نئی عالمی تجارتی کشمکش کے مضمرات
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران یوم آزادی کے موقع پر یورپی یونین اور 46 ممالک پر نئے تجارتی محصولات کے نفاذ کا اعلان کیا۔
امریکی صدر نے کہا کہ حاصل شدہ محصولات کو امریکا میں ٹیکس کی شرح کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یورپی یونین پر 20 فیصد اضافی ٹیکس، چین پر 34 فیصد اور جاپان پر 24 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا۔ بھارت پر 26 فیصد، اسرائیل پر 17 فیصد اور برطانیہ پر 10 فیصد ٹیرف لگایا جائے گا، جب کہ اب پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محصولات بڑھانے کے لیے عالمی تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے۔ امریکی صدر کے بظاہر یہ اقدامات امریکی تجارتی تعلقات میں عدم توازن کو درست کرنے اور ملکی صنعتوں کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے ہیں، تاہم ان فیصلوں سے عالمی قیمتوں پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جب کہ امریکی کاروباری شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
ماہرین اقتصادیات خبردار کر رہے ہیں کہ ان محصولات کے نتیجے میں تجارتی جنگ چھڑ سکتی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بڑے امریکی تجارتی شراکت داروں کے ساتھ ایک نئی تجارتی جنگ امریکا اور عالمی نمو کو تباہ کردے گی، جب کہ صارفین اور کمپنیوں، دونوں کے لیے قیمتیں بڑھنے کا سبب بن جائے گی۔ متعدد امریکی تجارتی شراکت داروں اور اتحادی ممالک نے اس تجارتی پالیسی کو پسند نہیں کیا ہے، جب کہ جوابی ٹیرف لگائے جانے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں، جس سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی نے دنیا کی بڑی معیشتوں کے درمیان جنگ جیسا ماحول بنا دیا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس سے عالمی ترقی سست پڑسکتی ہے اور افراط زر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بظاہر صدر ٹرمپ کے فیصلے کے اثرات پاکستان تک نہیں پہنچ رہے لیکن ماہرین اس سلسلے میں ایک محتاط پالیسی کی ضرورت پر بات کر رہے ہیں جو صدر ٹرمپ کے دور میں پاک امریکا تجارت میں آنے والے ممکنہ رکاوٹوں سے نمٹ سکے۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان علاقائی تجارت کو مضبوط بنائے اور کینیڈا و میکسیکو میں امریکی مہنگی اشیا کی وجہ سے پیدا مسابقتی گنجائش کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔
صدر ٹرمپ کی خارجہ، داخلی اور تجارتی پالیسی نے عالمی سطح پر کشیدگی پیدا کر دی ہے اور ممالک اپنی خود مختاری کو برقرار رکھنے کی فکر میں متبادل طریقوں پر غورکررہے ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک میں ڈالرز کے بجائے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت کا عمل کچھ سالوں سے بڑھا ہے، سب سے پہلے چین نے دیگر ممالک کے ساتھ اپنی کرنسی میں تجارت شروع کی، چین نے اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کی پالیسی اس وقت اختیارکی جب امریکا کی مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ ہو رہا تھا، لٰہذا یورپ نے بھی اسی سمت میں قدم بڑھایا اور یورپی یونین نے یوروکو عالمی تجارت میں ایک مضبوط کرنسی کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، تاہم یہ رجحان تیزی سے مقبول ہوا اورکئی ممالک نے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارتی معاہدے کیے تاکہ ڈالرز پر انحصارکم کیا جاسکے۔
دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل برکس گروپ جن میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ ہیں، یہ گروپ اقتصادی، سیاسی اور تجارتی تعاون کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اور عالمی سطح پر ڈالرکے بجائے متبادل مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کو صدارت سنبھالنے کے بعد جب بھی موقع ملا، وہ برکس ممالک کو بھاری ٹیرف عائد کرنے سے ڈراتے رہے ہیں، صدرٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ برکس ممالک خود کو ڈالر سے دورکررہے ہیں اور ہم دیکھتے ہی رہیں گے، ان نام نہاد حریف ممالک کو واضح طور پر وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ طاقتور امریکی ڈالرکو بدلنے کے لیے نہ تو نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کسی دوسری کرنسی کی حمایت کریں گے، اگر ایسا نہ ہوا تو انھیں 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہی نہیں بلکہ انھیں امریکا کی عظیم مارکیٹ میں اپنا سامان بیچنا بھی بھولنا پڑے گا، یہ ممالک کوئی اور احمق ملک تلاش کرسکتے ہیں اور انھیں امریکا کو بھی الوداع کہنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کی 150 فیصد ٹیرف کی دھمکی نے برکس گروپ کو توڑ دیا ہے۔ عالمی تناظر میں اس دھمکی کے دور رس نتائج نکلیں گے، کیونکہ امریکا پرکوئی بھروسہ نہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے اقدامات برکس ممالک خاص کر روس اور چین کو ایسے اقدامات کرنے پر مجبورکرسکتے ہیں جس سے امریکا کی معاشی بالادستی کو شدید خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
تیزی سے متحرک عالمی منظرنامے میں، براعظم ایشیا کو تبدیلی کا سامنا ہے، جو معاشی انضمام کے مشترکہ عزم کی وجہ سے ہے اور یہ خطے کی معاشی ترقی و عالمی ترقی کے لیے انتہائی اہم بھی ہے۔ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل براعظم ایشیا قوت خرید کے لحاظ سے عالمی پیداوارکا تقریباً ایک تہائی حصہ رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف نے ایشیا کے لیے 2025 کے لیے چار اعشاریہ چار فیصد شرح نمو کا تخمینہ لگایا ہے جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایشیا کے لیے اپنے چار اعشاریہ نو فیصد نموکے برقرار رہنے کی پیشگوئی کی ہے، جس سے عالمی معاشی توسیع کے ایک اہم محرک کے طور پر ایشیائی خطے کے کردارکی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس امید افزا نکتہ نظر کے باوجود، ایشیا کو مسلسل جغرافیائی سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں بڑھتی ہوئی تجارتی رکاوٹیں، عالمی تناؤ اور معاشی غیر یقینی کی صورتحال جیسے محرکات شامل ہیں۔ یہ سب وہ عوامل ہیں جو خطے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ جغرافیائی سیاسی تناؤکے درمیان، چین کی اقتصادی رفتار خطے میں استحکام کی علامت بنی ہوئی ہے۔ داخلی چیلنجوں اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نئے سرے سے دباؤ کے باوجود چین کی حکومت نے واضح اور مستقل پالیسی اپنا رکھی اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار سست نہ پڑے۔ چین مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی سرمایہ کاری کو وسعت دینے، بنیادی ڈھانچے اور تجارتی رابطوں کو مضبوط بنانے کے امکانات بھی پیش نظر رکھے ہوئے ہے۔
ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ امریکی حکومت درآمد کنندگان پرجو ٹیکس عائد کرتی ہے، اسے بالآخر امریکی صارفین ہی برداشت کرتے ہیں۔ حقائق نے بار بار ثابت کردیا ہے کہ تجارتی جنگ اور ٹیرف جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہے اور تجارتی تحفظ پسندی صرف ’’ نقصان‘‘ لاتی ہے، نہ کہ تحفظ۔ بیشتر ماہرین اقتصادیات کے مطابق اس خطرناک تجارتی اقدام سے معیشت کے بدحال ہو جانے اورکئی دہائیوں پرانے اتحادوں کو بھاری نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
گرتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ یا صارفین کی ناراضگی کے بارے میں انتباہی علامات کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا پسند نہیں کیا۔ محصولات کے حوالے سے بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاروں، صارفین اورکاروباری اداروں کا اعتماد ختم کر رہی ہے۔
فیڈرل ریزرو بینک آف اٹلانٹا کے ماہرین اقتصادیات نے کہا کہ ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ کارپوریٹ شعبے کے مالیاتی سربراہوں کو توقع ہے کہ اس سال قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور نئے کارکنوں کی بھرتی اور ترقی میں کمی ہوگی۔ پریشان سرمایہ کاروں نے ممکنہ نقصانات کے مدنظر اپنے اسٹاک کو جارحانہ طور پر فروخت کرنا شروع کردیا ہے۔ فروری کے وسط سے تقریباً پانچ ٹریلین امریکی ڈالرکا صفایا ہوچکا ہے۔ ٹرمپ کے اس اقدام سے ممکنہ طور پر ہر طرف سے جوابی کارروائی کا خدشہ بھی ہے۔ اس کے باوجود وائٹ ہاؤس نے اعتماد کا اظہارکیا ہے۔
