فوٹو بشکریہ سوشل میڈیا

کراچی کے علاقے کورنگی کریک کے گڑھے میں 6 روز بعد بھی آگ بدستور لگی ہوئی ہے۔

ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پلاٹ کو بند کر دیا گیا ہے۔

انتظامیہ کے مطابق کے ایم سی اور کنٹونمنٹ بورڈ کے فائر ٹینڈرز موقع پر موجود ہیں، تپش کے باعث آگ بجھانے کا عمل ہفتے کو ہی روک دیا گیا تھا۔

کورنگی کریک کے قریب گڑھے میں لگنے والی آگ پر دوسرے بھی قابو نہیں پایا جاسکا

کراچیکورنگی کریک کے قریب گڑھے میں لگنے والی آگ پر.

..

 آگ کی شدت کے باعث مشکلات کا سامنا تھا۔

آگ 1200 فٹ بورنگ کے لیے کھدائی کے بعد لگی تھی۔

 واقعے کی جگہ سے ریت اور پانی کے نمونے حاصل کیے گئے ہیں، کیمیائی تجزیے کے بعد گیس کی نوعیت اور حجم کے بارے میں معلوم ہو سکے گا۔

 گیس کا ذخیرہ چھوٹا ہوا تو آگ چند دن میں خود بخود بجھ جائے گی، اگر ذخیرہ بڑا ہوا تو اسے محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: گڑھے میں کریک کے

پڑھیں:

کراچی پیاس کا صحرا

حیات انسانی ابتدائے آفرینش ہی سے اپنے دوام کے لیے فطری طور پر ایسے لازمے کی رہین منت رہی کہ جس کے بناء اسے دھرتی پر اپنا جیون معدوم سا محسوس ہونے لگا۔

اور یہ کوئی دم کی حاجت نہیں بلکہ شب و روز کا دستور ٹھرا۔

ایسے میں قدرت نے اس کی راہ نمائی فرمائی، اور یہ حاجت برآری اس کے اپنے زور بازو سے مشروط کردی۔ یوں خوراک اور پانی کی کھوجنا ہی اس کا مقصد حیات قرار پائی۔

اب آتی جاتی سانس کے ضامن خورونوش پر مبنی یہ دو اجزاء، روز اول سے ہی اسے متحرک رکھ کر اس کے وجود کو مدام بخشتے رہے۔

کاروان حیات کو رواں دواں رکھنے کی خاطر وہ اگر برساتی نالوں، ندیوں، دریاؤں اور پہاڑی جھرنوں سے اپنے تشنہ لبوں کو تر کرتا ہے، تو فوراً ہی دوسرے مرحلے پر اسے شکم کی پکار کو لبیک کہنا ہے، جس کے لیے جان جوکھوں میں ڈال کر جنگلی جانوروں سے پنجہ آزمائی، جہاں چند ساعتوں میں شکار اور شکاری کی ترتیب الٹ جاتی، اور شکاری شکار کے لیے لقمۂ تر بن جانے کا اندیشہ۔

ہر نیا دن دشت بے اماں میں مقدر کے کھیل سے شروع ہوتا۔ اب مقدر کی لغت کی اپنی تفہیم ہی نرالی ہے۔ کبھی تو یہ سانجھی بن کر راہوں میں پھول بکھیر دیتا ہے، اور کبھی بیری بن کر ببول بو دیتا ہے۔

یوں کبھی پورا دن خالی ہاتھ گزر جاتا، تو شام کے سائے پھیلتے ہی بھوک کا آکٹوپس اس کے ناتواں جسم میں پنجے گاڑنے لگتا۔ اس گھاؤ کو سہتے یہ محروم رات تو ٹل جاتی، اور پھر نور کے تڑکے ایک نئی امنگ اور نئے حوصلے کے ساتھ جیت کی امید لئے میدان میں اترنا ہے، جہاں مات کی صورت اس کی اپنی زندگی داؤ پر لگی ہے۔ بڑی کٹھن ہے یہ زیست۔

غذا کا ایک لقمہ اور پانی کی دو بوندیں، کسی ایک مقام پر دستیاب ہوں۔ بس اِس مقام کے حصول کی تمنا نے اسے قریہ قریہ پھرنے پر مجبور کردیا۔

یوں فطرت نے کس قدر پریت سے اسے جہد مسلسل کا استعارہ بنا دیا۔

جیون اسی تذبذب میں گزرتا رہا کہ جب کسی مقام پر شکار کی صورت گوشت کی فراوانی ہے، تو دور دور تک پانی نایاب، اور پانی کی قربت ہے تو غذا ندارد۔

