Islam Times:
2025-04-22@07:32:22 GMT

غزہ، لبنان و یمن والوں کی عید

اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT

غزہ، لبنان و یمن والوں کی عید

اسلام ٹائمز: آپ ضرور عید منائیں، آپکو کسی نے منع نہیں کیا ہے۔ لیکن مظلوموں کے درد کو یاد رکھیئے، بائیکاٹ جاری رکھیں، فلسطینی عوام کیلئے جو ممکن ہو، انکی مدد کریں۔ ایسے حالات میں کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے درد پر خاموش تماشائی بنا رہے، فلسطینیوں کے دکھ اور درد میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ آئیں اس عید پر ہم اپنے غزہ، لبنان اور یمن کے مظلوم بھائیوں کو بھی اپنی خوشیوں میں یاد رکھیں اور پھر انکے درد کا مداوا کرنے کیلئے عملی اقدامات انجام دیں۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

سب سے پہلے تو میں آپ سب کو عید کی مبارک باد دیتا ہوں۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ فلسطین و لبنان اور یمن کے لوگوں کو کیسے عید مبارک باد کہوں۔؟ جب فلسطین کی طرف دیکھتا ہوں تو غزہ ایک مرتبہ پھر جل رہا ہے، ملبہ کے ڈھیر پر موجود خیموں میں بسنے والے بے یار و مدد گار لوگ امریکی و اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غزہ کے بچے یتیم ہیں، ہر طرف ایک اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ میں کس طرح ان فلسطین اور غزہ والوں کو عید مبارک کہہ دوں۔؟ جن کے پیارے گذشتہ دنوں میں موت کی نیند سو چکے ہیں۔ جن پر امریکی و اسرائیلی دشمن نے جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ میں کس طرح غزہ والوں کو عید مبارک کہوں کہ غزہ کے میرے بچے بھوک اور پیاس کی شدت سے بلک رہے ہیں۔ ہاں امت اسلام کے لوگوں کو میں مبارکباد دیتا ہوں کہ جنہوں نے روزہ بھی رکھا، نمازیں بھی انجام دیں، فطرہ و زکواۃ بھی ادا کی ہے۔

تراویح بھی انجام دی، ختم قرآن بھی کیا اور نہ جانے اعتکاف کے ساتھ ساتھ ڈھیروں عبادات کو سمیٹا ہے۔ پھر عید کی نمازیں پڑھنے کے بعد جوش و خروش سے اپنے پیاروں کے سینہ سے لگ کر عید کی مبارک بادیں دے رہے ہیں۔ لیکن میرا یہاں پر ان سب سے ایک سوال ہے کہ مجھے بتائیں کہ آپ کی یہ ساری عبادت اور سب کچھ کس کام کا ہے۔ اگر آپ کے بھائی اور بچے غزہ میں بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، یہ سب کچھ کس کام کا ہے کہ جب غزہ میں جارحیت ہے اور ہم ظلم پر خاموش ہیں۔ ایسی نماز اور روزہ کا کیا فائدہ ہوا کہ ہم فلسطین کے لوگوں کو نجات دلوانے میں کامیاب نہ ہوئے۔؟ یہ سوچئے گا ضرور اور مجھے بھی بتائیے گا۔

فلسطین و غزہ کے بعد جب لبنان کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے یہاں بھی دس ہزار سے زائد شہداء اور ان کے لواحقین نظر آرہے ہیں۔ میں کس طرح اپنے لبنان کے بھائیوں کو عید کی مبارک باد دے دوں کہ جن کے گھروں کو اسرائیلی اور امریکی جنگی جہازوں نے بمباری کے ذریعے منہدم کر رکھا ہے۔ جن پر روزانہ معمول سے بمباری کی جا رہی ہے، جبکہ گھر ملبہ کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔ بیروت شہر جو روشنیوں اور خوشیوں کا شہر تھا، آج کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے تو میں ایسے حالات میں کس طرح لبنان والوں کو عید مبارک کہہ سکتا ہوں۔؟ پھر سب سے بڑھ کر لبنان میں بسنے والی ایک عظیم شخصیت سید حسن نصراللہ اور ان کے دنیا بھر میں کروڑوں چاہنے والوں کو کس طرح عید مبارک کہہ دوں۔؟

میں دنیا کے سب لوگوں کو عید مبارک کہہ رہا ہوں، لیکن فلسطین و غزہ اور لبنان والوں کو کس منہ سے عید مبارک کہہ دوں؟ جبکہ ہم نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ہم ان کی مدد کرسکتے تھے، لیکن نہیں کی تو اب عید مبارک کس طرح کہہ سکتے ہیں۔؟ عید مبارک تو وہ لوگ کہہ سکتے ہیں، جنہوں نے عملی طور پر غزہ و لبنان والوں کے لئے مدد کی ہے اور ان کے لئے آواز بلند کی ہے۔ اگر ہمارا شمار ایسے لوگوں میں سے ہے کہ صرف ہم نماز و روزہ میں مشغول رہے اور عبادات میں مصروف عمل رہے اور اپنے غزہ و لبنان کے بھائیوں کو فراموش کیا تو اب ہمیں یہ حق بھی نہیں ہے کہ ہم ان کو عید مبارک کہہ سکیں۔

عید ضرور منائیں، لیکن فلسطین و غزہ اور لبنان و یمن کے مظلوم عوام کو یاد رکھیں کہ جو پوری انسانیت اور امت مسلمہ کے تحفظ اور عزت و آبرو کی جنگ لڑ رہے ہیں اور میدان میں قربانیاں دیتے ہوئے اعلان کر رہے ہیں کہ ذلت کے راستے کو قبول نہیں کریں گے۔ یمن و لبنان کے لوگ امریکی اور اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں، کیونکہ وہ عہد کرچکے ہیں کہ غزہ کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کیا ہم نے ایسا کوئی عہد کیا ہے۔؟ کیا ہم نے ایسا کوئی کام کیا ہے کہ ہم کہہ سکیں کہ ہم غزہ کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔؟ ہمیں سوچنا ہوگا اور آج ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگرچہ وقت کافی بیت چکا ہے، لیکن دیر اب بھی نہیں ہوئی ہے۔ دیر آئے درست آئے کی بنیاد پر ہمیں آج بھی فیصلہ کر لینا چاہیئے اور یمن و لبنان والوں کی طرح غزہ کی حمایت سے کسی بھی صورت دستبردار نہ ہونے کا عزم مصمم کرنا چاہیئے۔

آج ہم آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں دیکھ رہے تو یقین رکھیئے کل قیامت کے دن ہمیں پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔ آج وقت ہم سے تقاضہ کر رہا ہے کہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ خاموش تماشائیوں کی صف سے نکل کر میدان والوں کی صف میں آئیں۔ یہ کسیے ہوسکتا ہے کہ مسلم امہ ایک جسد واحد کی طرح ہو اور پھر اس جسد واحد کے ایک حصہ فلسطین سے خون رس رہا ہو اور جسد واحد درد بھی محسوس نہ کرے، نہیں یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ مجھے ایک فلسطینی کے یہ جملے شدید کرب میں مبتلا کر رہے ہیں کہ اس نے طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ "عید مبارک" کہہ سکتے ہیں اور اکٹھے ہو کر گھر والوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، لیکن آخر کون سی عید۔؟ فلسطینی لڑکی کہتی ہے کہ "کوئی رمضان نہیں، کوئی عید نہیں۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں کچھ بھی تو معمول پر نہیں۔ ہم صرف بیٹھ کر غزہ کے بارے میں سوچتے ہیں۔"

خلاصہ یہ ہے کہ آپ ضرور عید منائیں، آپ کو کسی نے منع نہیں کیا ہے۔ لیکن مظلوموں کے درد کو یاد رکھیئے، بائیکاٹ جاری رکھیں، فلسطینی عوام کے لئے جو ممکن ہو، ان کی مدد کریں۔ ایسے حالات میں کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے درد پر خاموش تماشائی بنا رہے، فلسطینیوں کے دکھ اور درد میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ آئیں اس عید پر ہم اپنے غزہ، لبنان اور یمن کے مظلوم بھائیوں کو بھی اپنی خوشیوں میں یاد رکھیں اور پھر ان کے درد کا مداوا کرنے کے لئے عملی اقدامات انجام دیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کو عید مبارک کہہ لبنان والوں سکتے ہیں نہیں کی اور یمن رہے ہیں یمن کے کے درد کیا ہے غزہ کے کے لئے عید کی ہے اور

پڑھیں:

ایف آئی آر کی کہانی

ابو سفیان کو تھانے میں موٹرسائیکل چوری کی ایف آئی آر درج کرانی تھی جو اس کے گھر کے باہر سے چوری ہو ئی،وہ ایف آئی آر درج کرانے محلے والوں کے ہمراہ تھانے پہنچا اور محررکو واردات کی جتنی بھی تفصیل بتاسکتا تھا، بتائی،محرر کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او کی اجازت کے بغیر ایف آئی آر کا اندراج نہیں کیاجاسکتا۔چونکہ ایس ایچ او تھانے سے باہر ہیں۔اس لئے محرر نے صبح سے پہلے ایف آئی آر کے اندراج سے معذرت کر لی۔ اس وقت رات کے دس بج رہے تھے جبکہ صبح ہونے میں ابھی کئی گھنٹے باقی تھے-محرر جو اے ایس آئی رینک کا افسر تھا،مقدمہ کے اندراج میں مسلسل لیت ولعل سے کام لےرہا تھالیکن ابو سفیان بھی بضد تھاکہ ایف آئی آر درج کرائے بناتھانے سےواپس نہیں جائےگا-کافی بحث و تکرار کےبعد بالآخر محرر نے وائرلیس پر ایس ایچ او کو وقوعہ کی اطلاع دی اور واپس تھانہ آنے کی درخواست کی۔کچھ ہی دیرگزری ہو گی کہ ایس ایچ او کی سرکاری گاڑی تھانہ میں داخل ہوئی۔ابو سفیان نے ان کےسامنے اپنا مدعابیان کیا۔تاہم ایس ایچ او نےکوئی خاص نوٹس نہ لیا- اندراج مقدمہ کے لیئے شرط عائد کی کہ وہ کسی پر شک کا اظہار کرے۔ تب ابو سفیان گویا ہوا کہ بلا یقین وہ کسی پر کیسے شک کا اظہار کرسکتا ہےلیکن ایس ایچ او اپنے مدعا پر قائم رہا۔باربار شک کی گردان دہراتارہا۔ بالآخر ابوسفیان تنگ آکر بولا ایس ایچ او صاحب ! سچ پوچھیں تو مجھے آپ پر ہی شک ہے کہ موٹرسائیکل کی چوری میں آپ کا ہاتھ ہے۔ یہ سن کر ایس ایچ او کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ لال پیلا نظر آنے لگا۔ ابوسفیان نے ایس ایچ او کی یہ حالت دیکھی تو مزید کہاایف آئی آر درج نہیں ہونی تو ایس پی کا آفس زیادہ دور نہیں ہے۔ میں ایک صحافی ہوں۔ میری ایف آئی آر درج نہیں ہو گی تو دن چڑھتے ہی بڑے صاحب (ایس پی)کے آفس پہنچ جائوں گا اور آپ کی شکایت کروں گا۔
اس مکالمے کے بعد ایس ایچ او اندراج مقدمہ کے لئے راضی ہوا اور نامعلوم چور کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔ یہ لاہور کے تھانہ شاہدرہ کا سچا واقعہ ہے۔ جو کئی سال پہلے پیش آیا۔ یہ بات خود ابوسفیان نے مجھے بتائی، جو ایک ماہنامہ میگزین کا ایڈیٹر و پبلشر تھا۔ ایف آئی آر کے موضوع پر یہ کالم تحریر کرتے وقت مذکورہ واقعہ اس لئے کوٹ کیا کہ آپ سب ایف آئی آر کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھ سکیں۔ یہ ایک واقعہ نہیں اس جیسے بے شمار واقعات روزانہ کی بنیاد پرتھانوں میں پیش آتے ہیں اور لوگوں کو اندراج مقدمہ کے لئے در بدر ہونا پڑتا ہے۔ پتہ نہیں، کہاں کہاں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ ایف آئی آر ہے کیا؟ایف آئی آر سے مراد فرسٹ انفارمیشن رپورٹ اورمعنوی اعتبار سے پہلی اطلاعی رپورٹ ہے۔ جرم ناقابل دست اندازی ہو تو روزنامچے میں رپورٹ تحریر کرکےمحرر کی جانب سے سائل کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیےکہاجاتا ہے۔ موجووہ قانون میں کسی بھی فوجداری مقدمہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جس میں جرم، وقت، جائے وقوعہ اور چشم دید گواہان پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہ چاروں چیزیں ایف آئی آر کی بنیاد بنتی ہیں۔ یعنی جرم، وقت، جائے وقوعہ اور چشم دید گواہان۔ ایف آئی آر کا متن جتنے کم الفاظ میں ہوگا، مدعی یااستغاثہ اتنے ہی اچھے انداز میں اسے ٹرائل کے وقت عدالت میں ثابت کرسکے گا۔ عدم ثبوت کی بنیاد پر ملزم یا ملزمان کے بری ہونے کے سو فیصد چانسز ہوتے ہیں۔ اس لئے جب بھی کسی وقوعہ کی ایف آئی آر درج کرائی جائے ، اس کی نوعیت عمومی ہو یا سنگین، کم سے کم الفاظ میں درج کرانی چاہیے ۔ مثال کے طور پر فلاں وقت اور فلاں مقام پر ایک نامعلوم شخص (کسی کو نامزد بھی کیاجا سکتاہے)نے یہ جرم کیا۔ جرم کی نوعیت کے مطابق ہی دفعات لاگو کی جاتی ہیں جو قابل ضمانت بھی ہو سکتی ہیں اور ناقابل ضمانت بھی۔پاکستان میں مخالفین کو پھنسانےکے لئےفرضی کہانیوں پرمبنی جھوٹی ایف آئی آرزکا اندراج عام سی بات ہے۔ تعزیرات پاکستان میں کسی کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرانا ایک جرم قرار دیا گیا ہے۔ جس کی سزا سات سال تک قید ہو سکتی ہے۔
