Daily Ausaf:
2025-04-22@01:29:34 GMT

Darkness at Noon

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

فریڈرک نطشے ایک جرمن فلاسفر اور استاد گزرا ہے جو 1844 ء میں پیدا ہوا اور 1900 ء میں وفات پا گیا۔ فلسفہ کے علاوہ اس کے دوسرے اشغال میں نثری شاعری، ثقافتی تجزیہ نگاری وغیرہ کا بھی کافی غلبہ رہا لیکن جس تندہی سے اس نے جدید فلسفہ پر کام کیا اس کی بدولت اس کے اقوال آج بھی زریں اقوال کے طور پر quote کیے جاتے ہیں۔
فریڈرک نطشے جب یونیورسٹی میں پروفیسر تھا تو اس وقت جرمنی کی یہ حالت تھی کہ وہ تقریباً سولہ حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔فرانس، بیلجئم آسٹریا اور یورپ کے دوسرے ممالک جرمنی کے علاقوں کو لوٹ کا مال سمجھ کر اپنی ریاست کا حصہ بنا چکے تھے ۔ وہ جرمنی کی اس حالت پر جب بھی کلاس میں بات کرتا ہے تو نوجوان نسل اس کو قسمت پر ڈال دیتی ہے اور خدا کا کام کہہ کر معاملے سے جان چھڑاتی ۔ نطشے طالبعلموں کے اس رویے سے ایک نفسیاتی کرب کا شکار ہو جاتا۔ خدا کی قدرت ایک دن اسی کرب میں وہ یونیورسٹی کے گرائونڈ میں دن کے وقت لالٹین لے کر کھڑا ہو گیا۔ یونیورسٹی کے دیگر طالب علموں نے اسکی اس حرکت پر کافی حیرانگی اور تعجب کا اظہار کیا اور نطشے سے پوچھا کہ دن کے وقت یہ لالٹین لئے کیوں کھڑے ہو جس کے جواب میں نطشے کہتا ہے Darkness at Noon ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔طلبا نے حیران ہو کر کہا پروفیسر صاحب آپ کو کیا ہو گیا ہے سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے اندھیرا کہاں ہے۔ نطشے جواب دیتا ہے بالکل اس طرح جیسے تمہیں اپنی حالت نظر نہیں آ رہی تم اپنے لہو لہان اور ٹکڑوں میں بٹے ملک کو نہیں دیکھ پا رہے اس سے بڑھ کر جرمن قوم کیلیئے اندھیرا کیا ہو گا ! اندھیرا تمہاری عقلوں پر پڑ چکا۔ نطشے کے یہ الفاظ اسکے طالبعلموں کیلیئے بیداری کی ایک شمع جلاتے ہیں۔ نطشے کا ایک طالب علم آگے بڑھتا ہے اوراونچی آواز میں کہتا ہے ہم بدلیں گے جرمنی کی یہ حالت اور یوں نطشے کے دکھائے راستے پر وہ قوم جوق در جوق چلنا شروع کر دیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے جرمنی نہ صرف ایک دفعہ پھر اپنی اکائی حاصل کر لیتا ہے بلکہ اسی یورپ میں کمانڈنگ پوزیشن بھی حاصل کر لیتا ہے ۔
قارئین آپ جانا چاہیں گے کہ جس طالبعلم نے نطشے کی بات کو ایک نعرہ دیا کہ ہم بدلیں گے جرمنی کی یہ حالت، اس جرمن طالب علم کا کیا نام تھا ۔ اس کا نام بسمارک تھا اور جرمنی کی تاریخ میں اسے Iron man of Germany کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ ہے وہ کہانی جو ہمیں بتاتی ہے کہ ٹکڑوں میں بٹی جرمن قوم نے کس طرح اپنا سفر شروع کیا۔ اس وقت جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو خاکسار کو لیاقت باغ کے جلسے میں گرجتی برستی شیرنی بینظیر کے وہ کلمات یاد آ رہے ہیں کہ ہم سنبھالیں گے پاکستان ہم بچائیں گے پاکستان۔ کاش اسکے ساتھ زندگی وفا کر جاتی اور تاریخ میں اسکا نام بھی بطور Iron Lady of Pakistan لکھا جاتا۔ وطن اج پھر اس شخص کی تلاش میں ہے جو قوم کو بتا سکے کہ یہ صوبائیت اور قومیت کے چکروں میں ہم کونسے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم کن اندھیروں کے سفر پر چل نکلے ہیں۔ میرا پاکستان اس وقت جس سب سے بڑے المیہ سے گزر رہا ہے وہ ہے اس کی وہ بدنصیبی کہ علم و شعور سے محروم طبقہ تو آسانی سے گمراہ ہو سکتا ہے لیکن ہماری بدنصیبی ان انتہائوں کو چھو رہی ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی ففتھ جنریشن وار کا حصہ بن کر دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع ہو گیا ہے اور انھے جب اس امر کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور سچائی بتائی جاتی ہے تو وہ کسی کی بات سننا ہی نہیں چاہتے کیونکہ ان دنوں ہمارے سماج کا یہ دستور بن گیا ہے کہ جو وہ کہتے اور سمجھتے ہیں وہی سچ ہے دوسرے الفاظ میں وہ اپنی مرضی کا سچ سننا چاہتے ہیں۔ ہمارے اس سماجی روئیے پر اپنی قوم کو یکجہتی کا راستہ دکھانے والا نطشے کا ایک قول بڑا قابل غور ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ بعض اوقات لوگ سچ سننا نہیں چاہتے کیونکہ وہ اپنے وہم کو بکھرتے دیکھنا نہیں چاہتے۔
قارئین آپ نے دیکھا ہو گا کہ راقم جب بھی کوئی بات کہنا چاہتا ہے تو وہ عجز کی انتہائوں کو چھوتے ہوئے اپنے لیے لفظ خاکسار استعمال کرتا ہے اور اپنے آپکو طفل مکتب سے تشبیہہ دیتا ہے لیکن آج نطشے کے اس قول پر بات شروع کرنے سے پہلے از راہ مذاق وہ نطشے کو بتانا چاہتا ہے کہ بھائی تم ہو گے بڑے فلاسفر اپنے دور کے ہمارے اس دور میں آج کل ہم جیسے کئی تم سے بھی بڑے بناسپتی فلاسفر بیٹھے ہیں اور ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے ایسی ایسی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگے اور تم نے اپنے قول میں جہاں یہ لکھا ہے کہ بعض اوقات میری سرکار یہ بعض اوقات کا صیغہ استعمال ہوتا ہو گا تمہارے زمانے میں ہمارے ہاں آج کل کے زمانے میں تو اکثر اوقات بلکہ مسلسل یہ ہو رہا ہے کہ لوگ سچ سننا نہیں چاہتے اور وہ اپنے وہم کو اس طرح سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جیسے وہ ان کا کوئی ذہنی تخیل نہیں بلکہ اس نے انکی کوکھ سے جنم لیا ہو۔ سنجیدگی سے سوچیں کہ نطشے کس وہم کی بات کرتا ہے تو دانش کدہ کے مکیں سمجھتے ہیں کہ یہ وہم وہ وہم ہے جو آج کل ہمارے معاشرہ کی اکثریت کے ذہنوں میں پیوست ہو چکا ہے کہ ہم سے بڑا اس دنیا میں پارسا کوئی اور نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ایناں دی منجی تھلے ڈانگ پھیرو تے ایناں توں وڈا گناہ گار کوئی نہیں۔ ایسے اشخاص کے متعلق کسی نے کیا سچ لکھا ہے کہ ہر دیوار پہ تیرا نام لکھا ہے۔ کہیں صاحب، کہیں محترم ، کہیں جناب لکھا ہے۔ اوپر تلاش گمشدہ نیچے ذہنی توازن خراب لکھا ہے ۔ میرے وطن کہاں سے لاں نطشے اور کہاں سے لاں بسمارک۔ میرے پاس تو جو میسر ہیں وہ کچھ وڈیرے باقی لٹیرے ہیں باقی رہی بات ملک کی تو وہاں اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نہیں چاہتے جرمنی کی لکھا ہے ہے اور