ایک عرصہ اس کٹھنائی سے نبردآزما رہ کر اس نے جانا کہ اب ذخیرہ آب کی قربت میں اسے شکم سیری کا گر اپنانا ہے۔ اس کلیے کو اپناکر قریب کی زرخیز زمین سے غذا کے قابل اجزاء کے حصول سیکھتے کئی اور صدیاں بیت گئیں۔

بالآخر اس نے ان دو ضروریات کو مربوط رکھنے میں کام یابی حاصل کرلی۔

یوں اس کی سرشت میں موجود سیلانی فطرت کا عنصر جب کچھ کم ہوا، تو دریاؤں کے قریب گروہ کی شکل میں سکونت اختیار کرنے سے رفتہ رفتہ ایک سماج تشکیل پانے لگا، اس طرح سماج کا اپنا ایک تمدن بھی وجود میں آرہا تھا۔

کھیتی و دیگر ضروریات کے لیے پانی کو اپنے مطلوبہ مقام تک لے آنے کی حکمت عملی کے باعث ان گروہوں کے قیام کا دورانیہ طویل ہونے پر آبادی وسعت اختیار کرنے لگی۔

اور یہ آغاز تھا کرۂ ارض کے کچھ گوشوں پر تہذیبیں اُستوار ہونے کا۔

ان تہذیبوں کے مکینوں کی پانی کو رفتہ رفتہ کو سوں دور تک منتقل کرنے کی کام یاب کاوش، انسانی سماج میں فرا ہمی آب کی ابتدائی شکل تھی۔

کئی صدیوں پر مشتمل فراہمی آب کے اس پورے تاریخی تناظر میں مشاہدہ کریں گے کہ کراچی کے باسی، شہر کے مضافات میں ہونے والی کاشت کاری اور اندرون شہر پینے کے پانی کی دستیابی کے کن ذرائع سے فیض یاب ہوتے رہے۔

پانی کی قربت سے جنم پانے والی مصر، میسو پوٹیما اور چین کی طرح سندھ کی تہذیب بھی دریائے سندھ کے کناروں پر وجود میں آئی۔ مگر اِس وادی سندھ کے شہر کراچی کے دامن میں ابتدا ہی سے دریائے سندھ کا آب شیریں نہیں بلکہ بحیرہ عرب کا آب شور موجود تھا، اور یہ شاید کراچی کی خوش قسمتی تھی کہ یہی آب شور اس کے لیے آب حیات بن گیا۔ سمندری بندرگاہ کی حیثیت نے کئی صدیوں سے میٹھے پانی کی کم یابی کے باوجود اس شہر کو مرکز نگاہ بنائے رکھا۔

برصغیر کے ایک وسیع حصے کو درآمدوبرآمد میں معاون بننے والی اس ساحلی پٹی میں ابتدا ہی سے پینے کے پانی کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ تھا۔ اس کے باوجود کیماڑی سے ملیر کے آس پاس پھیلے ساحل پر ٹکڑیوں میں بسے لوگوں کو آباد رکھنا تجارتی نکتہ نظر سے ضروری بھی تھا۔

کراچی کے شہریوں نے پانی کی اس قلت کا قدرِ مشکل حل لیاری اور ملیر کی برساتی ندیوں کی صورت میں تلاش کر لیا تھا۔

ملیر اور لیاری ندی کے زرخیز کناروں پر بسے لوگوں نیندی کے قرب و جوار میں کنوئیں کھود کر وسیع پیمانے پر کھیتی کو فروغ دیا۔ سبزیوں کے کھیت اور پھلوں کے باغات نے کراچی کے باسیوں کو ان دو اجناس میں خود کفیل کردیا تھا۔

کراچی کی سرسبز زمین پر اُگنے والی ہمہ اقسام کی سبزی کے علاوہ موسم کے معروف پھل، امرود، پپیتا، چیکو، خربوزہ، تربوز سمیت ملیر کے رسیلے آموں کا ذائقہ چکھنے والے کراچی کے قدیم باسیوں میں شاید اب بھی کوئی بقید حیات ہو۔ ان خوش ذائقہ آموں کا شہرہ شہر سے باہر تک پھیلا ہوا تھا۔

کھیتی اور پینے کے پانی کی اس طور دستیابی کے طفیل شہر کی سانسیں کسی نہ کسی طرح چلتی رہیں۔

