میانمار زلزلہ: خواتین اور لڑکیوں کا تحفظ یقینی بنانے کا یو این مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 03 اپریل 2025ء) میانمار میں آنے والے تباہ کن زلزلوں سے جہاں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور تباہی ہوئی ہے وہیں اس آفت نے صںفی عدم مساوات میں بھی اضافہ کر دیا ہے اور لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کے لیے تشدد و تفریق کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
امدادی کارروائیوں میں صنفی بنیاد پر تحفظ سے متعلق ورکنگ گروپ کے مطابق، اپنے خاندانوں سے بچھڑ کر گنجان پناہ گاہوں میں رہنے والی لڑکیوں کے لیے خطرات کہیں زیادہ ہیں جہاں انہیں حسب ضرورت نجی اخفا میسر نہیں ہوتا۔
یہ ورکنگ گروپ جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) اور یو این ویمن کے زیرقیادت کام کرتا ہے۔ Tweet URLگروپ کا کہنا ہے کہ زلزلے میں طبی نگہداشت فراہم کرنے والے بہت سے لوگ ہلاک یا زخمی ہو گئے ہیں۔
(جاری ہے)
ایسے میں بے یارومددگار بچوں کی نشاندہی، انہیں تحفظ کی فراہمی اور اپنے خاندانوں سے یکجا کرنے کے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ میانمار میں خواتین اور لڑکیوں کی بڑی تعداد مسلح تنازع، نقل مکانی اور معاشی عدم استحکام کے باعث پہلے ہی بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہی تھی۔ اب اسے صنفی بنیاد پر تشدد اور استحصال کا نشانہ بنائے جانے کے خدشات اور بھی بڑھ گئے ہیں۔عارضی جنگ بندیاطلاعات کے مطابق، میانمار کی فوج نے امدادی کارروائیوں میں سہولت کے لیے آج سے 22 اپریل تک عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل حکومت مخالف مسلح گروہوں نے بھی اپنی کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا تھا۔
2021 میں فوج کی جانب سے ملک کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد میانمار میں خانہ جنگی جاری ہے جس میں شہریوں کی بڑی تعداد ہلاک، زخمی اور بے گھر ہو چکی ہے۔
اندازوں کے مطابق جمعے کو آنے والے زلزلوں سے تقریباً دو کروڑ لوگ کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس آفت سے قبل بھی ملک میں ایک کروڑ لوگوں کو ہنگامی بنیاد پر مدد کی ضرورت تھی جن میں نصف تعداد خواتین اور لڑکیوں کی ہے۔
ملک کے وسطی علاقے زلزلے سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جہاں ایک لاکھ سے زیادہ حاملہ خواتین کو مدد کی ضرورت ہے۔ ان میں 12,250 خواتین نے رواں ماہ بچوں کو جنم دینا ہے۔
طبی مراکز، سڑکیں اور پل تباہ ہو جانے کے باعث انہیں تولیدی صحت کی خدمات کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے۔خواتین کی ترجیحی ضروریاتاقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے کہا ہے کہ بالخصوص زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی خواتین کو نقصانات کا اندازہ لگانے کے عمل میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ ان کی ترجیحات واضح ہو سکیں۔ خواتین اور لڑکیوں کو محفوظ پناہ گاہوں، صاف پانی اور حسب ضرورت خوراک کی ضرورت ہے۔
پناہ گاہوں میں روشنی، نجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی جگہوں اور دروازوں پر تالوں کی موجودگی ضروری ہے۔ ان میں محفوظ بیت الخلا اور نہانے کی جگہیں بھی ہونی چاہئیں جبکہ خواتین اور لڑکیوں کو صحت و صفائی کا سامان بھی فراہم کیا جانا چاہیے۔خواتین کے زیرقیادت متعدد غیرسرکاری ادارے متاثرین زلزلہ کو مدد دینے کے لیے موجود ہیں جو ان کی مخصوص ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مقامی سطح پر لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات اور مقامی ماحول کی سوجھ بوجھ کو کام میں لا رہے ہیں۔
امدادی وسائل کی قلتامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی رابطہ کار ٹام فلیچر نے امدادی کوششوں میں مدد دینے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل مہیا کرنے کی اپیل جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ متاثرین تک رسائی میں کڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اگرچہ ہنگامی اقدامات کے لیے اقوام متحدہ کے مرکزی فنڈ (سی ای آر ایف) سے اب تک 50 لاکھ ڈالر جاری کیے جا چکے ہیں لیکن ضروریات کو دیکھتے ہوئے یہ وسائل ناکافی ہیں۔
