امیتابھ بچن کی پہلی محبت کون؟ نوجوانی کی اَن سنی محبت کا راز فاش
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
بالی ووڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن کی محبت کی داستان ہمیشہ سے فلمی دنیا کی دلچسپ ترین کہانیوں میں سے ایک رہی ہے۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ ان کی زندگی میں جیا بچن اور ریکھا کا خاص مقام رہا، اب ایک نئے انکشاف نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔
سینئر صحافی حنیف زویری نے اپنے پوڈکاسٹ ’میری سہیلی‘ میں انکشاف کیا کہ جیا بچن سے شادی اور ریکھا سے تعلقات سے بہت پہلے، امیتابھ کولکتہ میں ایک عام نوکری کرتے وقت مایا نامی لڑکی سے پیار کر بیٹھے تھے۔ اس وقت بچن صرف 250-300 روپے ماہانہ کماتے تھے۔
مایا برٹش ایئرویز میں ملازم تھیں اور دونوں کا یہ رشتہ کافی عرصہ چلا۔ حنیف کے مطابق، ’’مایا بھی امیتابھ سے بہت پیار کرتی تھی اور وہ اکثر ملتے تھے۔‘‘ لیکن جب امیتابھ نے اداکار بننے کا فیصلہ کیا اور ممبئی چلے گئے، تو معاملات پیچیدہ ہونے لگے۔
ممبئی میں امیتابھ اپنی والدہ تیجی بچن کی ایک دوست کے بنگلے میں رہنے لگے۔ حنیف بتاتے ہیں، ’’مایا وہاں امیتابھ سے ملنے آتی تھیں، لیکن بچن ڈرتے تھے کہ کہیں ان کی والدہ کو ان کے تعلقات کا پتہ نہ چل جائے۔‘‘ یہی وہ وقت تھا جب انور علی نے امیتابھ کو اپنے بھائی محمود علی کے گھر میں پناہ دی۔
دلچسپ بات یہ کہ دونوں کی شخصیات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ حنیف کے الفاظ میں، ’’امیتابھ شرمیلے تھے جبکہ مایا بہت بولڈ تھیں۔‘‘ آخرکار انور علی کے مشورے پر امیتابھ نے مایا سے دوری اختیار کرلی اور یوں یہ رشتہ ختم ہوگیا۔
یہ کہانی اس لحاظ سے بھی دلچسپ ہے کہ اگر امیتابھ نے مایا سے شادی کرلی ہوتی، تو شاید ہندی سنیما کو وہ بگ بی کبھی نہ ملتا جو آج ہم جانتے ہیں۔ جیا بچن سے ان کی شادی نے نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کو استحکام دیا بلکہ ان کے کیریئر کو بھی نئی راہیں دکھائیں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
چولستان میں پہلی بار نایاب کیراکل بلی کی موجودگی؛ ویڈیو سامنے آ گئی
لاہور:چولستان کے ریگزاروں میں آج ایک تاریخی صبح کا آغاز ہوا، جب پہلی بار ایک نایاب جنگلی جانور کیراکل بلی کو قدرتی ماحول میں شکار کی تیاری کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
یہ نایاب منظر اس وقت مزید دلکش بن گیا، جب کیراکل بلی کے آس پاس چنکارہ ہرنوں کا ایک ریوڑ بھی موجود تھا۔
واضح رہے کہ کیراکل بلی پاکستان میں معدومی کے خطرے سے دوچار جنگلی جانوروں میں شامل ہے اور اسے عموماً دیکھنا نہایت مشکل ہوتا ہے، خصوصاً چولستان جیسے خشک و نیم صحرائی علاقوں میں۔
اس کی موجودگی نہ صرف چولستان کے ماحولیاتی نظام کی صحت کی علامت ہے بلکہ وائلڈ لائف کی مسلسل نگرانی اور تحفظ کی کوششوں کا نتیجہ بھی ہے۔
اسسٹنٹ کنزرویٹر وائلڈ لائف رحیم یار خان مجاہد کلیم نے بتایا کہ یہ لمحہ ان کے کیریئر کا ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا اور یہ قدرتی مناظر ہر فطرت دوست اور وائلڈ لائف اہلکار کے لیے خوشی کا باعث ہوتے ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے اس نایاب مشاہدے کو محفوظ کر کے مستقبل کی تحقیق اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