا لازمی قرار
لاہور:ہائی کورٹ نے جعلی و غیر ضروری کیسز کے خاتمے کے لیے درخواست گزار کا مقدمات کے لیے عدالت آنا لازمی قرار دے دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں جعلی اور غیر ضروری مقدمات کی روک تھام کے لیے بڑا اور تاریخی فیصلہ سنا دیا۔
عدالتی فیصلے کے بعد اب مدعی یا درخواست گزار کو خود عدالت میں پیش ہونا لازم ہوگا اور بائیو میٹرک کے بغیر کوئی بھی کیس درج نہیں ہوسکے گا۔ فیصلے کے مطابق پنجاب بھر کی ماتحت عدالتوں میں اب کسی بھی قسم کا مقدمہ دائر کرنے کے لیے مدعی کی بائیو میٹرک تصدیق لازمی قرار دی گئی ہے۔
درخواست گزار کی تصویر بھی ویب کیمرے سے لی جائے گی تاکہ کسی اور کی جگہ مقدمہ دائر نہ ہو سکے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے یہ فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کی منظوری کے بعد کیا۔ اس سلسلے میں پنجاب کے تمام سیشن ججز کو باقاعدہ مراسلہ بھجوا دیا گیا ہے۔
مراسلے میں مقدمات دائر کرنے کے نئے ایس او پیز بھی جاری کر دیے گئے ہیں، جس کےمطابق اب درخواست گزار کو عدالت میں اسپیشل کاؤنٹر پر جا کر بائیو میٹرک تصدیق کروانا ہوگی۔
وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل عرفان صادق تارڑ نے چیف جسٹس کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے جعلی اور بے بنیاد کیسز کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس نظام سے عدالتی وقت اور وسائل کا ضیاع کم ہوگا اور انصاف کی فراہمی میں شفافیت بڑھے گی۔