علاوہ ازیں، مواصلات اور نقل و حرکت میں رکاوٹوں کے باعث بھی امدادی کارروائیوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔امدادی انصرامی امور کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر (یو این او پی ایس) نے زلزلہ زدگان کے لیے ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے ہنگامی امدادی وسائل مہیا کیے ہیں جو امدادی شراکت داروں کو نقد رقم، غذائی و غیر غذائی امدادی اشیا، پناہ کے سامان، صاف پانی، صحت و صفائی کی سہولیات، ملبہ ہٹانے کی مشینری اور طبی امداد بشمول ذہنی صحت کے حوالے سے مدد کی فراہمی کے لیے دیے جا رہے ہیں۔
میانمار میں 'یو این او پی ایس' کی ڈائریکٹر سارہ نیٹزر نے کہا ہے کہ ادارہ ملک میں اپنے شراکت داروں کے ذریعے امداد فراہم کر رہا ہے اور فوری مدد مہیا کرنے پر عطیہ دہندگان کا مشکور ہے۔ نقصان کا درست تخمینہ سامنے آنے پر متاثرین کی مدد میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا جائے گا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے اقوام متحدہ کے خواتین اور لڑکیوں میانمار میں کی ضرورت
پڑھیں:
فلسطینی ریڈ کراس نے طبّی کارکنوں پر حملے کی اسرائیلی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیدیا
جنیوا(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 )فلسطینی ریڈ کراس سوسائٹی نے طبّی کارکنوں پر حملے سے متعلق اسرائیل کی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ غزہ میں 15 طبّی کارکنوں کی ہلاکت ایک آپریشنل غلط فہمی اور احکامات کی خلاف ورزی کے باعث ہوئی ہے. عرب نشریاتی ادارے کے مطابق طبی کارکنوں کی ہلاکت کا یہ واقعہ 23 مارچ کو پیش آیا تھا جب ریڈ کریسنٹ کی ایمبولینسز، اقوامِ متحدہ کی گاڑی اور فائر بریگیڈ کی گاڑی پر مشتمل کانوائے پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 14 طبی کارکن اور اقوامِ متحدہ کا ایک اہلکار ہلاک ہو گئے تھے.(جاری ہے)
اسرائیلی فوج نے اس واقعے کے بعد ایک کمانڈر کو برطرف کر دیا اور ایک دوسرے افسر کے خلاف بھی کارروائی کی ہے غزہ کی پٹی میں 23 مارچ کو 15 طبی کارکنوں کی ہلاکت کے واقعے کی ایک موبائل فون سے بنی فوٹیج کے تجزیے سے پتا چلا تھا کہ اس حملے کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے سو سے زیادہ گولیاں چلائیں جن میں سے چند صرف بارہ میٹر کے فاصلے سے داغی گئی تھیں. فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کی رپورٹ درست نہیں تھی کیونکہ وہ اس واقعے کی ذمہ داری ایک ذاتی غلطی اور فیلڈ کمانڈ پر عائد کر رہی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے چیف کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ضروری تحقیقات نہیں کی گئیں. جوناتھن وٹل نے کہا کہ درست بنیادوں پر احتساب نہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے اوریہ دنیا کو مزید خطرناک جگہ بنا رہی ہے انہوں نے کہا کہ احتساب کے بغیر ہم ظلم و ستم جاری رہنے کا خطرہ مول لیتے ہیں اور اس سے ہم سب کے تحفظ کے لیے وضع کیے گئے اصول ختم ہو جائیں گے یاد رہے کہ اس سے قبل عالمی ریڈ کراس اور متعدد بین الاقوامی امدادی اداروں نے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا. اسرائیل کی جانب سے اس سے قبل دعویٰ کیا گیا تھا کہ قافلہ اندھیرے میں بنا ہیڈ لائٹس کے مشکوک انداز میں آگے بڑھ رہا تھا جس کے باعث اسرائیلی سپاہیوں نے اس پر فائرنگ کی قافلے کی آمد ورفت کے متعلق اسرائیلی فوج کو قبل از وقت آگاہ نہیں کیا گیا تھا تاہم مارے جانے والے امدادی کارکنوں میں سے ایک کی جانب سے موبائل فون کی مدد سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زخمیوں کی مدد کے لیے جانے والی گاڑیوں کی لائٹس جلی ہوئی تھیں ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑیوں کے سڑک کنارے رکتے ہی ان پر بنا کسی وارننگ کے فائرنگ شروع ہو جاتی ہے یہ پہلا موقع نہیں اس سے پہلے بھی اپریل 2024 میں امدادی کارکنوں کی ہلاکت پر کچھ افسران کو برطرف کیا گیا تھا.