پاکستان پینل کوڈ سیکشن 193 اور 194 کے تحت جھوٹی گواہی دینے والے کو سزائے موت تک دی جا سکتی ہے-کسی کے خلاف اگر جھوٹی ایف آئی آر درج ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ ایسی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اگر چالان متعلقہ عدالت میں پیش نہیں ہوا تو آئین کے آرٹیکل 199اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 561اے کے تحت جھوٹی ایف آئی آر کے اخراج کے لئے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی جا سکتی ہے۔ اگر ملزم اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایسی ایف آئی آر کے اخراج کا حکم جاری کر سکتی ہے۔اس کی مثال 2008ء میں ہائی کورٹ کے جسٹس کاظم علی ملک کے ایک فیصلے سے دی جاسکتی ہے۔ اس کیس میں مخالفین کا آپس میں لین دین کا مسئلہ تھا۔ فیکٹری کے مالک نے ایک شخص سے تیل خریدا اور ادائیگی نہیں کی۔ یہ دیوانی نوعیت کا معاملہ تھا لیکن مدعی نے پولیس کی ملی بھگت سے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 406 کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔ عدالت نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد ایف آئی آر کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 406 کے خلاف قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر کے اخراج کا حکم جاری کر دیا، کہا یہ صریحا دیوانی مسئلہ ہے۔ اس میں پولیس نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا۔ نہ صرف یہ کہ ایف آئی آر کے اخراج کا حکم سنایا گیا بلکہ جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے والے لاہور کے تھانہ باغبانپورہ کے سب انسپکٹر اور تفتیشی افسر پر 50ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ یہ بھی حکم دیا کہ جرمانہ کی رقم مدعی کو ادا کی جائے۔ تاہم اگر کسی جھوٹی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کاچالان عدالت میں پیش کر دیا گیا ہو اور ٹرائل شروع ہو جائے تو پٹیشن کی صورت میں ہائی کورٹ متعلقہ عدالت سے ریلیف حاصل کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے۔ ایسی صورت میں علاقہ مجسٹریٹ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265کے تحت ملزم کو کسی بھی وقت مقدمہ سے ڈسچارج کر سکتا ہے۔ پولیس رولز 1934 میں درج قانون کی شق 24 اعشاریہ 7بھی متعلقہ تفتیشی افسر کو درج شدہ جھوٹی ایف آئی آر کو منسوخ یا خارج کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ پاکستان میں ہر روز ایسی سینکڑوں ایف آئی آرز درج ہوتی ہیں جن کا حقیقت یا سچ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے تفتیشی پولیس افسر کو پتہ چل بھی جائے کہ ایف آئی آر جھوٹی اور بے بنیاد ہے۔ پھر بھی اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسے خارج نہیں کرتا۔ تفتیشی افسر کی یہ قانونی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ ایف آئی آر کو بے بنیاد سمجھے اور مدعی سے شواہد طلب کرنے پر شواہد نہ ملنے کی صورت میں وہ اپنے قانونی اختیار کو استعمال کر کے مقدمہ خارج کر سکتا ہےلیکن عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ ایک بےگناہ کو بھی جھوٹی ایف آئی آر میں نامزد ہوکربڑی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب کے کسان کی بات کرنے والوں کو سندھ نظر نہیں آتا: عظمٰی بخاری
  • سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
  • شناختی کارڈ بنوانے والوں کی بڑی مشکل آسان ہوگئی
  • سرگودھا میں لڑکی والوں نے شہری کو شادی کے نام پر چونا لگادیا
  • اسرائیل کی جانب سے لبنان میں ایک گاڑی پر ڈرون حملہ
  • عیدالاضحی:جانو روں کی خریداری کرنے والوں کےلئے اہم خبر
  • دنیا کا خطرناک ترین قاتل گانا، جس کو سن کر مرنے والوں کی تعداد تقریباً 100 رپورٹ ہوئی
  • جائیداد کی کم قیمت لگاکر ٹیکس بچانے والوں کیلئے بری خبر
  • کاروبار پر حملہ کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا،طلال چوہدری
  • ایف آئی آر کی کہانی