Daily Ausaf:
2025-04-22@07:18:09 GMT

اپنی کایا پلٹنا

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

سنسنی خیز کہانیاں خوب بکتی ہیں۔ جو چیزیں ہمارے وجود میں جتنی تھرتھلی مچاتی ہیں وہ ہمیں اتنا ہی زیادہ متاثر کرتی ہیں اور ان کے اثرات ہم پر تادیر قائم رہتے ہیں، بلکہ کچھ چیزیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ وہ زندگی بھر ہمارے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ایسی کہانیاں اور حکایات وغیرہ لکھنے والے مصنفین ان سے ذاتی طور پر گزرے ہوتے ہیں یا ان کا تخیل اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ ایسی کہانیاں خود تخلیق کر لیتے ہیں۔
یہ کہانیاں زندگی کا ایسا تجربہ بیان کرتی ہیں کہ جس سے لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ کایا پلٹنے کو انگریزی زبان میں ’’ٹرانسفارم‘‘ (Transform) کہتے ہیں۔ انگریزی کا لفظ ٹرانسفارم بہت خوبصورت اور متاثرکن ہے جس کا مطلب یکسر تبدیل ہو جانا ہے یعنی ایک چیز یا رویئے کا کسی دوسری چیز یا رویئے میں بدلنا ٹرانسفارم کہلاتا ہے۔ اس انگریزی لفظ کا متبادل لفظ ’’کنورٹ (Convert)‘‘ بھی ہے جس کا مفہوم بھی کسی چیز یا فرد کے تبدیل ہونے جیسا ہی ہے مگر جو تاثر سننے اور پڑھنے والے پر لفظ ٹرانسفارم قائم کرتا ہے اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
ٹرانسفارم یا کایا پلٹنے کے الفاظ کو قسمت کے بدلنے کے اصطلاحی معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم ٹرانسفارم یا کایا پلٹنے کا عمل چند ایسے خاص واقعات اور تجربات سے جڑا ہوتا ہے کہ جس کے بعد انسان ناچاہتے ہوئے بھی خود کو تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں کچھ ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جن کے گہرے اثرات اس کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دیتے ہیں۔ ایسے واقعات یا تجربات ان لوگوں کے لئے کسی رحمت سے کم نہیں ہوتے جو ان کے لئے کوئی ’’انقلابی تبدیلی‘‘ لے کر آتے ہیں۔ بہت سے لوگ بری عادات کا شکار ہوتے ہیں یا ان کی زندگی منفی اور غیرتعمیری سرگرمیوں سے بھری پڑی ہوتی ہے مگر ایک دن یا لمحہ ایسا آتا ہے کہ کبھی ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے، وہ کوئی اچھی کتاب پڑھتے ہیں، ان کی ملاقات کسی متاثرکن شخصیت سے ہوتی ہے یا خود ہی کسی موڑ پر ان کی سوچ ایسی بدلتی ہے کہ مستقبل میں ان کی زندگی ایک نیا جنم لے کر ابھرتی ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ جیسے اچانک ان کی کایا پلٹ گئی ہو۔
اپنی روزمرہ کی زندگی میں آپ نے بہت سے ایسے برے، ظالم اور نشہ وغیرہ کے عادی لوگوں کو دیکھا ہو گا اور ان میں سے بعض کو یکسر بدلتے بھی دیکھا ہو گا۔ ہمارے کچھ شوبز کے لوگ، گلوکار اور کھلاڑی وغیرہ دینی خدمت کے کام کرنے لگے تو خود ان کی زندگی ٹرانسفارم ہو گئی یعنی ان کی کایا (اور قسمت) پلٹ گئی۔ وہ زندگی کے ایک شعبے سے نکل کر زندگی کے دوسرے شعبے میں آ گئے اور خوب نام اور عزت کمائی۔ تاریخ میں ایسی بے شمار شخصیات کا ذکر ملتا ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی کی مصروفیات اور معمولات کو مکمل طور پر تبدیل کیا۔ اس میں ایک شخصیت بنو امیہ کے اسلامی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کی بھی ہے جو شہزادے تھے تو مکمل طور پر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے اور جب ’’اسلامی خلافت‘‘ کا بوجھ کندھوں پر آن پڑا تو بالکل سادہ زندگی اختیار کر لی اور پوری زندگی ایک ہی لباس میں گزار دی۔
اسی طرح بدھ مت کا بانی بدھا بھی ایک شہزادہ تھا جس کو کسی ایک واقعہ نے ایسا تبدیل کیا کہ اس کی’’کایا پلٹ گئی‘‘ اور اس نے شہزادگی کو چھوڑ کر اپنی بقیہ پوری زندگی غوروفکر اور انسانوں کی خدمت کرتے ہوئے گزار دی۔ تصوراتی دنیا کا ایک اپنا الگ ہی رنگ ہوتا ہے۔ سنی سنائی کہانیوں میں الجھنے کی بجائے اپنے من کی دنیا میں ڈوبنا ایک زیادہ بہتر اور گہرا ’’روحانی تجربہ‘‘ ہے جس کے بارے علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ، ’’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی، تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔‘‘ انسان کے اندر کی دنیا ایک مکمل جہاں ہے۔ مجھے ایسی کیفیات بہت اچھی لگتی ہیں جو مجھے خود سے بیگانہ کر دیتی ہیں اور مجھے میرے اندر کی دنیا سے روشناس کراتی ہیں۔ ایسی کیفیات خود کو بدلنے اور اپنی کایا پلٹنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔ میں بچپن میں خود کو ٹرانسفارم کرنے کے لئے بزرگوں اور عالم فاضل لوگوں کی محفل میں بیٹھا کرتا تھا یا سوچنے اور غوروفکر کرنے کے لئے ویرانے میں نکل جایا کرتا تھا۔ اس وجہ سے میں تنہائی کو بھی بہت پسند کرتا ہوں۔ اس دوران میں خود کو وقت دیتا ہوں، اپنے ماضی اور حال سے باتیں کرتا ہوں اور ان کی روشنی میں اپنے مستقبل کی کچھ پرچھائیاں دیکھ لیتا ہوں۔
تنہائی کا ایک حیرت انگیز فائدہ یہ ہے اس سے بھرپور تجسس اور پراسراریت پیدا ہوتی ہے۔ اس دوران ہمارے ذہن میں عجیب و غریب قسم کی جستجو ابھرتی ہے کہ انسان خود ہی سوالات کرتا ہے اور خود ہی ان کے جوابات ڈھونڈتا ہے جس سے بعض اوقات اس کی دنیا بدل جاتی ہے یعنی وہ ٹرانسفارم ہو جاتا ہے اور اس کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ خود کو تبدیل کرنے والے ایسے نایاب لوگ نہ صرف اپنی کایا پلٹتے ہیں بلکہ کچھ قابل گوہر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کی قسمت بھی بدل دیتے ہیں۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنی زندگی کی کایا خود پلٹتے ہیں۔ کایا پلٹنا یا خود کو ٹرانسفارم کرنا ایسا خوبصورت عمل ہے جس کے بعد انسان کو ’’اطمینان قلب‘‘ حاصل ہوتا ہے۔ آپ مطالعہ کریں، مجبور لوگوں کی خدمت کریں اور اچھے لوگوں سے دوستی کریں آپ کی کایا پلٹنا شروع ہو جائے گی۔ دنیا کے عظیم الشان لوگ وہی ہیں جو خود کو وقت دیتے ہیں جس سے انہیں پتہ چلتا رہتا ہے کہ ان کی زندگی کس طرف جا رہی ہے۔ ان کی زندگی کی سمت درست ہے یا غلط ہے؟ ایسے خوش نصیب لوگ نا صرف اپنی زندگی میں مثبت اور تعمیری تبدیلی لاتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کی زندگیاں بھی بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی پوری پوری زندگیاں اس نیک مقصد کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ان کی زندگی دیتے ہیں ہوتے ہیں کی دنیا ہوتا ہے ہیں کہ خود کو اور ان کے لئے

پڑھیں:

سوشل میڈیا کی ڈگڈگی

تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی عجب نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک نقلی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے، ’’ دنیا بدل گئی ہے‘‘ جب کہ ذاتی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کبھی بدل نہیں سکتی ہے۔

دنیا ویسی ہی ہے، زمین، آسمان، سورج، چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں اور جانوروں کے رہائش کی وسیع و عریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔

البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی یہ تبدیلی اس قدر جادوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے جُڑی ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔

تبدیلی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اس دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

جس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات اور واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر نئے دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اُن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں،

 Millennials, G i generation, Lost generation, Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation,

Generation Z

یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اُس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے والوں سے قدرے مختلف ہے تو اُن کی تفریح کے ذرائع پھر کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں۔تاریخِ انسانی کے اوائل میں مخلوقِ بشر داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سُن کر اپنے تصور میں ایک افسانوی جہاں تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتی تھی، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتی تھی۔

چونکہ انسان اپنی ہر شے سے چاہے وہ فانی ہو یا لافانی بہت جلد اُکتا جاتا ہے لٰہذا جب کہانیاں سُن سُن کر اُس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اُسے اس کام میں بھی خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے، ویسا خمارکہانی سننے میں کہاں میسر آتا ہے مگر انسان کی بے چین طبیعت نے اس شوق سے بھی زیادہ عرصے تک اُس کا جی بہلنے نہ دیا اور بہت جلد وہ داستان گوئی سے بھی بیزار ہوگیا پھر وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، جن کی بدولت’’ ڈیجیٹل فرینڈ شپ‘‘ کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔

زمانہ حال کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ماضی کے اُنھی انٹرنیٹ چیٹ رومز کی جدید شکل ہیں، ان بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا بیشمار قیمتی وقت ان پر کثرت سے ضایع کر رہا ہے۔ پہلے پہل انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سُنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر ہر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ کہانی کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اور کہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا سماج۔

دورِ حاضر کا انسان عقل و شعور کے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر طبیعتاً وہ بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی ہے وہیں اُسے انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ہے۔

زمانہ حال کا انسان سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پُر آسائش زندگیوں سے یہ سوچے بغیر متاثر ہو جاتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اُڑا کر اُس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے جو وہ حقیقت میں ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔

سوشل میڈیا پر بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوشل میڈیا پرستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے، دراصل یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔

حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے، اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔جب کوئی فرد کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے تو اُسے استقبالیہ پر ایک مکھوٹا پیش کیا جاتا ہے جسے عقلمند انسان فوراً توڑ دیتا ہے جب کہ بے عقل اپنی شخصیت کا اہم جُز بنا لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تب اپنی اندرونی کیفیات کو من و عن ظاہرکردیتا ہے جب کہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پنی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا اپنے صارفین کو اُن کے آپسی اختلافات کے دوران حریفِ مقابل پر اقوالِ زریں کی مار کا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے، ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اُدھر طنز کی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اُس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔

انسان کو سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی دنیا والوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے، کڑواہٹ سب کی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب گردانے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی غرض سے وجود میں لائے گئے تھے۔

چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کرکے اُس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑ کر اُس کی منفیت کو منظرعام پر لانے میں کمال مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا تب تک وہ بندر کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا اور قوم بنی نوع انسان کا تماشا بنواتا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • سنیتا مارشل کی ماہرہ خان سے مشابہت، ماجراہ کیا؟
  • Rich Dad -- Poor Dad
  • کراچی میں رواں سال کے 110 روز میں مجموعی ٹریفک حادثات میں 289 شہری جاں بحق
  • حیا
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • ڈیتھ بیڈ
  • بات ہے رسوائی کی
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
  • تسخیر کائنات اور سائنسی ترقی کا لازم فریضہ