کورونا کا سیاسی استعمال: احتجاج دبانے کا نیا ہتھکنڈہ؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: پاکستان میں سیاسی چالاکیوں کی کوئی کمی نہیں لیکن عوام اب اتنے سادہ نہیں کہ ہر چال کو تسلیم کر لیں۔ اگر "کورونا کی واپسی" کا پروپیگنڈہ محض ایک سیاسی حربہ ہے تو یہ سندھ کے عوام کے ساتھ سنگین زیادتی ہوگی۔ اگر عوامی احتجاج کے خلاف اس قسم کی سازشیں رچی جا رہی ہیں، تو یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ سندھ کے لوگ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہیں اور اگر حکومت ان کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہے تو یہ تاریخ کا ایک اور سیاہ باب رقم کرے گا۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)
پاکستانی سیاست کی تاریخ ہمیشہ سے سازشوں، بحرانوں، بیانیوں کی جنگ حکومتی چالاکیوں اور عوامی احتجاج کو کچلنے کی کہانیوں سے عبارت رہی ہے لیکن جب کسی مخصوص وقت میں حکومتی بیانیہ عوامی ردعمل کو دبانے کے لیے استعمال ہو اور اس کے پیچھے طاقتوروں کا ہاتھ محسوس ہو, تو سوال اٹھنا فطری ہے اور شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ آج سابق صدر آصف علی زرداری کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی خبر نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ حیران کن طور پر یہ خبر اس وقت سامنے آئی جب دنیا بھر میں اس وباء کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اعلان ایسے وقت میں ہوا جب سندھ کے عوام متنازعہ کینالز کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، جس سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خبر کسی گہری سیاسی چال کا حصہ ہے۔
سندھ میں احتجاج کی حقیقت
سندھ کے عوام ہمیشہ سے اپنے آبی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم رہے ہیں۔ دریائے سندھ پر متنازعہ کینالز کی تعمیر ایک دیرینہ مسئلہ ہے، جس پر پہلے بھی مزاحمت کی گئی اور اب یہ ایک بار پھر عوامی تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں سندھ کے مختلف شہروں میں مظاہرے اور احتجاجی جلوس ہو رہے ہیں، جو حکومت کے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں۔ ایسے میں، اچانک "کورونا کی واپسی" کا پروپیگنڈہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا حربہ ہو سکتا ہے تاکہ احتجاج کو کمزور کیا جا سکے۔
کورونا کی واپسی: حقیقت یا فریب؟
عالمی سطح پر کورونا وائرس اب ختم شدہ سمجھا جا رہا ہے، عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق یہ وائرس اب وبائی شکل میں موجود نہیں اور بیشتر ممالک نے اس سے متعلقہ پابندیاں بھی ختم کر دی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، یہ وائرس اب کسی بڑے خطرے کے طور پر موجود نہیں رہا۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک خصوصاً سندھ میں، یہ وباء کیسے لوٹ آئی؟ کیا یہ واقعی ایک وبائی مسئلہ ہے یا محض عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوشش؟ اگر واقعی سندھ میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آ رہے ہیں، تو حکومت کو ان کے سائنسی شواہد پیش کرنے ہونگے۔
احتجاج دبانے کی روایتی کوششیں
پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عوام کسی اہم مسئلے پر احتجاج کرتے ہیں، حکومت کی جانب سے مختلف حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں تاکہ عوامی تحریک کو روکا جا سکے۔ کبھی سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنایا جاتا ہے، کبھی دفعہ 144 نافذ کر دی جاتی ہے اور اب بظاہر "کورونا کی واپسی" کا شوشہ چھوڑا گیا ہے تاکہ احتجاج کو جواز بنا کر روکا جا سکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کورونا واقعی واپس آیا ہے، تو یہ صرف سندھ تک محدود کیوں ہے؟ باقی صوبوں میں اس کا کوئی ذکر کیوں نہیں ہو رہا۔
میڈیا کا کردار: ذمہ داری یا حکومتی آلہ کار؟ کیا حکمران ہنگامی حالات کا ڈرامہ رچائیں گے؟
ایسے حساس موقع پر میڈیا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بدقسمتی سے، پاکستان میں کئی بڑے میڈیا ہاؤسز حکومتی بیانیے کو بغیر کسی تحقیق کے نشر کر دیتے ہیں، جس سے سچائی پس پردہ چلی جاتی ہے۔ صحافیوں اور میڈیا اداروں کو درج ذیل سوالات حکومت سے کرنے چاہئیں:
کیا حکومت کے پاس سندھ میں کورونا کے دوبارہ پھیلنے کے کوئی ٹھوس سائنسی شواہد موجود ہیں؟
سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں میں کورونا وائرس کیوں نہیں پایا گیا؟
کیا اس خبر کا مقصد سندھ میں جاری احتجاج کو ختم کرنا ہے؟
عالمی ادارہ صحت نے اس کی تصدیق کی ہے ؟
کیا حکومت اس معاملے کو شفاف انداز میں عوام کے سامنے رکھ رہی ہے؟
کیا یہ محض سندھ کے احتجاج کو "لاک ڈاؤن" کے ذریعے کچلنے کی کوشش ہے؟
عوام کو چاہیئے
