پی ٹی آئی سمیت ہر جماعت سے بات کرنے کو تیار ہیں، رانا تنویر
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
شیخوپورہ(نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کا کہنا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت ہر جماعت سے بات کرنے کو تیار ہیں، جبکہ پی ٹی آئی چاہے تو قومی اسمبلی کی سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلا سکتے ہیں۔
شیخوپورہ کی تحصیل مریدکے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا تنویر نے کہا کہ ہم جمہوری لوگ ہیں اس لیے پی ٹی آئی سمیت ہر جماعت سے بات کرنے کو تیار ہیں، جبکہ سیاسی استحکام آجائے تو پاکستان بہت ترقی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کہتے ہیں کہ حکومت سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے بات ہوگی، اسٹیبلشمنٹ کئی بار کہہ چکی سیاسی لوگوں سے بات کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی چاہے تو قومی اسمبلی کی سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلا سکتے ہیں، پی ٹی آئی نے پہلے بھی 14 نام دے کر سیکیورٹی کمیٹی میں شرکت نہ کی۔
ایک سوال پر رانا تنویر حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن زیرک سیاستدان ہیں اور وہ کسی انشار کا حصہ نہیں بنیں گے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کی بہتری کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کی دن رات کی محنت سے پاکستان کی سمت درست ہوئی، ان کی کوشش ہے کہ عوام کو سستی بجلی ملے جبکہ وزیراعظم مستقبل میں بجلی اور ٹیکس کی کمی کا اعلان کر سکتے ہیں۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جعفر ایکسپریس اور دیگر دہشت گردی واقعات پر افغانستان سے رابطے میں ہیں، افغانستان سے کہہ دیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت کسی دہشت گرد گروپ کی سرپرستی نہ کرے، جبکہ بات چیت سے مسئلہ حل نہ ہوا تو سختی سے کام لیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام ہماری معیشت کے لیے بہتر ہوتے ہیں، تاہم کچھ شرائط کی وجہ سے اقتصادی نمو میں رکاوٹ آتی ہے۔
میانمار میں زلزلہ، پاکستان نے متاثرہ افراد کیلئے 70 ٹن امدادی سامان روانہ کردیا
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رانا تنویر نے کہا کہ پی ٹی آئی سے بات
پڑھیں:
تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
تہران(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 ) اعلیٰ ایرانی عہدیدار نے بتایا ہے کہ تہران امریکا کو واضح کرچکا ہے کہ یورینیم کی افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کے لیے مضبوط ضمانتوں کی ضرورت ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے جوہری معاہدے سے دوبارہ دستبردار نہیں ہوں گے.(جاری ہے)
عرب نشریاتی ادارے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان روم میں ہونے والے مذکرات کے دوسرے دور کو دونوں فریقوں نے مثبت قرار دیا ہے صدر ٹرمپ نے فروری سے تہران پر”زیادہ سے زیادہ دباﺅ“ کی مہم دوبارہ نافذ کی ہے اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے 2018 میں دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں.
ٹرمپ کی دو شرائط کے درمیان کے سالوں میں تہران نے 2015 کے معاہدے کے تحت اپنے ایٹمی پروگرام پر عائد پابندیوں سے مسلسل تجاوز کیا ان پابندیوں کا مقصد ایٹمی بم تیار کرنا مزید مشکل بنانا تھا سابق امریکی صدر جو بائیڈن، جن کی انتظامیہ نے 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی تاہم وہ تہران کی جانب سے اس ضمانت کے مطالبے کو پورا کرنے میں ناکام رہے کہ آئندہ کوئی امریکی انتظامیہ معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگی. تہران احتیاط کے ساتھ مذاکرات کے قریب پہنچ رہا ہے وہ کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے بارے میں شکوک اور ٹرمپ کے موقف پر شکوک و شبہات کا شکار ہے ٹرمپ نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یورینیم کی افزودگی کے تیز رفتار پروگرام کو روکا نہیں تو ایران پر بمباری کی جائے گی ایران کا مسلسل کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن ہے. تہران اور واشنگٹن کہہ چکے ہیں کہ وہ سفارت کاری کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری تنازع پر ان کے موقف ایک دوسرے سے الگ ہیں ایرانی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ تہران کی ریڈ لائنز جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے لگائی گئی ہیں کو مذاکرات میں عبور نہیں کیا جا سکتا. ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کی ریڈ لائنز کا مطلب ہے کہ وہ اپنے یورینیم کی افزودگی سینٹری فیوجز کو ختم کرنے، افزودگی کو مکمل طور پر روکنے یا افزودہ یورینیم کی مقدار کو اس سطح تک کم کرنے پر راضی نہیں ہوگا جو 2015 کے معاہدے میں طے پایا تھا انہوں نے کہا کہ وہ اپنے میزائل پروگرام پر بات چیت نہیں کرے گا جسے وہ کسی بھی ایٹمی معاہدے کے دائرہ کار سے باہر سمجھتا ہے ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کو عمان میں بالواسطہ بات چیت میں معلوم ہوا کہ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ وہ اپنی تمام ایٹمی سرگرمیوں کو روکے یہ ایران اور امریکہ کے لیے منصفانہ مذاکرات شروع کرنے کی بنیاد ہو سکتی ہے یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران نے گزشتہ روز کہا کہ امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ ممکن ہے اگر وہ سنجیدہ ارادوں کا مظاہرہ کرے اور غیر حقیقی مطالبات نہ کرے. امریکہ کے مذاکرات کار سٹیو وِٹکوف نے کو”ایکس“پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ایران کو امریکہ کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی ایٹمی افزودگی روکنا اور قریب ترین ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم کے ذخیرے کو ختم کرنا ہوگا . ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ایران اس ادارے کو اس عمل میں واحد قابل قبول ادارہ سمجھتا ہے انہوں نے بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکیوں کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ کو اس تعاون کے بدلے ایران کے تیل اور مالیاتی شعبوں پر عائد پابندیاں فوری طور پر ہٹانی ہوں گی.