غیبت امام ’’خیرالماکرین‘‘ کی حکمت عملی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہودیوں نے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو خدا نے انہیں تمام اہل زمین کی نظروں سے چھپا کر زمین سے ہی اٹھا لیا اور اب ان کی غیبت، امام مہدیؑ کی غیبت کے ساتھ ہی ختم ہوگی یا پھر ”اصحاب کہف“ جو ظالم حکمرانوں کے خوف سے ایک غار میں ایسے پناہ گزین ہوئے کہ ساڑھے تین سو سال تک اسی غار میں خوابیدگی کے عالم میں گزار دیئے۔ ان تمام مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے خدا بعض اوقات کسی مصلحت کے تحت اپنے فرستادہ بندوں کو پردہء غیبت میں چھپا لیتا ہے اور پھر وقت آنے پر انہیں منصہء شہود پر ظاہر کر دیتا ہے۔ تحریر: سید تنویر حیدر
دشمن اگر اپنے جنگی ساز و سامان اور اپنے مادی وسائل کے اعتبار سے آپ سے زیادہ قوی ہو اور آپ کے مقابلے میں مورچہ زن ہو کر آپ پر مسلسل آتش و آہن کی بارش برسا رہا ہو تو ایسے میں آپ کو اس کی کمین گاہ یا اس کے مورچے تک پہنچنے کے لیے ایک خاص قسم کی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ آپ کو اپنے اس مطلوبہ ہدف تک پہنچنے کے لیے کبھی کبھی پیٹ کے بل رینگنا پڑتا ہے اور ”پن ڈراپ خموشی“ اختیار کرنا پڑتی ہے۔ قدم بہ قدم اور لمحہ بہ لمحہ اپنی منزل تک پہنچنے کے اس سفر میں آپ کو انتظار کی ایک طویل اور صبرآزما اذیت سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی اور جلد بازی آپ کے سارے منصوبے کو چوپٹ کر سکتی ہے۔ اس طرح کے عالم اسباب میں اگر کوئی زمانے پر صدیوں سے مسلط عالمی ستمگروں کو صفحہء ہستی سے محو کرنا چاہے تو وہ اپنی عالمی تحریک کو جس حکمت عملی کے تحت چلائے گا یقیناً وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور بے مثال ہوگی۔
فی زمانہ اگر کوئی اس عالمی تحریک کے کسی ایک حصے کی جھلک دیکھنا چاہتا ہے تو اسے ”انقلابِ اسلامیِ ایران“ کی کامیاب تحریک کا مطالعہ کرنا چاہیئے۔ آج بعض کوتاہ نظر تمام اسلامی فرقوں کے متفقہ عقیدے کے مطابق دنیا سے کفر اور ظلم کا اختتام کرنے والے اور عدل اجتماعی کی بنیاد پر عالمی اسلامی حکومت کا قیام کرنے والے امام مہدیؑ کی عارضی غیبت پر اعتراض کرتے ہیں اور دشمنوں کے مقابلے میں مخصوص وقت کے لیے یا ”وقت معلوم“ تک کے لیے ان کی غیبت اور روپوشی کو ان کی بزدلی اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کے فرار سے تعبیر کرتے ہیں۔ حالانکہ اس طرح کے اعتراضات کرنے والوں کا بھی عقیدہ ہے کہ وہ جن کو امام مہدیؑ سمجھتے ہیں انہیں ابھی پیدا ہونا ہے اور یہ کہ اپنی پیدائش کے تیس چالیس سال بعد وہ اپنے آپ کو دنیا پر ظاہر کریں گے۔ دنیا کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں بعض کے نزدیک تو شاید وہ پیدا ہو چکے ہیں۔ گویا اس عقیدے کی رو سے بھی وہ پیدا ہونے کے بعد ایک خاص مدت تک پردہ غیبت میں رہیں گے۔
یعنی اختلاف صرف ”عرصہء غیبت“ پر ہے نہ کہ ”پردہء غیبت“ پر۔ امر واقعہ یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا اس طرح سے منظرعام سے غائب رہنا، کائنات کے سب سے بڑے منصوبہ ساز اور کار جہاں کے سب سے بڑے کارساز کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ یہ سنت انبیاءؑ ہے کہ انہیں لوگوں کے شر سے بچنے اور دین حقہ کی حفاظت کے لیے بعض اوقات لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہنا پڑا۔ امام زمانہؑ کے حوالے سے ان کے بغض میں بعض اندھے لوگ انہیں مستقلاً کسی غار میں پوشیدہ سمجھ کر انہیں اور ان کے چاہنے والوں کو طنز و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ حالانکہ وہ گزشتہ تقریباً ایک ہزار سال سے کسی غار میں چھپے ہوئے نہیں ہیں بلکہ مصلحت خداوندی کے تحت لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ کر اپنا کار امامت بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ جس کا ثبوت آج عالمی مستکبرین کے خلاف مستضعفین جہان کے ایک ایسے ”محور مقاومت“ کی تشکیل ہے جو اپنے دامن میں ”وعدہ الہی“ کے پورا ہونے کی نوید اور اپنے زمانے کے امامؑ کے ظہور کی امید لیے قدم بہ قدم ایک عظیم فتح مبین کی جانب رواں دواں ہے۔
