کرکٹر ایم ایس دھونی، مودی کی بی جے پی میں شامل ہوگئے؛ حقیقت کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
بھارت کو ورلڈ کپ جتوانے والے کپتان کرکٹر مہندر سنگھ دھونی سے متعلق یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ انھوں نے بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی جوائن کرلی ہے۔
دھونی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں انھیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ کنول کے نشان کے ساتھ زعفرانی اسکارف پہنے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
کرکٹر اور وزیراعظم کی اس وائرل تصویر کے ساتھ صارفین یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ کرکٹر بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں۔ مبینہ تصویر کے پس منظر میں بھگوا پارٹی کا بینر بھی نظر آرہا ہے۔
متعدد فیس بک صارفین نے بھی وزیراعظم مودی کے ساتھ کرکٹر کی مبینہ تصویر شیئر کرتے ہوئے کیپشن لکھا ہے کہ ’’ایم ایس دھونی بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں۔‘‘
کیا یہ حقیقت ہے؟ یا دھونی کی یہ تصویر کسی خاص موقع پر لی گئی ہے۔
فیکٹ چیک کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی بھی سرچ انجن میں ’’ایم ایس دھونی‘‘ اور ’’بی جے پی‘‘ کے مطلوبہ الفاظ کی تلاش سے ایسی کوئی معتبر رپورٹ نہیں ملی جس میں کہا گیا ہو کہ کرکٹر نے مذکورہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ مزید یہ کہ، ہمیں ایسی کوئی معتبر رپورٹ بھی نہیں ملی جس سے پتہ چلتا ہو کہ پی ایم مودی نے حال ہی میں دھونی سے ملاقات کی ہے۔
گوگل لینس پر وائرل امیج کو چیک کرنے پر بھی علم ہوتا ہے کہ وزیراعظم مودی کے ساتھ ایم ایس دھونی کی مبینہ تصویر والی کوئی بھی خبر شائع نہیں ہوئی۔
وائرل تصویر کا بغور جائزہ لینے پر صارفین دیکھ سکتے ہیں کہ وزیراعظم کا چشمہ پوری طرح سے نہیں بنا ہوا بلکہ ان کے چہرے کے ساتھ مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، زعفرانی اسکارف پر کنول کی علامت کا ایک حصہ بھی دیکھا جاسکتا ہے جسے غیر معمولی طور پر وزیراعظم کے کندھے پر رکھا گیا ہے۔
تصویر کے دھندلے پس منظر اور دیگر خصوصیات بھی اس جانب اشارہ کررہی ہیں اس تصویر کو ممکنہ طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔
وائرل امیج کو متعدد AI ڈیٹیکشن پلیٹ فارمز پر چیک کرنے کے بعد اس تصویر کے ڈیپ فیک ہونے کا 83 فیصد امکان پایا گیا۔
نتیجہ
تمام تر چیکنگ کے بعد فیکٹ چیک کی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وائرل تصویر جس میں مبینہ طور پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ دھونی بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں اور پی ایم مودی کے ساتھ تصویر کھنچوائی گئی ہے وہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے تیار کی گئی ایک ڈیپ فیک تصویر ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بی جے پی میں ایم ایس دھونی مودی کے ساتھ تصویر کے
پڑھیں:
گری ہوئی چیز کو اٹھا کر کھانے کا 5’ سیکنڈ رول’، حقیقت کیا ہے؟
یقین کریں… آپ نے بھی ہماری طرح یہ حرکت تو ضرور کی ہوگی، کہ چپس، چاکلیٹ یا شاید گرما گرم سموسہ نیچے گرا… اور آپ نے فوراً نظریں دوڑائیں، تیزی سے اسے اٹھایا، اور منہ میں ڈال لیا!
کیوں؟ کیونکہ آپ نے دل ہی دل میں کہا ہوگا: ’پانچ سیکنڈ نہیں ہوئے… ابھی کھایا جا سکتا ہے!‘۔
لیکن… اگر ہم آپ سے کہیں کہ یہ پانچ سیکنڈ والا رول صرف ایک جھوٹ ہے؟ جی ہاں، آپ برسوں سے ایک غلیظ فسانے کے ہاتھوں بےوقوف بن رہے ہیں!
”خان رول“ — جرم کی ابتدا!
پانچ سیکنڈ کا یہ عجیب قانون آخر آیا کہاں سے؟
1995 میں پہلی بار یہ اصول چَھپ کر سامنے آیا، مگر اس کا اصل قصہ تو بارہویں صدی میں، چنگیز خان کے زمانے سے جُڑا ہے۔
جی ہاں! افسانوی منگول فاتح چنگیز خان کے دربار میں ایک اصول تھا: ”جو کھانا خان کے لیے بنایا گیا ہے، وہ اتنا پاک ہے کہ اگر زمین پر بھی گر جائے، تب بھی کھانے کے قابل ہے!“
چاہے کھانے کے ذرے فرش پر کتنی دیر بھی پڑے رہیں — بس آنکھوں دیکھی مٹی جھاڑو، اور کھا جاؤ!
اس زمانے میں جراثیم کا کوئی تصور نہیں تھا۔ صفائی کا مطلب تھا: ”جو نظر آئے، اسے صاف کرو… باقی اللہ مالک!“
لیکن پھر سائنس بولی: ”خان صاحب، آپ غلط تھے!“
انیسویں صدی میں لؤی پاسچر نے سائنس کی دنیا کو چونکا دیا۔
انہوں نے بتایا کہ جراثیم نہ صرف موجود ہیں، بلکہ وہ ہر جگہ ہیں! ہوا میں، ہاتھوں پر، کپڑوں میں، اور زمین پر بھی!
مگر اس کے باوجود، پانچ سیکنڈ والا یہ جھوٹ صدیوں تک زندہ رہا۔
اور پھر آئی تباہ کن تحقیق!
2016 میں ایک امریکی سائنسدان، پروفیسر ڈونلڈ شیفر نے پانچ سیکنڈ رول کی دھجیاں اُڑا دیں۔
انہوں نے دو سال ایک تحقیق کی، جس میں کھانے کی مختلف اشیاء مثلاً مکھن لگی بریڈ، بغیر مکھن کی بریڈ، سٹرابری کینڈی اور تربوز کو مختلف سطحوں پر گرایا: لکڑی، ٹائل، اسٹیل، اور یہاں تک کہ کارپٹ پر بھی۔
اور ہر بار وقت بدلا گیا: ایک، پانچ، تیس، اور تین سو سیکنڈ۔ کُل 2560 تجربے کیے گئے۔
نتیجہ؟
جتنی بھی جلدی کھانے کو زمین سے اٹھا لیں — وہ جراثیم سے بچ نہیں سکتا!
کچھ دلچسپ حقائق:
حیرت انگیز طور پر کارپٹ پر جراثیم کی کھانے ممیں منتقلی سب سے کم تھی۔ کیونکہ اُس کی سطح اونچی نیچی ہوتی ہے، اور کھانے کو کم چھوتی ہے۔
سب سے زیادہ جراثیم چوسنے والی چیز نکلی تربوز! کیونکہ وہ گیلا ہوتا ہے، اور جراثیم کو نمی چاہیے ٹرانسفر ہونے کے لیے۔
خشک چیزوں جیسے ٹافی یا روٹی پر تھوڑے کم جراثیم چپکتے ہیں، لیکن ”کم“ کا مطلب ”صفر“ نہیں!
تو، اگلی بار کیا کریں؟
جب ٹافیاں، چپس یا فرائز نیچے گریں تو ”پانچ سیکنڈ“ گننے کی بجائے، سیدھا اسے کوڑے دان میں ڈالیں۔
کیونکہ جراثیم نظر نہیں آتے، مگر آپ کا پیٹ، آپ کی صحت، آپ کی ذمہ داری ہے۔
Post Views: 3