بیداری اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں کیونکہ سندھ کے عوام کو اس وقت دوہری جنگ لڑنی ہے، ایک طرف آبی حقوق کی جدوجہد، دوسری طرف حکومتی پروپیگنڈہ کے خلاف۔ یہ وقت ہے کہ عوام حکومتی پروپیگنڈے کے خلاف بیدار ہوں اور حقیقت کو سمجھیں۔ ہر بیان کو بغیر تحقیق کے تسلیم نہ کریں، خاص طور پر ایسے مواقع پر جب عوامی حقوق کی تحریک اپنے عروج پر ہو۔ اگر یہ سازش احتجاج کو دبانے کے لیے رچی گئی ہے، تو عوام کو مزید مستحکم ہوکر اپنی آواز بلند کرنی چاہیئے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس معاملے کو اجاگر کرنا ضروری ہے تاکہ اصل حقیقت منظرِ عام پر آ سکے۔
* ہر غیر مصدقہ خبر کو شک کی نظر سے دیکھا جائے۔
* احتجاج کو سوشل میڈیا اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اٹھایا جائے۔
* سائنس اور مصدقہ شواہد کی بنیاد پر حکومت کو جواب دہ ٹھرایا جائے۔
پاکستان میں سیاسی چالاکیوں کی کوئی کمی نہیں لیکن عوام اب اتنے سادہ نہیں کہ ہر چال کو تسلیم کر لیں۔ اگر "کورونا کی واپسی" کا پروپیگنڈہ محض ایک سیاسی حربہ ہے تو یہ سندھ کے عوام کے ساتھ سنگین زیادتی ہوگی۔ اگر عوامی احتجاج کے خلاف اس قسم کی سازشیں رچی جا رہی ہیں، تو یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ سندھ کے لوگ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہیں اور اگر حکومت ان کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہے تو یہ تاریخ کا ایک اور سیاہ باب رقم کرے گا۔
اختتامیہ: تاریخ کا فیصلہ
اگر "کورونا کی واپسی" محض ایک فریب ہے تو یہ پاکستانی جمہوریت کے لئے ایک اور بدنما داغ ہے۔ سندھ کے عوام نے تاریخ میں کبھی بھی ظلم کو قبول نہیں کیا۔ آج بھی ان کا مطالبہ منصفانہ ہے کہ دریائے سندھ پر ہمارا حق ہے، حکومت کو چاہیئے کہ وہ پروپیگنڈے کے بجائے مکالمے راہ اختیار کرے اور دریائے سندھ پر مزید آبی چوری بند کرے ورنہ تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کورونا کی واپسی کورونا وائرس سندھ کے عوام احتجاج کو ہے تو یہ کے خلاف کی کوشش عوام کو رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
وفاقی حکومت کسی وقت بھی گرسکتی: پیپلز پارٹی رہنما شازیہ مری
ویب ڈیسک: ترجمان پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز شازیہ مری کا کہنا تھا وفاقی حکومت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے انتباہ پر غور کرے ورنہ وفاقی حکومت کسی وقت بھی گرسکتی ہے۔
ترجمان پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز شازیہ مری نے ’ کینالز‘ پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد کی عوام نے سندھو دریا پر نئی نہروں کے منصوبے کو مسترد کر دیا،عوام پہلے ہی پانی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں، نئی نہریں نکالنےکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وفاق دریائے سندھ پر 6 نئی نہروں کی تعمیر کے اپنے متنازعہ منصوبے سے فوری طور دستبردار ہوجائے۔
اسحاق ڈار کی افغان حکام سے اہم ملاقاتیں، مشترکہ امن و ترقی کا عہد
شازیہ مری نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے انتباہ پر غور کرے ورنہ وفاقی حکومت کسی وقت بھی گرسکتی ہے، چیئرمین بلاول کہہ چکے ہیں کہ حکومت اور عوام کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا، تو وہ ہر بار عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے طاقت کا سرچشمہ صرف عوام ہے،گزشتہ جلسے میں عوام صرف “ کینالز نامنظور” کا نعرہ لگاتے ہوئے سنائی دیئے، پانی کے حقوق کی جنگ بلاول بھٹو کو ورثہ میں ملی شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی کالا باغ ڈیم کے خلاف جنگ لڑی،متنازعہ آبی منصوبے کے خلاف جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے آواز اٹھائی تو اس وقت ملک بھر سے جیالے باہر نکلے، بلاول بھٹو بھی اپنی والدہ کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔
سرکاری گاڑی کا استعمال، سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل کرنیوالے ڈان ساتھی سمیت گرفتار
پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی مخالفت برائے مخالفت پر یقین نہیں رکھتی وہ متنازعہ کینال منصوبہ کی اس لیے مخالفت کر رہی ہے کہ اُس سے وفاق کو خطرہ ہے،کوئی بھی منصوبہ جسے صوبوں کی عوام مسترد کردے وہ وفاق کے حق میں ہو ہی سکتا۔
بلاول بھٹو نے کہا ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے اور عین اس وقت ایک ایسا موضوع چھیڑ دیا گیا ہے جس سے بھائی کو بھائی سے لڑنے کا خطرہ ہے،چیئرمین بلاول نے یہ بات واضح کر دی کہ پیپلز پارٹی کو وزارتیں نہیں چاہیئں، لیکن پیپلز پارٹی کینالز کے معاملے پر بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔
کاروباری افراد کے جان و مال کا تحفظ ریاست کا فرض ہے؛ طلال چوہدری
پانی کی پہلے ہی ملک میں قلت موجود ہے، اور ایسے حالات میں کینالز بنانے کے منصوبے کا پھر کیا مطلب ہے؟جو لوگ سمجھتے ہیں کہ دھمکیوں سے پیپلزپارٹی کو ڈرایا جاسکتا ہے، تو وہ غلطی پر ہیں، پیپلز پارٹی کبھی پیچھے نہیں ہٹی۔
شازیہ مری کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے نہیں نکلے ہم تو دریائے سندھ اور وفاق کو بچانے کے لیئےنکلے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کا اگلا جلسہ 25 اپریل کے روز سکھر میں ہوگا۔
شدید ردِعمل کے بعد فلم "جات" سے متنازعہ مناظر ہٹا دیئے گئے