لندن:

نیو یارک ٹائمز کی ایک تازہ رپورٹ نے بھارتی حکومت کے جنگی جنون اور فسطایت کو بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے حساس ٹیکنالوجی اور اسلحہ روس کو فراہم کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق برطانوی ایرو اسپیس کمپنی ایچ آر اسمتھ گروپ کی"ٹیک ٹیسٹ" کمپنی نے بھارت کو 2 ملین ڈالر کی حساس ٹیکنالوجی فروخت کی، جو بعد ازاں روس کو منتقل کی گئی۔

مزید پڑھیں: روس کیلیے یوکرین کیخلاف لڑتے ہوئے 12 بھارتی ہلاک اور 16 لاپتا؛ مودی سرکار کی تصدیق

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایچ آر اسمتھ گروپ کی "ٹیک ٹیسٹ" کمپنی نے 2023-24 کے دوران بھارت کو 70 سے زائد انتہائی حساس 'ٹائر 2' ممنوعہ ٹیکنالوجی فراہم کی، جن میں نیویگیشن، ایرو اسپیس، ریڈار، اور جدید سیمی کنڈکٹرز شامل ہیں۔

یہ ٹیکنالوجی حساس سول و فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے اور اس کی فراہمی عالمی سطح پر پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ "ٹیک ٹیسٹ" کمپنی نے 2023-24 میں بھارتی کمپنی ہندوستان ایرو ناٹکس کو 118 بار ممنوعہ ٹیکنالوجی کی کھیپیں بھیجیں۔

مزید پڑھیں: مودی سرکار نے دریاؤں کا پانی روک لیا، بنگلہ دیش میں احتجاج

اس کمپنی نے 13 بار ان حساس ٹیکنالوجیز و پرزوں کو روسی اسلحہ ایجنسی روسوبورون ایکسپورٹ کو فروخت کیا، جو امریکی اور برطانوی پابندیوں کے تحت ہے۔ روسوبورون ایکسپورٹ نے اس کاروبار کے بدلے 14 ملین ڈالر ادا کیے۔

رپورٹ کے مطابق، ہندوستان ایرو ناٹکس نے حساس پرزے خریدنے کے محض 19 دن بعد انہیں روسی اسلحہ ایجنسی کو فروخت کر دیا، اور فروری 2024 میں بھارت سے فروخت شدہ ٹیکنالوجی محض 18 دن میں روس پہنچا دی گئی۔

اس کاروباری تعلقات کو دیکھتے ہوئے ہندوستان ایرو ناٹکس کو روسوبورون ایکسپورٹ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار قرار دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: مودی سرکار کی مسلم املاک پر قبضے کی مہم تیز

اس کے علاوہ، برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے 2023 میں حساس آلات کی روس منتقلی پر 'ریڈ الرٹ' جاری کیا تھا، اور کاروباری اداروں کو اس حوالے سے انتباہ کیا تھا۔ ہندوستان ایرو ناٹکس امریکی حکومتی ڈیٹا بیس میں بھی روسی فوجی سپلائر کے طور پر درج ہے۔

رپورٹ کے مطابق، روسی جنگی مشینری کے لیے حساس ٹیکنالوجی کی فراہمی مغربی پابندیوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو عالمی امن اور سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حساس ٹیکنالوجی

پڑھیں:

انسان اور چھوٹی کائنات (دوسرا اورآخری حصہ)

 تمدن کا لفظ مدنیت سے نکلا ہے، مدینہ مدانی، مداین اس کا مفہوم ہے ’’شہریت‘‘ یا اجتماعی آبادی، یہ خانہ بدوشی کی ضد ہے۔تہذیب بھی عربی لفظ ہے۔ معنی ہیں سجانا آراستہ کرنا، صاف کرنا چمکانا۔ ’’کلچر‘‘ کا لفظ جو ہمارے پاس انگریزی سے آیا ہے لیکن اس کی بنیاد ایشیائی بلکہ ہندی ہے اس سلسلے میں ہند کے مشہور ماہر لسانیات سیتی کمار چیرٹی نے اپنی کتاب ’’ہماری آریائی زبان‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ دراصل دراوڑوں سے بھی پہلے والے لوگوں جنھیں کول یا آسٹرک کہا جاتا ہے اور زراعت اور ساتھ ہی مدنیت کے پہلے آفریدہ گار تھے وہ کیل جیسا آلہ استعمال کرتے تھے جو پنسل جیسا ہوتا تھا اس سے زمین میں لکیر ڈال کر بوائی کی جاتی تھی اور اسے وہ لیک یا لک کہتے تھے۔

