السیسی سے ٹرمپ کی سات درخواستیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امریکی صدر نے مصر کے صدر سے پہلی درخواست یہ کی ہے کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے صحرائے سینا میں فوجی موجودگی اور تنصیبات ختم کر دینا کا مطالبہ مان لے اور وہاں سے مصر کی فوج باہر نکال لے۔ ٹرمپ کے بقول صحرائے سینا میں مصری فوج کی موجودگی کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اسرائیلی فوجی سربراہان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں مصر کی جانب سے اپنی بندرگاہوں اور ایئرپورٹس میں توسیع کے بارے میں بہت زیادہ رپورٹس شائع ہو رہی ہیں۔ ایک اعلی سطحی اسرائیلی فوجی عہدیدار نے صیہونی چینل 14کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل بیکار نہیں بیٹھے گا اور ان اقدامات کا جواب دے گا۔ مصر نے حال ہی میں جنوبی کوریا سے جدید ترین جنگی طیارے ایف اے 50 خریدنے کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔ یہ جنگی طیارے کئی لحاظ سے ایف 16 سے بھی زیادہ اعلی ہیں۔ تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)
ڈونلڈ ٹرمپ سمیت امریکہ کے اکثر صدور مملکت کو تیسرے ممالک کے لیڈران کو عید کے موقع پر مبارکباد پیش کرنے کی عادت بالکل بھی نہیں تھی اور خاص طور پر مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی جو ٹرمپ کی جانب سے امریکہ دورے کی دعوت اس لیے مسترد کر چکے ہیں کیونکہ امریکی صدر اس دورے میں ان پر اپنی ڈکٹیشن مسلط کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ مصر کے صدر نے عالمی استکبار امریکہ کو منع کر دیا اور غزہ کے عوام کی جبری جلاوطنی کے بارے میں بات چیت پر تیار نہیں ہوئے۔ وہ دوسرا زیلنسکی بننا نہیں چاہتے تھے اور انہیں اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کہ کون ان کی حمایت کرتا ہے اور کون ان کی مخالفت کرتا ہے۔ مصر کے صدر نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ کے صدر نے انہیں غیر متوقع طور پر ہنگامی فون کال کی اور ان سے کچھ درخواستیں بھی کی ہیں۔
بیانیے میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی صدر نے دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کو فروغ دینے اور مشرق وسطی کی صورتحال اور خطے میں امن و استحکام واپس لانے کے لیے ثالثی کا کردار جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ اس سے بحیرہ احمر میں کشتیوں کی آمدورفت پر اچھا اثر پڑے گا اور سب معاشی نقصان سے بچ جائیں گے۔ امریکہ کی جانب سے جاری کردہ سرکاری بیانیہ اس سے زیادہ واضح اور مختصر تھا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی صورتحال کا جائزہ لینے اور یمن میں انصاراللہ تحریک سے مقابلے پر زور دیا ہے۔ امریکہ کے مغرور صدر کی جانب سے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کو ہنگامی فون کال کرنے کی مختلف وجوہات ہیں اور اس نے عبدالفتاح السیسی سے کئی درخواستیں کی ہیں:
1)۔ امریکی صدر نے مصر کے صدر سے پہلی درخواست یہ کی ہے کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے صحرائے سینا میں فوجی موجودگی اور تنصیبات ختم کر دینا کا مطالبہ مان لے اور وہاں سے مصر کی فوج باہر نکال لے۔ ٹرمپ کے بقول صحرائے سینا میں مصری فوج کی موجودگی کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اسرائیلی فوجی سربراہان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
2)۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں مصر کی جانب سے اپنی بندرگاہوں اور ایئرپورٹس میں توسیع کے بارے میں بہت زیادہ رپورٹس شائع ہو رہی ہیں۔ ایک اعلی سطحی اسرائیلی فوجی عہدیدار نے صیہونی چینل 14کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل بیکار نہیں بیٹھے گا اور ان اقدامات کا جواب دے گا۔
3)۔ مصر نے حال ہی میں جنوبی کوریا سے جدید ترین جنگی طیارے ایف اے 50 خریدنے کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔ یہ جنگی طیارے کئی لحاظ سے ایف 16 سے بھی زیادہ اعلی ہیں۔
4)۔ یمن کے مختلف شہروں جیسے دارالحکومت صنعا، صعدہ اور حدیدہ پر امریکہ کے فضائی حملے اب تک کامیاب ثابت نہیں ہو سکے اور مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے جبکہ بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب اب بھی اسرائیل اور اس کے حامیوں کی تجارتی کشتیوں کے لیے بند ہے۔ اسی طرح امریکی جنگی بحری بیڑہ ہیری ٹرومین بھی یمنی مجاہدین کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مصر کی نیوی اور ایئرفورس سے یمن کے حوثی مجاہدین کے خلاف مدد لینے کا خواہاں ہے۔