پڑھیں:

بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش

کانگریس لیڈر نے کہا کہ یہ ممبران پارلیمنٹ ہمیشہ ہی نفرت انگیز تقریر کرتے رہتے اور سبک دوش ہونے والے بی جے پی صدر کی صفائی ڈیمج کنٹرول کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین کانگریس کمیٹی نے بی جے پی کے ذریعے خود کو سپریم کورٹ کے حوالے سے اپنے اراکین پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کے بیانات سے الگ کرنے کو نقصان کی تلافی قرار دیا اور بی جے پی پر زور دیا کہ اسے کم از کم ان دونوں کو پارٹی سے نکال دینا چاہیئے۔ کانگریس نے یہ بھی پوچھا کہ دونوں بی جے پی لیڈران کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور انہیں وجہ بتاؤ نوٹس کیوں جاری نہیں کیا گیا۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری انچارج کمیونیکیشنز جے رام رمیش نے کہا کہ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) پر دو ممبران پارلیمنٹ کے تبصروں سے پارٹی کے جلد سبکدوش ہونے والے صدر کا خود کو اور پارٹی کو الگ کر لینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔

جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ ممبران پارلیمنٹ ہمیشہ ہی نفرت انگیز تقریر کرتے رہتے اور سبک دوش ہونے والے بی جے پی صدر کی صفائی ڈیمج کنٹرول کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی کو بے وقوف نہیں بنا سکتے ہیں، یہ بس ان کی منافقت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا وزیراعظم مودی کی خاموشی کو ان کی حمایت سمجھا جائے۔ جے رام رمیش نے مودی سے بھی اس معاملے پر جواب مانگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہندوستانی آئین پر بار بار ہونے والے ان حملوں پر وزیر اعظم کی مسلسل خاموشی ان کی حمایت کا عکاسی نہیں کرتی ہے تو ان دونوں ممبران پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔

واضح رہے کہ بی جے پی نے ہفتہ کے روز سپریم کورٹ پر دوبے اور شرما کی تنقید سے خود کو الگ کر لیا اور پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے ان تبصروں کو ان دونوں کے ذاتی خیالات قرار دیا۔ انہوں نے حکمران جماعت کی طرف سے عدلیہ کے احترام کو جمہوریت کا ایک لازمی حصہ قرار دیا۔ نڈا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ بی جے پی کا عدلیہ اور چیف جسٹس پر ممبران پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کے تبصروں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے ذاتی تبصرے ہیں لیکن بی جے پی نہ تو ان سے اتفاق کرتی ہے اور نہ ہی کبھی اس طرح کے تبصروں کی حمایت کرتی ہے، بی جے پی انہیں قطعی طور پر مسترد کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • ‘پاکستان میرا دوسرا گھر ہے’ سر ویوین رچرڈز نے دل کھول کر اپنے تاثرات بیان کردیے
  • ب فارم کیلئے نادرا دفتر جانے کی ضرورت نہیں،گھر بیٹھے بنوائیں
  • آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے سامنے اسرائیل کیخلاف احتجاجی ریلی
  • عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں
  • آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے اسرائیل کے خلاف احتجاجی ریلی
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  • پیکر کردار مثالی لوگ
  • ستاروں کی روشنی میں آج بروزہفتہ،19اپریل 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