دراوڑوں اور ان میں فرق یہ ہے کہ وہ لوگ جو قبل ڈراوید کہلائے ہیں چھوٹی چھوٹی بستیاں بساتے تھے اور صرف زراعت کا پیشہ کرتے تھے جب کہ ان کے بعد آنے والے ’’دراوڑ‘‘ بڑے بڑے شہر بساتے تھے کیونکہ اب زراعت کے ساتھ ساتھ دوسرے کئی پیشے اور ہنر بھی رائج ہوگئے تھے، یہ لیک یا لک کا لفظ معلوم نہیں کہ لکڑی کا لفظ اس سے نکلا ہے یا لکڑی سے یہ ’’لک‘‘ نکلا ہے لیکن آگے اس سے بہت سی زبانوں میں بے شمار الفاظ بنے ہیں۔ یہ چونکہ انسان کی خوراک کا ذریعہ تھا اس لیے اس میں قسمت اور’’لک‘‘ لکش،لکشمی لکشمن لکس لیکے کے الفاظ بھی بنے۔لیکن جو لفظ ہمارا موضوع ہے وہ اس کی اُلٹ’’کیل‘‘ ہے۔

اکثر الفاظ اُلٹ جاتے ہیں جیسے عربی میں ’’منقلب‘‘ کہا جاتا ہے جیسے بعض لوگ چاقو کو ’’کاچو‘‘ مطلب کو ’’مطبل‘‘ وبال کو ’’بوال‘‘ بولتے ہیں۔چنانچہ لک یا لیک سے ’’کیل‘‘ بنا جو اب بھی پشتو میں’’ہل‘‘ سے بنائے گئے ’’سیاڑوں‘‘کو کہتے ہیں، اس سے لکیر کا اور لکھنے کے الفاظ بھی بنے ہیں جو سنسکرت میں ریکھا اور ریکھائیں بولے جاتے ہیں، خاص طور پر ہاتھ کی لکیروں کو لکھا جوکھا۔چندرلیکھا سوری لیکھا۔زراعت کو اب بھی پشتو میں’’کرکیلہ‘‘ کہاجاتا ہے ’’کر‘‘ بمعنی تخم ریزی اور کیلہ بمعنی لکیر یا کھیت ہیں، ہل چلانا یا لکیریں کھینچنا بھی ضروری ہوتا ہے اس لیے بستی کو کیلہ،کلے(گاؤں) کہا جاتا ہے کلے بمعنی زرعی آبادی۔پنجابی میں زمین کے ایک خاص ٹکڑے کو ’’کلہ‘‘ کہا جاتا ہے جو کھیت یا اراضی کے معنی دیتا ہے۔

اب اس’’کلے‘‘میں جو اجتماعی تفریحی سرگرمیاں فارغ اوقات میں ہوتی ہیں ان کے لیے ’’کلتور‘‘ کا لفظ بن گیا جو پشتو میں اب بھی ثقافت کے لیے کثیرالاستعمال ہے۔’’کلے‘‘ بمعنی بستی یا گاؤں جو گرام سے نکلا ہے جو لوگوں کے لیے قدیم لفظ تھا جسے بٹگرام،باگرام او ڈی گرام، اسی گرام سے آگے پھر گڑھ اور گڑھی کے الفاظ بھی مختلف زبانوں اور لہجوں میں بنتے ہیں ریڈیو ٹی وی پر جو زرعی پروگرام ہوتے ہیں انھیں کرکیلہ کہتے ہیں ۔’’تور‘‘ کا لفظ ویسے بوتلوار ’’تورہ‘‘ سے نکلا ہے لیکن اس نے آخر کار ایک قانون دستور اور روایت اور رسم رواج کی شکل اختیار کی اور سماج بھی۔یوں ’’کلتور‘‘ وہ رسم و رواج جو ’’کلے‘‘ میں اجتاعی اور مروجہ طور پر ہوتی تھیں یا ہوتی ہیں۔

انگریزی ’’کلچر‘‘ اسی کلتور سے نکلا ہے جس کا ثبوت اس کی تحریری شکل میں موجود ہے یعنی جو حروف کے لحاظ سے ’’کلتور‘‘ ہے صرف بولنے میں تور’’چر‘‘ میں بدل جاتا ہے جسے کل چر کا لفظ انگریزی کلچر ،ہارٹی کلچر ٹشوکلچر مجموعی مفہوم وہی ہے اکٹھ، تجزیہ مہارت اور تحصیص۔یوں کلچر یا ثقافت کے معنی ہوئے گاوں یا بستی کی تفریحی اجتماعی سرگرمیاں۔تمدن بجائے خود مدنیت یا اجتماعی معاشرہ بنا کر رہنا۔ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر آباد ہونا۔

