اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیراعظم شہبازشریف نے  کہا ہے کہ حکومت سنبھالی تو ہمیں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا،پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے دن رات کوششیں کی گئیں، معیشت میں بنیادی استحکام آ چکا ہے،آرمی چیف اور ان کے رفقا کا معاشی استحکام کیلئے بھرپور تعاون رہا۔

اسلام آباد میں بجلی کے نرخوں میں کمی کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم  شہبازشریف نے کہاکہ حکومت سنبھالی تو ملک پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹک رہی تھی،حکومت سنبھالی تو ہمیں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا،ملک میں عدم استحکام عروج پر تھا،آئی ایم ایف بات سننے کو تیار نہیں تھا، کاروباری حضرات ، پوری قوم خوفزدہ تھی کہ حالات کس کروٹ بیٹھیں گے،ہمیں کئی چیلنجز کا سامنا کرناپڑا، پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے دن رات کوششیں کی گئیں،ایندھن، بنیادی ضروریات کی امپورٹس، ایل سیز کھولنے کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، بجلی کے کارخانے چلانے کیلئے پیسے نہیں ہوتے تھے،ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے دن رات کوششیں ہورہی تھیں، ان میں پہاڑ نما رکاوٹیں کھڑی کی گئیں،مخصوص ٹولے نے اپنی سیاست پر ریاست کے مفادات کو قربان کیا،یہ ٹولہ تمام حدیں پار کر گیا،یہ وہی ٹولہ ہے جس سے آئی ایم ایف سے کئے معاہدے کو خود توڑا۔

کرکٹرسرفراز احمد کی شادی کی تاریخ 3 بار کیوں تبدیل ہوئی؟

وزیراعظم کاکہناتھا کہ معاشی استحکام کی راہ میں پہاڑ جیسی رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں،بجلی کے بل آنے پر لوگوں کے گھروں  میں غصہ اورافسردگی کا عالم تھا، ہمیں عام آدمی کی قربانیوں کو نہیں بھولنا چاہئے، عوام نے پچھلے مرحلے میں بہت قربانیاں دی ہیں،ان کاکہناتھا کہ  پاکستان دیوالیہ سے بچ گیا، دن رات کی محنت اس مالک حقیقی نے منظور کرلی،معیشت میں بنیادی استحکام آ چکا ہے،آرمی چیف اور ان کے رفقا کا معاشی استحکام کیلئے بھرپور تعاون رہا، قوم کیلئے عید کا تحفہ پیش کررہا ہوں،ملک کی ترقی و خوشحالی کا سفر جاری ہوا چاہتا ہے، معاشی میدان میں کامیابیوں کا سلسلہ آگے بڑھا رہے ہیں،اللہ کا فضل ہوا اور ملک دیوالیہ سے بچ گیا، ایک سال میں ہم نے سخت فیصلے کئے،ہم منزل کی جانب تیزی سے قدم بڑھا رہے ہیں،مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آ چکی ہے، ایک سال میں پیٹرول کی قیمت میں 38روپے تک کی کمی آئی،پورے خطے میں پیٹرول کی قیمت پاکستان میں سب سے کم ہے،نجکاری اور رائٹ سائزنگ کڑے فیصلوں کی کڑی ہے جو ہمیں کرنے ہیں،آئی ایم ایف کے پروگرام کے ہوتے ہوئے آپ کو کوئی سبسڈی نہیں دی جا سکتی، شرح سود 22فیصد سے کم ہو کر 12فیصد ہو چکا ہے،بہت جلد صنعتکاروں سے میٹنگز کا سلسلہ شروع کرنے جا رہا ہوں،

کراچی میں جمعہ اور ہفتے کے روزگرمی کی شدت میں اضافے کا امکان

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: ہمیں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا کی گئیں

پڑھیں:

پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ

اسلام ٹائمز: ضیاءالحق کے دور میں اقتدار کی سیاست نے ریاستی سطح پر فرقہ واریت کو فروغ دیا اور اس ماحول میں ایران مخالف بیانیے کو باقاعدہ پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ انقلاب اسلامی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا، جسکے نتیجے میں پاکستان کی شیعہ آبادی پر دباؤ بڑھا اور فرقہ وارانہ گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔ بیک وقت، ایران کے ساتھ رسمی تعلقات کا ظاہری تاثر بھی قائم رکھا گیا۔ یہ دوہری اور متضاد حکمت عملی نہ صرف داخلی ہم آہنگی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی، بلکہ ایران کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات بھی مجروح ہوئے۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

پاکستان اور ایران کے بلوچستان و سیستان کے سرحدی علاقے طویل عرصے سے دہشتگردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہیں، جہاں دونوں ممالک کو یکساں نوعیت کے خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم، ان کے درمیان دہشتگردی کیخلاف مؤثر تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کی واضح کمی ہے۔ باہمی اعتماد، معلومات کا تبادلہ اور عملی اشتراک جیسے بنیادی تقاضے اب تک مکمل طور پر قائم نہیں ہوسکے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً اعلیٰ سطحی وفود کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، لیکن ان ملاقاتوں کے نتائج دیرپا اور مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جانب وقتاً فوقتاً ناخوشگوار اور خونریز واقعات جنم لیتے ہیں، جنہیں رسمی بیانات سے نہیں بلکہ سنجیدہ، مربوط اور عملی اقدامات کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان کیساتھ اس کے تعلقات میں بتدریج سرد مہری پیدا ہوئی۔ اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ایران کا امریکہ مخالف مؤقف تھا، جبکہ پاکستان اُس وقت افغان جہاد کے تناظر میں امریکی بلاک کا فعال رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس دور میں مکمل طور پر امریکی اثر و نفوذ کے تحت آچکی تھی، جبکہ ایران میں انقلاب کے بعد شدید امریکہ دشمنی غالب آچکی تھی۔ یہ نظریاتی تفاوت دونوں ممالک کے درمیان فاصلے کا باعث بنا۔ عرب ممالک نے بھی انقلاب اسلامی کو شک کی نظر سے دیکھا اور چونکہ پاکستان کے ان سے تاریخی طور پر نیازمندانہ تعلقات تھے، اس لیے ان کے تحفظات نے بھی ایران سے روابط پر منفی اثر ڈالا۔

ضیاءالحق کے دور میں اقتدار کی سیاست نے ریاستی سطح پر فرقہ واریت کو فروغ دیا اور اس ماحول میں ایران مخالف بیانیے کو باقاعدہ پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ انقلاب اسلامی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کی شیعہ آبادی پر دباؤ بڑھا اور فرقہ وارانہ گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔ بیک وقت، ایران کے ساتھ رسمی تعلقات کا ظاہری تاثر بھی قائم رکھا گیا۔ یہ دوہری اور متضاد حکمت عملی نہ صرف داخلی ہم آہنگی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی، بلکہ ایران کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات بھی مجروح ہوئے۔ آج بھی ایران اور پاکستان کے تعلقات میں کئی داخلی و خارجی عوامل حساسیت اور پیچیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

علاقائی سیاست، بین الاقوامی دباؤ اور بعض مذہبی گروہوں کا کردار ان رکاوٹوں کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ اگرچہ دونوں طرف سے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار ہوتا رہتا ہے، لیکن کبھی خارجی دباؤ، کبھی داخلی پالیسیاں اور کبھی سکیورٹی خدشات اس راہ میں حائل رہتے ہیں۔ ماضی کے داخلی و خارجی اسباب آج بھی مؤثر ہیں، تاہم چند نئی پیچیدگیاں بھی جنم لے چکی ہیں۔ عرب ممالک، امریکہ اور بعض عالمی معاہدات کی نوعیت پاکستان پر مستقل دباؤ ڈالتی ہے، جبکہ ایران پر عائد عالمی پابندیاں دونوں ممالک کے تعلقات کو محدود رکھتی ہیں۔ داخلی طور پر مذہبی فرقہ واریت ایک مستقل رکاوٹ ہے، جس کے باعث پاکستان کی شیعہ آبادی، خصوصاً پاراچنار جیسے علاقوں میں، غیر ضروری ریاستی حساسیت کا سامنا کرتی ہے۔