غیبت امامؑ پر معترضین کو سب سے پہلے رسول خداؐ کی سنت اور ان کے عمل کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ کیا رسول خداؐ نے کفار مکہ کے شر سے بچنے لیے تین دن تک ”غار ثور“ میں پناہ نہیں لی تھی؟ اس کے علاوہ کئی اولوالعزم انبیاءؑ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے بعض اوقات چھپ کر کار پیغمبری انجام دیا۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے بحکم خدا چھپتے چھپاتے مدائن کی طرف نکل گئے۔ ان کے وجود کو تو شکم مادر میں ہی فرعون سے چھپایا گیا تھا ورنہ فرعون انہیں دنیا میں آنکھ کھولنے سے پہلے ہی قتل کروا دیتا۔ انہوں نے فرعون کے خلاف اپنی خفیہ تحریک کا آغاز تو اپنی شیر خوارگی کے زمانے ہی سے کر دیا تھا جب ان کی والدہ نے انہیں ایک صندوق میں بند کرکے دریا برد کردیا تھا۔
کیا یہ سب کچھ بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل تھا؟ یہودیوں نے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو خدا نے انہیں تمام اہل زمین کی نظروں سے چھپا کر زمین سے ہی اٹھا لیا اور اب ان کی غیبت، امام مہدیؑ کی غیبت کے ساتھ ہی ختم ہوگی یا پھر ”اصحاب کہف“ جو ظالم حکمرانوں کے خوف سے ایک غار میں ایسے پناہ گزین ہوئے کہ ساڑھے تین سو سال تک اسی غار میں خوابیدگی کے عالم میں گزار دیئے۔ ان تمام مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے خدا بعض اوقات کسی مصلحت کے تحت اپنے فرستادہ بندوں کو پردہء غیبت میں چھپا لیتا ہے اور پھر وقت آنے پر انہیں منصہء شہود پر ظاہر کر دیتا ہے۔ اللہ کے یہ بندے اللہ کے دشمنوں پر براہ راست وار کرنے کی بجائے زیرزمین ان کی بنیادوں کو کھوکلا کرنے اور ان کی جڑوں کو کاٹنے کا کام کرتے رہتے ہیں۔ ان کا یہ عمل ان کی بزدلی کی علامت نہیں ہے بلکہ حکمت الہی کے تحت مصلحت اللہٰی کا تقاضا ہے۔
”واللہ خیرالماکرین“
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علیہ السلام کی نظروں سے حکمت عملی بعض اوقات کی غیبت کے لیے کے تحت ہے اور
پڑھیں:
فلم ویلکم کے اداکار کا اکشے کمار کے ملازموں سے بھی کم معاوضہ ملنے کا انکشاف
بالی ووڈ کی مشہور کامیڈی فلم ’ویلکم‘ کے اداکار مشتاق خان نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں فلم کیلئے اکشے کمار کے اسٹاف سے بھی کم معاوضہ ملا تھا۔
بالی ووڈ اداکار مشتاق خان، جنہوں نے 2007 کی کامیاب کامیڈی فلم ویلکم میں ’بلو‘ کا یادگار کردار ادا کیا تھا، نے ایک حالیہ انٹرویو میں فلم کے معاوضے سے متعلق حیران کن انکشافات کیے ہیں۔
ان کا اس فلم سے مشہور مکالمہ ’میری ایک ٹانگ نقلی ہے، میں ہاکی کا بہت بڑا کھلاڑی تھا‘ آج بھی شائقین کو یاد ہے، تاہم اداکار نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں فلم کے لیے نہایت کم معاوضہ دیا گیا تھا۔
مشتاق خان کے مطابق فلم کے معاہدے میں انہیں 20 یا 25 دن کی شوٹنگ کے لیے ایک لاکھ روپے دیے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن شوٹنگ کی مدت بڑھا کر مزید 10 اور پھر 15 دن کر دی گئی، جبکہ معاوضے میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ ’یہ بات مجھے غلط لگی۔ ان (اکشے کمار) کے اسٹاف کو یومیہ بنیاد پر ادائیگی کی جاتی تھی، اگر ہمیں بھی اسی حساب سے پیسے ملتے تو کمائی کہیں زیادہ ہوتی۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ فنکاروں کو ان کی محنت کے مطابق مناسب معاوضہ ملنا چاہیے۔
یاد رہے کہ مشتاق خان آخری بار بلاک بسٹر فلم ’استری 2‘ میں اداکاری کے جوہر دکھاتے نظر آئے تھے۔