افغان مہاجرین کی بے دخلی کا عمل شروع نہ ہوسکا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل ڈیڈ لائن ختم ہونے کے 3 روز بعد بھی شروع نہ ہوسکا۔
ذرائع کے مطابق لنڈی کوتل ٹرانزٹ کیمپ تیسرے روز بھی فعال نہیں ہوسکا۔ پالیسی کے مطابق ملک بھر میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکیوں کو پشاور میں عارضی کیمپ میں منتقل کیا جانا تھا۔ پشاور ٹرانزٹ کیمپ سے لنڈی کوتل عارضی کیمپ منتقل کیے جانے کا منصوبہ تھا۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے غیرملکیوں کی بے دخلی کے لیے وفاق سے 10 اپریل تک مہلت مانگ لی ہے۔ غیرملکیوں کے انخلا کے لیے صوبائی حکومت کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ ملک میں 8 لاکھ افغان سیٹیزن شپ کارڈ ہولڈر رہائش پذیر ہیں۔
مزید پڑھیں: غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی واپسی کی ڈیڈ لائن ختم
پاکستان چھوڑنے والے غیر قانونی افغان باشندوں کی کل تعداد 8لاکھ 85ہزار902 تک پہنچ چکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں رجسٹررڈ افغان مہاجرین کی کل تعداد 7لاکھ 9 ہزار سے 278 ہے جبکہ کیمپوں میں 3 لاکھ 44 ہزار 9 سوآٹھ افغان رہائش پذیر ہیں۔ سال 2013 سے اب تک 4 لاکھ 65 ہزار افغان مہاجرین طورخم کے راستے واپس جا چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: مہلت آج ختم، افغان مہاجرین کی واپسی مرحلہ وار کرنے کی اپیل
بلوچستان میں 3 لاکھ 17 ہزار، پنجاب میں ایک لاکھ 96 ہزار اور سندھ میں 74 ہزار 117 افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں۔ اسلام آباد میں 42 ہزار 718 اور آزاد کشمیر میں 4 ہزار 448 افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغان مہاجرین کی
پڑھیں:
دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا
پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی
پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے، محکمۂ آبپاشی
دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے ،دریائے سندھ میں پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی۔محکمہ آبپاشی کے اعداد و شمار کے مطابق کوٹری بیراج کے اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 4600کیوسک جبکہ ڈائون اسٹریم میں محض 190کیوسک اخراج کیا جا رہا ہے ۔ 2023ء کے اپریل میں کوٹری بیراج اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 8900کیوسک اور 2024ء کے اپریل میں 5000کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی، یہ اعداد و شمار ہر سال پانی کم سے کم ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔محکمۂ آبپاشی کے مطابق پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے ، صرف پینے کا پانی دستیاب ہے ۔محکمہْ زراعت کے مطابق پانی کی کمی کے اثرات فصلوں پر بھی مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔خریف کے سیزن میں سندھ کے اندر گزشتہ 5 سال کے دوران پونے 5 سے سوا 6 لاکھ ہیکٹر پر کپاس کی فصل کاشت کی گئی ہے ۔ اسی طرح 2 لاکھ 79 ہزار سے 2 لاکھ 95 ہزار ہیکٹر پر گنے کی فصل کاشت کی گئی، 7 لاکھ 8 ہزار سے 8 لاکھ 11 ہزار ہیکٹر تک چاول کی فصل کاشت کی گئی ہے ۔ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سندھ میں پانی کی قلت جاری رہی تو سندھ کی زراعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔محکمہْ آبپاشی، زراعت اور آبادگاروں کو امید ہے کہ بارشیں ہونے کی صورت میں صورتِ حال بہتر ہو جائے گی۔