5)۔ غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی دوبارہ شروع ہونے پر مصر کے عوام میں شدید غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔ چند دن پہلے مصر میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف شدید مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ لہذا مصر میں اسرائیل کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک جنم لینے کا امکان پایا جاتا ہے۔
6)۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ سے فلسطینیوں کی جبری جلاوطنی کا منصوبہ بنا رکھا ہے جبکہ مصر نے اس کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ شاید امریکی صدر مصر کی منت سماجت کر کے یا ڈرا دھمکا کر اسے یہ منصوبہ ماننے پر مجبور کرنا چاہتا ہے اور یہ ہنگامی فون کال اس مقصد کے حصول کی آخری کوشش ہے۔ اسی طرح ممکن ہے امریکی صدر نے مصر کو یہ منصوبہ قبول نہ کرنے کی صورت میں فوجی اور مالی امداد بند کر دینے کی دھمکی بھی دی ہو۔
7)۔ مصر اور ایران کے درمیان تعلقات بھی بہتری کی جانب گامزن ہیں اور امریکی صدر اس بارے میں بھی تشویش کا شکار ہے۔ امریکی صدر چاہتا ہے کہ مصر ایران کے خلاف امریکی کیمپ میں باقی رہے اور ایران پر دباو ڈالنے میں مدد فراہم کرے۔
میری نظر میں مصر امریکہ کو اپنی قومی سلامتی سے مربوط امور میں مداخلت کی ہر گز اجازت نہیں دے گا۔ صحرائے سینا سے فوجی تنصیبات ختم کر دینے کا مطالبہ مصر کی قومی سلامتی سے ٹکراتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کی صیہونی رژیم کو معلوم ہونا چاہیے کہ مصر ایک بڑا ملک ہے اور اس کی 8 ہزار سال پر مبنی پرانی تاریخ ہے جس کے مقابلے میں امریکہ کی تاریخ صرف 300 سال جبکہ صیہونی رژیم کی عمر محض 76 برس ہے۔ جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امریکہ اور اسرائیل کی شہہ پر یمن کے خلاف فوجی جارحیت شروع کی تھی تب بھی مصر نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مصر ہی وہ عرب ملک ہے جس نے 10 اکتوبر 1973ء کے دن اسرائیل کو شکست دی تھی۔ لہذا اب وہ ایک بار پھر اسے شکست کا مزہ چکھا سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوجی امریکی صدر نے صیہونی رژیم اور اسرائیل جنگی طیارے ڈونلڈ ٹرمپ مصر کے صدر کی جانب سے امریکہ کے کے خلاف ہے اور کے لیے اور ان اور اس مصر کی
پڑھیں:
عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بین الاقوامی مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ جب بھی ملک میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہوتی ہے، عالمی طاقتیں خصوصاً امریکی حکومت اپنی خارجہ پالیسی کے تحت مداخلت کرتی نظر آتی ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد کے سیاسی حالات نے عالمی سطح پر خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا عمران خان کی رہائی کے لیے امریکہ کسی قسم کا دبائو ڈال رہا ہے؟ اگر ہاں، تو اس دبائو کی نوعیت، وجوہات اور ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
امریکہ کا جنوبی ایشیا میں ایک اہم اسٹرٹیجک کردار ہے۔ پاکستان ایک نیوکلیئر ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے حوالے سے بھی اہم جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک روٹ نے اس اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے، عمران خان کی بطور وزیراعظم خارجہ پالیسی نسبتاًخود مختار اور مغرب سے کچھ فاصلہ رکھنے کی حامل رہی، جس میں چین، روس اور اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کو کسی حد تک فوقیت دینے کی کوشش کی گئی۔ ان پالیسیوں نے واشنگٹن میں کچھ حلقوں کو پریشان ضرور کیا، مگر عمران خان کی مقبولیت اور عوامی حمایت نے انہیں نظر انداز کرنا مشکل بنا دیا۔
امریکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور ان پر مقدمات کو اکثر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں متنازع قرار دیتی رہی ہیں۔ اس تناظر میں امریکی حکام نے کچھ مواقع پر پاکستان کی حکومت سے انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جسے عمران خان کے حامی ان کی ’’رہائی کے لیے دبائو‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اس حوالے سے تاحال یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