بعض مذہبی و سیاسی گروہ دانستہ طور پر ان علاقوں کے مقامی مسائل کو ایران سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ریاستی اداروں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ نتیجتاً مقامی آبادی محاصروں، نقل و حرکت کی بندش اور دیگر مشکلات کا شکار بنتی ہے، حالانکہ ان علاقوں میں بیشتر مسائل کی بنیاد زمینی تنازعات پر ہے اور وہاں شیعہ سنی ہم آہنگی کے باعث اکثر فرقہ وارانہ مسائل حل ہوچکے ہیں۔ ریاستی حساسیت کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پالیسی ساز زمینی حقائق اور مقامی مصالحتی کوششوں کو بنیاد بنائیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں کوئی ناقابلِ عبور رکاوٹ موجود نہیں۔ اگر دونوں ممالک چاہیں تو دہشت گردی جیسے مشترکہ خطرات کے خلاف ایک ہم آہنگ، مربوط اور مؤثر پالیسی ترتیب دے سکتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں سرگرم شدت پسند گروہ دونوں جانب بدامنی پھیلانے کیلئے ایک دوسرے کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔

ایرانی بلوچستان میں سکیورٹی کیلئے سب سے زیادہ وسائل صرف ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان کا بلوچستان سیاسی اور ریاستی بحرانوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ایک طرف بدامنی کا مطلب لازماً دوسری طرف اس کا اثر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایران اور پاکستان مشترکہ فورس، انٹیلی جنس نظام اور سکیورٹی معاہدات کے ذریعے سرحدی امن کیلئے مکمل اشتراکِ عمل کریں اور اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے باشعور طبقات، پالیسی ساز ادارے اور سیاسی قیادت ان تلخ تجربات کو دشمنی کا ذریعہ بنانے کے بجائے مفاہمت اور تعاون کا نقطۂ آغاز بنائیں۔ دو طرفہ مفاہمت نہ صرف علاقائی امن کی بنیاد رکھ سکتی ہے، بلکہ اسلامی دنیا میں وحدت اور باہمی احترام کی ایک قابلِ تقلید مثال بھی قائم کرسکتی ہے۔ صحافی : تصور حسین شہزاد

متعلقہ مضامین

  • وفاقی حکومت نے پاکستان کے نوجوانوں کی سماجی و معاشی خودمختاری کے لیے درجنوں پروگرامز شروع کیے ہیں،چیئرمین یوتھ پروگرام رانا مشہود
  • پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات  بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں، وزیراعظم کا خراج تحسین
  • معاشی استحکام کے مثبت اثرات پاکستان اسٹاک مارکیٹ پر کیسے مرتب ہورہے ہیں؟
  • افغانستان پولیو ختم کرنے کیلئے پاکستان سے بہتر کوششیں کر رہا ہے، مصطفی کمال  
  • حکمران عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں، حکومت کے پاس مینڈیٹ ہی نہیں، عمر ایوب
  • پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ
  • افغانستان پولیو ختم کرنے کیلئے پاکستان سے بہتر کوششیں کررہا ہے، مصطفیٰ کمال
  • سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں. اسد عمر
  • معاشی استحکام حقیقی لیکن یہ عالمی منڈی کا مرہون منت ہے: مفتاح اسماعیل 
  • حکومت کینالزمنصوبہ روکے ورنہ پی پی آپ کیساتھ نہیں چلےگی، ہم سندھ اور وفاق بچانے کیلئے نکلے ہیں،بلاول بھٹو