تہذیب اس بستی کو اور بستی میں رہنے والوں کو سنوارنا بُری سرگرمیاں چھوڑنااور اچھی سرگرمیاں اختیار کرنا،درختوں کی کانٹ چھانٹ کو بھی تہذیب کہا جاتا ہے یہ سب کچھ میں نے اس لیے بیان کیا ہے کہ موسیقی اور ہنسنا انسان کی بلکہ ہر حیوان کی فطری ضرورتیں ہیں۔اگرچہ کچھ لوگوں نے جنھیں اصطلاح میں نیم حکیم اور نیم ملا کہا جاتا ہے جو دین کو اپنے علم و ذہن کے مطابق محدود کرکے صرف ظواہر پر زور دیتے ہیں ان چیزوں کو لہو لعب کہتے ہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں تو چیزوں کو اتنا محدود کردیا گیا ہے سب سے بڑا گناہ موسیقی کو قرار دیا گیا ہے،چوری کیجیے قتل کیجیے ڈاکہ ڈالیے کھلے عام مال حرام ہڑپیے زنانہ کاری بدکاری کیجیے لیکن خبردار سیٹی بھی نہ بجے ورنہ گناہ عظیم کے مرتکب ہوجاوگے۔

اب جدید تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ ہنسنا اور گانا انسانی صحت کے لیے کتنا ضروری ہے جس کے لیے اکثر ممالک میں ’’کلب‘‘ بنائے جارہے ہیں۔ جہاں تک ’’بُرائی‘‘ کا تعلق ہے تو وہ تو استعمال پر منحصر ہے اگر کچھ لوگوں نے ان چیزوں کو غلط شکل دے کر غلط طریقوں پر استعمال کرنا شروع کیا ہے تو اس میں’’چیز‘‘ کا کیا قصور ہے یہی لوہا ہے آپ اس سے انسانی بہبود کے آلات بھی بناسکتے ہیں طبی زرعی اور دوسری مفید آلات علاج معالجہ میں استعمال ہونے والے آلات اورا سی لوہے سے خنجر تلوار بندوق توپ اور بم بھی بناسکتے ہیں۔

ایک پتھر اور اینٹ کو آپ آبادی میں بھی لگاسکتے ہیں اور کسی کے سر پر مار کر قتل بھی کرسکتے ہیں، ایک بوتل میں آپ شفا دینے والی دوا بھی بھر سکتے ہیں اور شراب یا زہر بھی بھر سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ بُرائیاں ’’چیزوں‘‘ میں نہیں انسانوں میں ہیں، چیزیں تو ساری اللہ کی نعمتیں ہیں، تحائف ہیں ، عطا ہیں اور اس نے کوئی چیز بھی غلط پیدا نہیں کی ہے۔ فطرت کی مخالفت کیوں ہے پھر دہراوں گا کہ بُری چیزیں نہیں ہوتیں استعمال کرنے والا بُرا ہوتا ہے۔
 

متعلقہ مضامین

  • بگرام ایئر بیس پر طالبان کا بڑا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوگیا، واشنگٹن پوسٹ کا تہلکہ خیز انکشاف
  • رافیل اور ایس-400 کی تباہی پاکستان کی برتری کا ثبوت ہے: سابق بھارتی آرمی چیف
  • افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت
  • بھارت کی تیزی سے ابھرتی جنگی ٹیکنالوجی: خطے کا بدلتا توازن؟
  • اسرائیل اور اس کے سہولت کاروں کو غزہ کی تعمیرِ نو کا خرچ اٹھانا چاہیے، اقوامِ متحدہ
  • بھارت میں لگژری برانڈ کی کولہاپوری چپل؛ قیمت جان کر ہوش اڑ جائیں گے
  • انسان اور چھوٹی کائنات (دوسرا اورآخری حصہ)
  • بھارت پاکستان پر الزام سے قبل اقلیتوںکو تحفظ فراہم کرے، ہندو کونسل
  • 100 خودکش ڈرون لے جانے والا جیو تیان، چین کی نئی ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کو چونکا دیا
  • گوگل اے آئی گلاسز متعارف کرانے کی تیاری کر رہا ہے