Daily Ausaf:
2025-04-22@11:09:51 GMT

میرٹ کی پامالی اور ناکامی کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

ہر چیز کے انتخاب کا ایک معیار ہوتا ہے، کامیابی اور ناکامی کو ناپنے کا ایک پیمانہ مقرر ہوتا ہے، اور کوالٹی اور کارکردگی جانچنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ کسی بھی شعبہ زندگی میں بہتری اور ترقی کے لیے ان اصولوں کی پاسداری لازم ہے۔ یہ اصول دراصل وہ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کیے بغیر نہ انصاف ممکن ہے اور نہ ہی میرٹ کے معیارات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ وہ نظام، جس میں انصاف اور میرٹ نہ ہو، وہ کبھی بھی زوال اور ناکامی کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ایسے نظام میں امن، خوشحالی اور اتحاد ہمیشہ ناپید رہتے ہیں، چاہے وہاں وسائل اور مواقع بے شمار کیوں نہ ہوں، بے روزگاری، غربت اور بدانتظامی کا راج برقرار رہتا ہے۔
پاکستان کی کرکٹ کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آج کل قومی ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے، جہاں ٹی ٹوئنٹی سیریز پہلے ہی ہار چکی ہے اور ون ڈے سیریز میں بھی شکست کا سامنا کر رہی ہے۔ جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، دوسرا ون ڈے میچ جاری ہے اور صرف دس رنز پر تین کھلاڑی پویلین لوٹ چکے ہیں۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ میرٹ کی پامالی واضح ہے۔ چند غیر سنجیدہ اور موقع پرست فیصلہ سازوں کی ضد اور نااہلی سب پر عیاں ہو چکی ہے۔ ان کے ذہنوں پر سیاست اور خود نمائی کا نشہ چھایا ہوا ہے۔ ان کے نزدیک ملک اور ٹیم کی عزت ایک عارضی چیز ہے، جبکہ دکھاوا اور نمائش ان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
چیمپئنز ٹرافی میں بھی یہی صورتحال دیکھی گئی۔ بطور میزبان ملک، ہم نے تمام تر توجہ اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش، نئی سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر، اور جدید تکنیکی آلات کی تنصیب پر مرکوز رکھی، مگر جب اصل امتحان کا وقت آیا، تو ہماری کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ چیمپئنز ٹرافی سے جس طرح ذلت آمیز بیدخلی ہوئی، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ شکست ہر محب وطن شہری کے لیے شدید مایوسی کا باعث بنی۔ ٹورنامنٹ کے دوران سوشل میڈیا پر عوام کے جذبات اور ان کی بے چینی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔
عوام کو صرف ٹیم کی سلیکشن پر ہی اعتراض نہیں تھا، بلکہ انہیں انتخاب کرنے والوں کی اپنی اہلیت پر بھی شدید تحفظات تھے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اربابِ اختیار کس معیار اور قابلیت کی بنیاد پر فیصلے کر رہے ہیں؟ کرکٹ ایک پروفیشنل اور ٹیکنیکل کھیل ہے، جس کی بہتری کے لیے سائنسی بنیادوں پر حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے۔ کھلاڑیوں کی کوچنگ اور تربیت جدید تقاضوں کے مطابق کی جاتی ہے، اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب فیصلہ ساز باخبر، تجربہ کار اور اس کھیل کے ماہر ہوں۔ لیکن اگر ہم پاکستان کرکٹ کی قیادت پر نظر ڈالیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان میں سے کسی نے کبھی خود کرکٹ کھیلی ہے؟ کیا انہیں کرکٹ کے بنیادی اصولوں کا بھی علم ہے؟ ان کی کارکردگی اور فیصلوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نہیں۔
یہ صورتحال ایسے ہی ہے جیسے کسی موٹر مکینک کو سرجری کے فرائض سونپ دیے جائیں۔ نتیجہ کیا ہوگا، یہ سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ جس شخص نے بھی یہ فیصلہ کیا ہوگا، اس کے نزدیک مریض کی صحت کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی، بلکہ مکینک سے قربت زیادہ عزیز ہوگی۔ یہی کچھ ہماری کرکٹ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ذمہ داری ان لوگوں کے سپرد کی گئی ہے، جنہیں خود اس کھیل کی ابجد سے بھی آگاہی نہیں۔
چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد کچھ لوگوں کو عہدوں سے ہٹایا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر ان میں ذرا بھی غیرت اور احساس ہوتا، تو وہ خود ہی مستعفی ہو جاتے۔ مگر کرکٹ سے جڑی مراعات اور مالی فوائد ایسے ہیں کہ جو ایک بار اس سے چمٹ جاتا ہے، وہ جوک کی طرح چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔
عوام کی برداشت جواب دے چکی ہے۔ کرکٹ شائقین کا غصہ بڑھ رہا ہے، اور ان کے جذبات ایک پریشر ککر کی طرح ہیں، جس کا والوو چیخ رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ پھٹ جائے، فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کرکٹ کے نظام میں انصاف اور میرٹ کو بحال کرنا ہوگا۔ کھلاڑیوں کے انتخاب اور کوچنگ کے معاملات میں میرٹ کو یقینی بنانا ہوگا۔ تمام غیر قانونی اور غیر منصفانہ تعیناتیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ کرکٹ سمیت دیگر شعبوں کو کامیابی کے ساحل پر پہنچانے کے لیے باصلاحیت، قابل اور پروفیشنل افراد کو قیادت سونپنا ہوگی۔
یہ کام اب ٹالا نہیں جا سکتا۔ عوام کی توقعات اور امیدیں دن بہ دن ختم ہو رہی ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور معیشت جیسے پیچیدہ مسائل کا حل شاید فوری ممکن نہ ہو، لیکن کم از کم میرٹ اور انصاف کی بحالی کے لیے تو کوئی قانون یا اضافی فنڈز درکار نہیں۔ اگر اس پر عمل کر لیا جائے، تو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ایک سنہری باب رقم کیا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہوتا ہے کے لیے