حال ہی میں امریکی کانگریس کے رکن جیک برگ مین کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کے کانگریسی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، جسے مبصرین نے عمران خان کے کیس اور انسانی حقوق کی صورتحال کے تناظر میں خاصی اہمیت دی۔ اس وفد نے حکومتی و عسکری حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں سیاسی استحکام، عدالتی شفافیت اور انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کی تفصیلات مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں، لیکن بعض ذرائع یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ عمران خان کی طویل قید اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر بھی غیر رسمی طور پر گفتگو کی گئی۔ اس دورے کو عمران خان کی رہائی کے لیے عالمی دبا ئو کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ میں کئی قانون ساز اور ٹرمپ ٹیم کے کچھ لوگ اپنے ٹویٹس اور بیانات میں عمران خان کی حراست کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دے چکے ہیں۔
کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ پسِ پردہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ ایسے رابطے رکھتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان جیسے مقبول لیڈر کی جیل میں موجودگی پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو غیر متوازن کر دے، جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو۔ امریکہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے کسی ’’نرم مداخلت‘‘ کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔
اگر واقعی امریکہ عمران خان کی رہائی کے لیے دبائو ڈال رہا ہے تو اس کے دو بڑے اثرات ہوسکتے ہیں۔
-1سیاسی ریلیف: عمران خان کو کسی عدالتی یا سیاسی ڈیل کے ذریعے ریلیف مل سکتا ہے، جس سے وہ ایک بار پھر سیاسی میدان میں فعال ہو جائیں گے۔
-2 عوامی تاثر: امریکی دبائو سے رہائی کی صورت میں عمران خان کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ ’’ بین الاقوامی حمایت رکھنے والے قومی لیڈر‘‘کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی دبائو ایک حقیقت بھی ہو سکتا ہے اور محض سیاسی بیانیہ بھی۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ عمران خان کی شخصیت اور مقبولیت نے پاکستان کی سیاست کو عالمی سطح پر ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر عمران خان کو رہائی ملتی ہے، تو یہ جانچنا ضروری ہوگا کہ اس میں بین الاقوامی سفارت کاری کا کتنا عمل دخل تھا۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو خود عمران خان اور ان کی سیاست کیلئے مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے، کپتان کی سیاست کی بنیاد ان کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں بین الاقوامی مداخلت نہیں ہونی چاہیئے، اس حوالے سے ایک جلسہ عام میں مبینہ سائفر لہرانا ایک بڑا واقعہ تھا، لیکن اگر اب وہ خود امریکی دبا ئوکے ذریعے جیل سے رہائی پاتے ہیں یا اقتدار میں واپس آتے ہیں تو یہ عمل خود ان کے اپنے بیانیہ کی نفی ہوگا۔
دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ جیک برگ مین کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی وفد نے عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، حکومت اسے دوٹوک انداز میں پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب ایسے دو اندرونی معاملات میں پہلے بھی مداخلت کرچکے ہیں، میاں نواز شریف کے حوالے سے سعودی عرب نے دوبار مداخلت کی اور دونوں بار انہیں جیل سے رہائی پاکر بیرون ملک جانے کی سہولت مہیا کی گئی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کیلئے اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے ساتھ ان کی ڈیل کروانے میں بھی امریکہ کا کردار نمایاں رہا، اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی بھی وقت کوئی بھی معاملہ طے پا سکتا ہے اور اس میں گارنٹر کا کردار کون ادا کرتا ہے یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا، تاہم اس حوالے سے 3ممالک امریکہ ، سعودی عرب اور چین کا نام لیا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم باالصواب