مگر کیا کیجیے کہ تبدُل و تغیر کے قانون سے کسی کومفر ممکن نہیں اور فطرت کے اس قانون کے تحت اب کراچی اپنا چولا بدل رہا تھا۔

اس بدلاؤ کا آغاز کچھ اس طور ہوا، جب یہاں سے کچھ میل دور حب ندی کے دہانے پر معروف بندرگاہ ’کھڑک بندر‘ جہاں بارشوں کے سبب رفتہ رفتہ ندی سے سمندر میں ریت کی منتقلی کے سبب گہرائی میں ہوتی گئی کمی، اور بالآخر 1728ء میں جب تندوتیز بادوباراں کے کارن ریت بھر جانے کے سبب یہ بندرگاہ ناقابل استعمال ہوگئی تو دوسری بندرگاہ کی تلاش کے لیے درآمد و برآمد کے معروف تاجر سیٹھ بھوجومل نے بھیجے کارندوں کی جوہرشناس نگاہوں نے اس سال کیماڑی بندر کو تلاش کرلیا۔

بھو جو مل کے درآمدی و بر آمدی کاروبار کے کیماڑی منتقل ہونے کے کچھ عرصے بعد ٹھٹھہ کے قریب شاہ بندر اور لاہری بندر نامی دونوں بندرگاہوں کے تاجر بھی اپنے کا روبار یہاں لے آئے۔

یہ تمام تاجر اپنے خاندان اور عملے کے لاؤ لشکر سمیت اپنے پرانے ٹھکانوں کو چھوڑ کر کراچی آگئے، تو وہاں کے رہائشی بھی سکڑتے کاروبار سے پریشان ہوکر نئی جگہ قسمت آزمائی کے لیے اس شہر کا رخ کرنے لگے۔ یوں چند ہزار نفوس کی آبادی کا یہ شہر دیکھتے ہی دیکھتے وسیع ہونے لگا۔

اب یہ ماہی گیروں کی بستی سے تاجروں اور دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد کے شہر میں بدل رہا تھا۔ آبادی کھارادر اور میٹھادر کی قلعہ بند فصیل کے اندر بڑھ رہی تھی۔ اِن نئے آباد ہونے والوں کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ندی کے میٹھے پانی کے علاوہ ان کے علاقوں سے لگ بھگ ایک میل کے اندر پانی کے کچھ قدرتی چشمے موجود تھے، جن سے طویل عرصے تک یہ لوگ پینے کے پانی جیسی بنیادی ضرورت پوری کرتے رہے۔

لیاری اور ملیر ندی کے آس پاس کنوئیں اور مندرجہ بالا قدرتی چشمے یہاں کے باسیوں کی پیاس بجھاتے رہے، مگر 1839ء میں کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے کچھ سالوں بعد شروع ہونے والے ترقیاتی کاموں سے کھلنے والے روزگار کو حاصل کرنے کے لیے آس پاس کے لوگ اس شہر کی طرف بڑھنے لگے۔ تو ان کنوؤں اور چشموں کی استعداد ختم ہونے لگی۔

1729ء کے تقریباً سو سال بعد آبادی کا ان چشموں سییہ دوسرا ریلا ان ہی چشموں کے قریب بہنے لگا۔ رفتہ رفتہ ان چشموں سے نکلنے والے پانی کی مقدار ’ایک انار سو بیمار‘ کی سی ہونے لگی تو کچھ عاقبت نااندیش لوگوں نے برسوں پیاس بجھانے والے قدرت کے اس انمول تحفے پر تعمیرات کرکے اسے بند ہی کردیا۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر ہونے والی ایسی سنگین غلطیاں اپنا خراج ضرور وصول کرتی ہیں، اور وہ بھی سود کے ساتھ۔

شاید ان لوگوں کو پانی کی حیثیت کا پتا نہیں، انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ قدیم تہذیبوں کے لوگ پانی کا پرستش کی حد تک احترام کرتے اور پینے کے پانی کے بڑے منبع یعنی دریا کی پوجا کر تے تھے۔

موہن جو دڑو کے تقریباً ہر گھر سے ایک کنواں دریافت ہوا ہے، وہ پانی کے اس ذریعے کی اپنے گھر میں موجودگی کو نیک شگون قرار دیتے تھے۔

انگریزوں کی آمد کے بعد شہر کی آبادی میں تیزرفتار اضافے نے شہری انتظامیہ کو جس مسئلے سے دوچار کیا وہ پینے کے پانی کا تھا۔