پڑھیں:

امرود

امرود کا نباتاتی نام پسیڈیم گواوا (psidium guajava) ہے.

تاریخی پس منظر

امرود کی ابتدا ایک ایسے علاقے سے ہوئی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ میکسیکو وسطی امریکا یا شمالی جنوبی امریکا سے پورے کیروبین خطے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پیرو میں آثارقدیمہ کے مقامات سے امرود کی کاشت کے ثبوت قبل از مسیح کے اوائل میں ملے ہیں۔ امرود 19 ویں صدی میں فلوریڈا، امریکا میں متعارف کرائے گئے تھے۔ تقریباً سیب اور امرود کی کاشت دنیا بھر میں کی جاتی ہے۔ امرود جنوبی مغربی یورپ میں بھی اُگتے ہیں، خاص طور پر اسپین اور یونان میں۔ امرود کے پودے دو سال کے اندر اندر پھل دینا شروع کردیتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کی پودے 40 سال تک پھل دیتے ہیں۔ پتے گہرے بھاری ہوتے ہیں۔ یہ بیضوی شکل کے ہوتے ہیں۔ ان کی لمبائی پانچ سے پندرہ سینٹی میٹر یا دو سے چھے انچ تک ہوتی ہے۔ پھول سفید ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں خوش نما نظر آتے ہیں۔ سائنسی لحاظ سے اس کے پھل اور پتوں میں وٹامن سی اور پوٹاشیم سمیت کئی غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ امرود دل، ہاضمے اور جسم کے دیگر اعضاء کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ پھل رنگت کے اعتبار سے ہلکے سبز اور پیلے ہوتے ہیں۔ کچا پھل سخت جب کہ پکنے پر نرم ہو جاتا ہے۔ شکل و صورت ناشپاتی جیسی ہوتی ہے۔