گو ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’ سب سے پہلے امریکا‘‘ کے نعرے کو عملی شکل دینے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ ایک مضبوط رائے یہ بھی ہے کہ اس سے دنیا بھر میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے، اگر چین، یورپ اور دیگر ممالک تجارتی محاذ پر ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو امریکی معیشت کا عالمی تجارتی نظام میں کردار کم ہو جائے گا۔ مستقبل میں امریکا اور دیگر ممالک نئے تجارتی معاہدے کریں گے جس سے موجودہ حالات بدل جائیں گے اور نئی تجارتی پالیسیاں بننے لگیں گی۔ عالمی تجارت کو پر امن رکھنے کے لیے عالمی تنازعات کا حل بہت ضروری ہے، اگر جنگوں اور تنازعات کا ماحول برقرار رہا تو عالمی تجارت بھی متاثر ہوتی رہے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماہرین اقتصادیات میں اضافہ ہو عالمی تجارت تجارتی جنگ ڈونلڈ ٹرمپ اور تجارتی امریکی صدر کے باوجود فیصد ٹیرف سے عالمی ٹرمپ کے جائے گا کے ساتھ رہے ہیں سکتا ہے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
واشنگٹن کے ساتھ تجارتی سودے ہمارے کھاتے میں نہ کیے جائیں … چین کا انتباہ
واشنگٹن کے ساتھ تجارتی سودے ہمارے کھاتے میں نہ کیے جائیں … چین کا انتباہ WhatsAppFacebookTwitter 0 21 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ:اس طرح کی خبر گردش میں ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ دوسرے ممالک پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ چین کے ساتھ تجارت محدود کر دیں، جس کے بدلے میں انھیں امریکی کسٹم ٹیرف میں چھوٹ مل جائے گی۔ دوسری جانب بیجنگ حکومت نے اس پالیسی کو مسترد کر دیا ہے۔
چین کی وزارتِ تجارت نے پیر کے روز واضح کیا کہ وہ ان تمام فریقوں کا احترام کرتی ہے جو امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی و تجارتی تنازعات کو برابری کی بنیاد پر بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ ایسی کسی بھی ڈیل کی سخت مخالفت کرے گی جو چین کے مفادات پر ضرب لگائے۔
وزارت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر کوئی ملک ایسی ڈیل کرتا ہے جس کا مقصد چین کے ساتھ تجارتی روابط محدود کرنا ہو، تو چین اس کے خلاف مؤثر اور متبادل اقدامات کرے گا۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ “امریکہ نے اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر کسٹم ٹیرف کے نام پر یک طرفہ طور پر دباؤ ڈالا ہے، اور انہیں جبراً ایسے مذاکرات میں گھسیٹا ہے جنہیں وہ اہمی ٹیرف مذاکرات کا نام دے رہے ہیں”۔
چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے زور دیا کہ چین اپنے قانونی حقوق اور مفادات کے دفاع کے لیے پرعزم اور مکمل طور پر اہل ہے، وہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد و تعاون کو فروغ دینے کے لیے بھی تیار ہے۔
یہ سخت موقف ان خبروں کے بعد سامنے آیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایسے ممالک پر مالی پابندیاں عائد کرنے کا سوچ رہی ہے جو امریکہ سے کسٹم ٹیرف میں رعایت کے بدلے چین کے ساتھ تجارتی روابط کم نہیں کریں گے۔ یہ معلومات بلومبرگ نے با خبر ذرائع کے حوالے سے دیں۔
یاد رہے کہ امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے رواں ماہ کے آغاز میں بتایا تھا کہ تقریباً 50 ممالک نے امریکہ سے رابطہ کر کے اضافی کسٹم ٹیرف پر بات چیت کی خواہش ظاہر کی ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ نے 2 اپریل کو دنیا بھر کے دسیوں ممالک پر عائد تاریخی کسٹم ٹیرف کا نفاذ روک دیا تھا، البتہ چین پر عائد ٹیرف برقرار رکھا تھا، جو کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرہیٹ ویو کے خطرات؛ تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی تعطیلات کب ہوں گی؟ ہیٹ ویو کے خطرات؛ تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی تعطیلات کب ہوں گی؟ سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی اسرائیلی فوج نے فلسطینی امدادی کارکنوں کی ہلاکت کو پیشہ ورانہ ناکامی قرار دیدیا، ڈپٹی کمانڈربرطرف جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت آج ہوگی، پانچویں بار گواہان کی طلبی امریکا کا افریقا میں غیرضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غورCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم