مقبولیت کا زعم احتسابی شکنجے میں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
گزشتہ دنوں فرانس سے ایک اہم خبر آئی ہے۔ اس خبر کا تعلق قانون کی بالادستی اور با اثر سیاسی طبقات کے احتساب سے ہے۔ فرانس میں دائیں بازو کی مشہور لیڈر میری لی پین کو نہ صرف کہ مالی بد دیانتی کے الزامات ثابت ہونے پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہے بلکہ چار سال قید کی سزا بھی سنا دی گئی ہے۔ اس چار سال کی مدت میں میرین لی پین کسی قسم کی سیاسی سرگرمی اور انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکے گی۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ پاکستان میں بھی اس خبر پر متفرق آرا ء پائی جاتی ہیں۔میرین لی پین سے پہلے یورپ میں مقبول لیڈرز خاص طور پر دائیں بازو کی جماعتوں کی قیادت کو احتساب کے دائرے میں لانے کا رواج بہت کم تھا۔ فرانس میں میرین لی پین کو سزا ملنا اس کا ثبوت ہے کہ دنیا اب بدل رہی ہے، اور انصاف کے شکنجے میں مقبول لیڈر بھی کسے جا رہے ہیں۔ وہ زمانہ اب رخصت ہوا جب لیڈر اپنے اندھے پیروکاروں کے ذریعے ریاستوں کو بلیک میل کرتے تھے۔
ایک زمانہ تھا جب یورپ اور امریکہ میں دائیں بازو کے انتہا پسند اور پاپولسٹ لیڈرز قانون سے بالا تر سمجھے جاتے تھے۔ ان کے بیانیے، عوامی مقبولیت اور میڈیا پر دسترس کے باعث انہیں سزا دینا تو درکنار مقدمہ درج کرانا بھی مشکل ہوتا تھا۔ کم و بیش ایسی ہی صورتحال پاکستان میں بھی بن چکی تھی۔ سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے پیروکار اپنے بانی چیئرمین عمران خان کو قانون اور احتساب سے ماورا سمجھنے لگے تھے۔ رفتہ رفتہ پاکستان میں یہ غیر قانونی رجحان ختم ہونے لگا ۔
عمران خان جیسے مقبول لیڈر کو 190 ملین پائونڈ کرپشن اسکینڈل میں سزا دے کر ایک نئی مثال قائم کی گئی ۔ اس وقت مغربی میڈیا نے اس سزا کو ’سیاسی انتقام‘‘ قرار دینے کی کوشش کی، لیکن آج وہی مغربی معاشرہ فرانس کی میرین لی پین کو فنڈز کی خرد برد پر چار سال قید، جرمانہ اور الیکشن پر پابندی عائد کر کے پاکستان کے نقش قدم پر چلتا دکھائی دے رہا ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں بلکہ عالمی سطح پر تبدیل ہوتے احتسابی نظام کے آثار ہیں۔ فعال ریاستیں یہ سمجھ چکی ہیں کہ اگر قانون کا نفاذ سب پر یکساں نہ کیا جائے تو جمہوریت محض ایک تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔
پاپولزم کی سیاست میں عوامی جذبات مشتعل کر کے اپنے قائد کے عیوب اور جرائم کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔قانون کی بالا دستی کو آتشی بیانیے سے چیلنج کیا جاتا ہے۔
عوامی جذبات کو احتسابی عمل کے مقابل کھڑا کیا جاتا ہے۔ریاستی اداروں کو کمزور کر کے بدعنوانی مسلط کی جاتی ہے۔ پاکستان نے عمران خان کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ پاپولسٹ لیڈر ہو یا عام شہری ، دونوں سے اگر جرم سرزد ہوگا تو انہیں یکساں انداز میں سزا دی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد عوامی سطح پر مقبولیت کے عروج کو جا پہنچے تھے ۔ ان کا کہا ہوا ہر لفظ ان کے سیاسی پیروکاروں کے لیے مقدس حکم کاسا درجہ رکھتا ہے۔ ان کے اندھے مقلد یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ان کے قائد سے کوئی جرم یا بشری غلطی سر زد ہو سکتی ہے۔
یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ سابق حکمراں جماعت کے بانی چیئرمین اپنی اعلیٰ کارکردگی یا بہترین حکمت عملی کی وجہ سے عوامی سطح پہ مقبول نہیں ہوئے بلکہ اشتعال انگیز بیانیے اور سیاسی مخالفین کے خلاف الزام تراشی کی بنیاد پر عوام کے جذبات سے کھیلتے رہے ہیں۔ ان کے پیروکار اپنے قائد کے مزاج کے خلاف کسی قانون اور عدالتی حکم کو تسلیم کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔ یہ افسوسناک امر ہے کہ احتساب اور انصاف کے نام پر سیاست میں مقبولیت حاصل کرنے والے سابق وزیراعظم نے اپنے عہد اقتدار میں مقبول زبانی دعوئوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ احتساب، انصاف اور شفافیت کے حوالے سے ان کا عہد اقتدار کسی لحاظ سے بھی مثالی نہیں تھا۔ آج مختلف مالی بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے پیروکار آئین، قانون اور جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ہر قیمت پر اپنے قائد کو قید سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یورپ میں میرین لی پین کو ملنے والی سزا نے ایک مرتبہ پھر یہ پیغام دیا ہے کہ مہذب معاشروں میں مقبولیت اور اعلیٰ عہدے کو بنیاد بنا کر قانون سے استثنا حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
سابق حکمران جماعت کی قیادت اور ان کے کارکنوں کو اس پہلو پر غور ضرور کرنا چاہیے کہ ان کے قائد پر عائد کیے گئے الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لیے صرف قانونی راستہ ہی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ قانون اور عدالت سے ماورا کوئی بھی اقدام آئین سے انحراف اور جمہوری اصولوں سے متصادم ہوگا۔ پاکستان نے سابق وزیر اعظم کے احتساب کے ذریعے نئی مثال قائم کر کے مغربی معاشرے کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ کوئی شہری آئین و قانون سے ماورا ء نہیں ہوتا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میرین لی پین میں مقبول قانون اور لی پین کو اور ان
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، :ہائی کورٹ کی طرف سے 2 کشمیریوں کی غیر قانونی نظربندی کالعدم قرار
ذرائع کے مطابق جسٹس راہول بھارتی پر مشتمل ہائی کورٹ کے بنچ نے بارہمولہ کے رہائشی محمد آفرین زرگر کی کالے قانون پی ایس اے کے تحت نظر بندی کو کالعدم قرار دیا۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ہائی کورٹ نے کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت دو کشمیریوں کی غیر قانونی نظربندی کالعدم قرار دیتے ہوئے قابض انتظامیہ کو ان کی فوری رہائی کی ہدایت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق جسٹس راہول بھارتی پر مشتمل ہائی کورٹ کے بنچ نے بارہمولہ کے رہائشی محمد آفرین زرگر کی کالے قانون پی ایس اے کے تحت نظر بندی کو کالعدم قرار دیا اور نظربندی کیلئے ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکامی پر قابض حکام کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ آفرین زرگر پر گزشتہ سال 10ستمبر کو کالے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ادھرجسٹس محمد یوسف وانی پر مشتمل کشمیر ہائی کورٹ کے ایک اور بنچ نے ارشاد احمد ڈار کی کالے قانون پی ایس اے کے تحت غیر قانونی نظربندی کو کالعدم قرار دیا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بارہمولہ نے 21 جولائی 2023ء کو ارشاد کی نظربندی کے احکامات جاری کئے تھے۔واضح رہے کہ کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کے تحت ان کی غیر قانونی نظربندیوں کا سلسلہ مقبوضہ کشمیر میں تیزی سے جاری ہے اور عدالتوں میں قابض انتظامیہ کشمیریوں پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کے حق میں ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے۔