اس کے گودے میں چھوٹے چھوٹے بیچ ہوتے ہیں۔ اس کے پودے ہر قسم کی زمین میں اُگنے کی وجہ سے تجارتی درجہ اختیار کرگئے ہیں۔ امرود کی کاشت مرطوب اور معتدل آب و ہوا والے علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی کاشت پاکستان کے تمام شہروں میں کی جاتی ہے۔ 2019 کے اعدادوشمار کی مطابق اسے سات ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر کاشت کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں زیادہ تر اس کی کاشت شیخوپورہ، قصور، لاہور، سرگودھا، فیصل آباد، گوجرانوالہ۔ خیبر پختونخوا میں کوہاٹ، بنوں، ہری پور ہزارہ، سندھ میں حیدرآباد، لاڑکانہ زیادہ مشہور ہیں۔

پاکستان میں امرود کی اوسط پیداوار 4.7 ٹن فی ہیکٹر ہے۔

اقسام:

امرود کی مجموعی طور پر 30 اقسام ہیں۔ تاہم اختصار کے سات دس اہم پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔

ٹراپیکل وائٹ

یہ جنوبی ایشیا میں بڑے پیمانے پر اُگائی جانے والی قسم ہے۔ نمی والی زمین میں اُگنے کے لیے موزوں ہے۔ مٹی نہ زیادہ گیلی اور نہ زیادہ خشک ہو۔ اس کے پودے 20 سینٹی گریڈ درجۂ حرارت برداشت کر لیتے ہیں۔ یہ پودے 20 فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ یہ قسم ایک سال میں پھل دینا شروع کر دیتی ہے۔ یہ پھل بڑا اور بھاری ہوتا ہے۔

اس کا قطر تین سے چار انچ تک ہوتا ہے۔ یہ سال میں دو بڑی فصلیں دیتا ہے۔ اگست سے اکتوبر اور پھر فروری سے مارچ تک۔ یہ ذائقے میں میٹھا اور تھوڑا سا تیزابی ہوتا ہے۔ اس کا گودا اندر سے مضبوط ہوتا ہے۔

میکسیکن کریم

جیسا نام سے ظاہر ہے اس قسم کی کاشت میکسیکو اور وسطی امریکا میں بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ اس قسم کے درخت چالیس سال تک زندہ رہتے ہیں۔ یہ پودے 30 فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ یہ گرم مرطوب موسم میں پرورش پاتے ہیں۔ یہ سارا سال دست یاب ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود جنوبی کیلیفورنیا میں فصل کی کٹائی موسم خزاں میں شروع ہوتی ہے۔

اس کی خوشبو انناس جیسی ہوتی ہے۔ پکنے پر پھل سرخ اور زرد ہو جاتا ہے۔

چائنا وائٹ

یہ ناشپاتی جیسا پھل مختلف ناموں سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ مثلاً تھائی امرود، تائیوان امرود، ایشیائی امرود اور ایپل امرود۔ اس قسم کے پودے 12 سے 20 فٹ اونچے اور آٹھ فٹ چوڑے ہوتے ہیں۔ یہ بھاری اثر والا پھل ہے۔ اس کے پودے ایک سے دو سال کے دوران پھل دینا شروع کر دیتے ہیں۔ عموماً سفید گودے والے امرود سارا سال دست یاب رہتے ہیں۔ پھل دیگر امرود کی نسبت زیادہ بڑا اور وزن تقریباً ایک پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔ جیسے جیسے پھل پکتا ہے۔ یہ خوش گوار مہک خارج کرتا ہے۔ اس کی جلد سبز سے پیلی ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسے آرائشی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سویٹ وائٹ انڈونیشین

جیسے نام سے ظاہر ہے کہ یہ پودا انڈونیشیا سے آتا ہے۔ اس کا تعلق سدابہار پودے سے ہے۔ اس کی جلد زرد سبز ہوتی ہے۔ اس کے گودے کا رنگ سفید، گلابی اور کریم جیسا ہوتا ہے۔ یہ ذائقے کے اعتبار سے کھٹا میٹھا ہوتا ہے۔ مقامی لوگ اسے ناشتے میں بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

جینٹ ویتنام

امرود کی اقسام میں جینٹ ویت نامی امرود کا سائز سب سے بڑا ہے۔ ہوسکتا ہے آپ اس طرح کے دوسرے ناموں سے واقف ہوں۔ مثلاً بینکاک جینٹ ، ایشین جینٹ وغیرہ۔

یہ ایک پیداواری پودا ہے براعظم ایشیا میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ یہ قدوقامت میں 12 فٹ تک ہوتا ہے۔ اس کے لیے گرم آب ہوا کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ عموماً جب بہار شروع ہوتی ہے تو سفید پھول کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پہلی فصل ایک سے دو سال کے اندر مل جاتی ہے۔ پھل کا وزن 1.5 سے 2.7 پاؤنڈ تک ہوتا ہے۔ یہ قسم زیادہ تر مشروبات بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

کاس ریکن گواوا

یہ ایک چھوٹا سا درخت ہے۔ یہ جنوبی امریکا کا مقامی پودا ہے۔ یہ کاستہ ریکن کی ثقافت اور کھانوں میں اہم مقام رکھتا ہے۔ موسم خزاں میں پکنے پر پیلا ہوجاتا ہے۔ عموماً پھل ایک سے دو انچ تک لمبا ہوتا ہے۔ یہ پودے سردی کو کم برداشت کرتے ہیں۔ ان کے لیے زیادہ درجۂ حرارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان پودوں کی اونچائی 20 سے 35 فٹ تک جاتی ہے۔ یہ پھل ایک مخصوص ذائقہ فراہم کرتا ہے۔ مزید ٹارٹک اور انناس کی یاد دلاتا ہے۔ یہ قسم زیادہ تر کہلاتی ہے۔ اس لیے اکثر اس پھل کا جوس بنایا جاتا ہے۔ پکانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ قسم سارا سال پھل دیتی ہے۔ سب سے بڑی فصل دسمبر سے فروری تک پھر جون سے اگست تک پھل دیتی ہے۔

وائٹ انڈین

یہ قسم فلورائڈا میں پائی جاتی ہے۔ اس کے پودے دو سے تین انچ قطر کے چھوٹے سے درمیانے سائز کے پھل کی شان دار پیداوار دیتے ہیں۔ یہ سدا بہار درخت ہندوستان اور امریکا میں بڑے پیمانے پر کاشت کیے جاتے ہیں۔ یہ سردیوں کے آخر اور موسم بہار کے شروع میں پھل دیتے ہیں۔ پکنے کے بعد پھل کی خوشبو کیلے اور انناس جیسی ہوتی ہے۔ آپ ایسا محسوس کریں گے جیسے کسی باغ میں گھوم رہے ہیں۔

ان کی جلد کافی حد تک سخت ہوتی ہے۔ پھل میں موجود بیج بڑے سائز کے ہوتے ہیں۔ عموماً گودا نرم ہوتا ہے جب کہ ذائقہ ہلکا کھٹا میٹھا۔ دوسری اقسام کے مقابلے میں یہ سفید فارم انڈین زیادہ سرد ہیں۔ یہ سردی کو زیادہ برداشت کرنے والی فصل ہے۔ یہ پودے 20 سے 22 فٹ تک بڑھتے ہیں۔

ایپل سیڈلیس گواوا

یہ بیج کے بغیر پھل ہوتا ہے۔ اس سے ایپل امرود بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قسم زیادہ تر ہندوستان، جنوب مشرقی ایشیا مثلا تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں پیدا ہوتے ہیں۔ جب خزاں شروع ہوتی ہے تو دن اور رات کے درمیان درجۂ حرارت کی تبدیلی امرود کی مٹھاس بڑھا دیتی ہے۔ اس قسم کے پودے 6 سے 32 فٹ تک بڑھتے ہیں۔ پھل 1.9 سے 3 انچ تک بڑا ہوتا ہے۔ گودا خوشبودار ہوتا ہے۔ اس میں آڑو جیسی مہک پائی جاتی ہے۔ یہ قسم ستمبر سے نومبر تک پھل دیتی ہے۔ اس کا پھل گچھوں کی صورت میں پکتا ہے۔ عموماً پھل میں بیج نہیں ہوتا۔ دوسری اقسام کی نسبت زیادہ مضبوط اور میٹھی ہے۔ اسے توڑ کر زیادہ تر کھایا جاتا ہے۔ بطور سلاد بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ناشتے میں بھی کھایا جا سکتا ہے۔ ادویات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ایجپٹین یلو