1852 ء تک بائیس ہزار نفوس تک پہنچنے والی آبادی کو سات کنوئیں اور پانچ چشمے سیراب نہ کر سکے تو مزید پانچ کنوئیں اور کھدوائے گئے، مگر کنوؤں کی کھدائی مکمل ہوتے ہوتے کراچی کے اطراف کے مزید لوگ یہاں منتقل ہوجاتے۔ اور پانی ایک مسئلہ بن کر اپنی جگہ کھڑا رہ جاتا۔

کچھ مخیر پارسی حضرات نے بھی اپنے طور پر کئی کنوئیں کھدوا کر میونسپل کمیٹی کے حوالے کئے، مگر بات نہ بن سکی تو شہری انتظامیہ نے ہنگامی بنیادوں پر ڈملوٹی کے مقام پر دس گہرے کنوئیں کھدوائے، ان سے حاصل ہونے والے پانی سے شہری اب اطمینان سے اپنی روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرنے لگے۔ رسد اور طالب میں توازن پیدا ہوگیا۔

کنوؤں کے اس پانی کو بڑے پائپوں کے ذریعے شہر کے ذخائر آب تک پہنچایا جاتا اور پھر وہاں سے پائپوں ہی کے ذریعے شہر کے مختلف علاقوں تک یہ پانی فراہم کیا جاتا رہا۔

یہ ذخیرۂ آب شہر کے مختلف علاقوں میں تعمیر کیے گئے جن میں رام باغ، کسٹم ہاؤس اور کھوڑی گارڈن کے ذخیرہ آب (حوض) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ایک حوض کا علاقہ اب بھی اپنے پرانے نام رتن تلاء سے معروف ہے (مقامی زبان میں حوض کو تلاء کہا جاتا ہے)

مگر دوسری جنگ عظیم کے دوران اس شہر کے فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہونے سے یہاں کی معیشت پر مثبت اثر پڑا، یوں روزگار کے مزید دروازے کھلنے پر آبادی بڑھی، تو پانی کی فراہمی اور خرچ کا توازن ڈولنے لگا، اور بالآخر 1940ء میں پانی کی بڑی مقدار میں سپلائی کے لیے ’’ہالایار‘‘ نامی اسکیم متعارف کرائی گئی۔ اس اسکیم کے تحت دریائے سندھ کے پانی کو کلری جھیل تک پہنچانے کے لیے ایک نہر نکالی جانا تھی، اور کلری جھیل سے ایک پختہ نالے کے ذریعے پانی کو گھارو تک لانا تھا، جہاں ایک فلٹر پلانٹ کے ذریعے پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے بعد کراچی تک پہنچانا تھا۔

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق اسکیمیں مکمل ہونے کے عرصے کے دوران بڑھتی آبادی ان تمام اسکیموں کو ناکامی سے دوچار کر دیتی۔

ہالایار اسکیم کی فعالیت کے ناکافی ہونے پر 1945ء میں ہالیجی اسکیم پر کام کا آغاز کیا گیا۔

1947ء میں آبادی کا دباؤ بڑھا تو 1954ء میں کے ڈی اے کے زیراہتمام ’گریٹر کراچی بلک واٹر سپلائی اسکیم‘ شروع کی گئی۔

اور رسد و طلب کا یہ توازن آج 2025ء تک زلف یار کی طرح الجھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں پی ایس ایل میچ کے دوران تماشائی گراؤنڈ میں داخل
  • احتجاج کے باعث اہم سڑک بند، ملک بھر کو سامان کی ترسیل رک گئی
  • منشیات اسمگلنگ کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن، 4 کروڑ سے زائد مالیت کی منشیات برآمد
  • کراچی: موٹر سائیکل حادثات میں 3 افراد جاں بحق
  • کراچی پیاس کا صحرا
  • ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر سندھ حکومت کا کریک ڈاؤن، 17 ہزار 980 موٹرسائیکلیں ضبط
  • مدینہ کے قریب عمرہ زائرین کی بس کو حادثہ، 4 پاکستانی جاں بحق 9 زخمی
  • مدینے کے قریب عمرہ زائرین کی بس کو حادثہ، 4 پاکستانی جاں بحق 9 زخمی
  • ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی معمولی جرم نہیں، اجتماعی سلامتی کیلئے خطرہ ہے، شرجیل میمن
  • کراچی: فائرنگ کے مختلف واقعات میں پولیس اہلکار سمیت 5 افراد زخمی