یہ قسم گرم آب و ہوا میں زیادہ پھلتی پھولتی ہے۔ ان کی لمبائی 20 سے 40 فٹ تک مشہور ہے۔ پھل کا رنگ پیلا اور سائز چار انچ تک لمبا ہوتا ہے۔ پھل کا موسم بہار اور گرمیوں میں ہوتا ہے۔ پھل 60 سے 90 دنوں میں پک جاتا ہے۔ یہ اندر سے میٹھا اور راست دار ہوتا ہے۔ مصری پیلے امرود کی خوشبو کی وجہ سے اسے شیمپو کی مصنوعات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پودے گھریلو آرائش کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ کام یاب فصل حاصل کرنے کے لیے اس کے پودوں کو باقاعدگی سے پانی دینا پڑتا ہے۔ عموماً پودے دو سال بعد پھل دینا شروع کر دیتے ہیں۔

الہ آباد صفدہ

یہ ہندوستان میں دست یاب امرود کی سب سے زیادہ محفوظ قسم ہے۔ یہ الہ آباد کا سب سے مشہور اور مطلوب پھل ہے۔ یہ قسم تقریبا 30 سے زائد ممالک میں دست یاب ہے۔ اگر آپ اسے امریکا میں اگانا چاہتے ہیں تو 9 سے 12 سینٹی گریڈ درجۂ حرارت کافی ہے۔ اس کی کاشت اکثر اس کے آبائی ممالک میں سال بھر جاری رہتی ہے۔ یہ پودے 19 سے 30 فٹ تک بڑھتے ہیں۔ درخت کا بیرونی چھلکا ناقابل یقین حد تک نرم ہوتا ہے۔ پھل عام طور پر گول ہے۔ اسے کھائیں تو منہ خوش گوار مٹھاس سے بھر جاتا ہے۔

مجموعی پیداوار

امریکی ادارے فوسٹ (FAOAST) 2022 کے اعدادوشمار کے مطابق اس کی سالانہ پیداوار 59.2 ملین ٹن تھی۔ ہندوستان کے پاس پیداوار کا کل حصہ تقریبا 44 فی صد ہے۔ دیگر ممالک میں اس کا پیداواری حجم مندرجہ ذیل ہے:

٭  انڈیا   26.3

٭  انڈونیشیا           4.1

٭  چین   3.8

٭  پاکستان            2.8

٭  میکسیکو             2.5

٭  برازیل           2.1

دفاعی مرکبات

٭   Tannis                 ٭   flavonoids

٭   pentacyclic                     ٭   Carotenids

٭   Polyphennols     ٭   Saponins

٭   Triterpenoids

غذائی حقائق

100 گرام یعنی 3.5 اونس امرود میں مندرجہ ذیل غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔

٭  توانائی             68 کیلوریز

٭  کاربوہائیڈریٹس 14.32گرام

٭  شکر               8.92 گرام

٭  ڈائٹری فائبر    5.4 گرام

٭  پروٹین                       2.55 گرام

٭  پانی               81 گرام

٭  لائکوپین                     5200 مائیکرو گرام

حیاتین / Vitamins مقدار / Quantity

٭  بیٹا کیروٹین      3743 مائیکرو گرام

٭  تھایا مین بی ون   0.0676 % ملی گرام

٭  رائبو فلیون بی ٹو 0.043 % ملی گرام

٭  نیا سین بی تھری 1.0847 % ملی گرام

٭  پینٹوتھینک ایسڈ 0.4519 % ملی گرام

٭  وٹامن بی سکس  0.118 % ملی گرام

٭  فولک ایسڈ                    4912 % مائیکرو گرام

٭  وٹامن کے                   2.22 % مائیکرو گرام

معدنیات / Minerals مقدار / Quantity

٭  کیلشیم             18 % ملی گرام

٭  آئرن            0.262 % ملی گرام

٭  مگنیشیم                       226 % ملی گرام

٭  میگنیز             0.157 % ملی گرام

٭  فاسفورس                     406 % ملی گرام

٭  پوٹاشیم                       4179 % ملی گرام

٭  سوڈیم            20 % ملی گرام

٭  جست                        0.232 % ملی گرام

طبی فوائد:

طبی لحاظ سے امرود کھانے کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں۔

ہاضمہ کی بہتری کے لیے

امرود میں پائے جانے والے اہم غذائی اجزاء میں سے ایک فائبر ہے۔ فائبر پاخانے کو ٹھوس اور نرم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ اسہال اور قبض دونوں کی علامات کو کم کرتا ہے۔ مطالعے سے اس بات کا بھی پتا چلا ہے کہ اس کے پتوں کا عرق اسہال کی شدت کم کر دیتا ہے۔ چڑچڑا پن ختم کر دیتا ہے۔ طبی لحاظ سے امرود کے پتوں کا عرق اینٹی مائیکرو بیل ہے۔ اس کا عرق آنتوں میں موجود نقصان دہ جرثوموں کو بے اثر کر دیتا ہے۔

خواتین کے لیے

ایسی خواتین جن کو ماہواری کے دوران درد ہوتا ہے وہ امرود کے پتوں کا عرق ضرور پییں۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ امرود کے پتوں کا عرق ماہواری کے درد سے نپٹنے کے لیے درد کش ادویات سے کہیں زیادہ موثر ہے۔

آنکھوں کے امراض

امرود وٹامن اے سے بھرپور پھل ہے، کیوںکہ جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے بینائی بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر ا سے روزانہ کی بنیاد پر کھایا جائے تو سفید موتیا یا میکولر ڈی جنریشن جیسی علامات کو روکا جا سکتا ہے۔ اگرچہ گاجر میں وٹامن اے بکثرت پایا جاتا ہے۔ تاہم امرود میں دوسرے نمبر پر وٹامن اے کی بکثرت مقدار پائی جاتی ہے۔

صحت مند جلد

امرود جلد کی رنگت کو کئی اعتبار سے خوب صورت بناتا ہے۔

امرود میں اینٹی آکسیڈنٹ کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ قبل ازوقت بڑھاپے کو روک دیتا ہے۔ چہرے کی جھریوں سے بچاتا ہے۔ جلد کی ساخت کو تر اور چمک دار بناتا ہے۔ اس میں وٹامن کے کی مقدار کیل مہاسوں کے علاج میں مفید ہے۔ سیاد دھبوں اور حلقوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

وبائی امراض

امرود وبائی امراض سے لڑنے کی بھرپور قوت رکھتا ہے۔ وٹامن سی سے بھرپور ہے۔ یہ کھانسی کو روکتا ہے۔ یہ بلغم توڑنے میں مدد دیتا ہے۔ گلے اور سانس کے امراض میں بہتری لاتا ہے۔ یہ جراثیم کو جڑ سے ختم کر دیتا ہے۔

تناؤ میں کمی

امرود میں مگنیشیم کی خاص مقدار پائی جاتی ہے جو قدرتی طور پر جلد اور تناؤ کے پٹھوں کو سکون دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر آپ تناؤ والے ماحول میں کام کرتے ہیں تو دوپہر کے کھانے کے بعد امرود کھانا اچھا ثابت ہو سکتا ہے۔

وزن میں بتدریج کمی

صحت مند متوازن غذا میں امرود کو شامل کرنا وزن میں بہ تدریج کمی کا باعث ہے۔ یہ ایک پیٹ بھرنے والا پھل ہے۔ یہ وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور پھل ہے، کیوںکہ اس میں صرف 37 کیلوریز ہوتی ہیں۔

یادداشت بڑھانے کے لیے

امرود وٹامن بی سے بھرپور پھل ہے۔ یہ دماغی گردش بہتر بناتا ہے۔ علمی کارکردگی بڑھاتا ہے۔ پوٹاشیم کی موجودگی یادداشت کو بہتر بناتی ہے۔

قلبی صحت

امرود کا باقاعدگی سے استعمال بلڈ پریشر کو کم اور برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ جسم میں پوٹاشیم اور سوڈیم کی مقدار متوازن رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ ٹرائی گلیسرائڈ کی سطح کم کر دیتا ہے۔ دل کے امراض سے تحفظ بخشتا ہے۔ بہت سے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ امرود کے پتوں میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ اور وٹامنز کی اعلٰی سطح دل کو آزاد ریڈیکل کے نقصان سے بچانے کی قدرت رکھتی ہے۔

قوت مدافعت بڑھانے کے لیے

امرود میں موجود وٹامن سی غذائی اجزاء اور معدنیات سے بھرپور پھل ہے۔ اس میں سنگترے سے زیادہ وٹامن سی کی مقدار پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر سے دور رہنے کے لیے دن میں ایک امرود ضرور کھائیں۔

بلڈ شوگر کم کرنے کے لیے

طبی لحاظ سے امرود بلڈ شوگر میں واقع کمی لاتے ہیں۔ اس کے پتوں کا عرق پینا انتہائی مفید ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس والے 20 افراد میں ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ امرود کے پتوں کی چائے پینے سے بلڈ شوگر کی سطح میں 10 فی صد کمی آ گئی۔

کینسر سے بچاؤ

امرود کے پتوں میں کینسر کو روکنے کی بھرپور استعداد موجود ہے۔ اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ اور وٹامنز فری ریڈیکل سے لڑنے کی بھرپور استعداد رکھتے ہیں۔ یہ کینسر کی نشوونما والے سیلز کو فوری طور پر روک دیتا ہے۔     

احتیاطی تدابیر

امرود کھاتے وقت مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔

 ایسے لوگ جو الرجی کا شکار ہیں مثلاً خارش یا سانس میں دشواری انہیں چاہیے کہ وہ اسے کھانے سے گریز کریں۔

 امرود میں چوںکہ فائبر کی بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اسے اعتدال سے کھائیں۔ زیادہ کھانے سے گیس یا پیٹ میں اپھارہ ہو سکتا ہے۔

 جن لوگوں کا خون گاڑھا رہتا ہو انہیں بھی اسے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

 پائریا کے مریضوں کو امرود کو ماڈرن اسٹائل میں کھانا چاہیے خاص طور پر جن کے دانت بھربھرے ہوں۔

امرود کو کھانے سے پہلے ہمیشہ اچھی طرح دھو لیں تاکہ مٹی اور جراثیم اتر جائیں۔

 خواتین کو پریگننسی اور بریسٹ فیڈنگ کے دوران اسے احتیاط سے کھانا چاہیے۔ بہت زیادہ کھانے سے یوٹرس پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ویمنز ورلڈکپ کوالیفائر میں ناکامی پر ویسٹ انڈین کپتان مایوس
  • اسرائیلی فوج نے فلسطینی امدادی کارکنوں کی ہلاکت کو پیشہ ورانہ ناکامی قرار دیدیا، ڈپٹی کمانڈربرطرف
  • امرود
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • تمام شعبوں میں میرٹ پہلی ترجیح رہے گی، علی امین گنڈاپور
  • تمام شعبوں میں میرٹ پہلی ترجیح رہے گی؛ علی امین گنڈاپور
  • جیسن گلیسپی کا پی سی بی پر واجبات کی عدم ادائیگی کا الزام، پاکستان کرکٹ بورڈ کا مؤقف بھی آگیا
  • کسی صوبے کا دوسرے صوبے کے پانی پر ڈاکا ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: احسن اقبال
  • شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ
  • ورلڈ کپ کے لیے قومی ویمنز کرکٹ ٹیم بھارت نہیں جائے گی: محسن نقوی