Islam Times:
2025-04-22@01:36:14 GMT

کیا امریکہ ایران پر حملہ کرے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT

کیا امریکہ ایران پر حملہ کرے گا؟

اسلام ٹائمز: جہاں تک ایران کے خلاف کسی ممکنہ جنگ کی تیاری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں دو امکانات ہیں۔ جنگ ڈونلڈ ٹرمپ کی نہیں بلکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ضرورت ہے اور یہ اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ نیتن یاہو کی ضرورت بن گئی ہے کیونکہ اسرائیل میں اندرونی خلفشار اتنا بڑھ گیا ہے کہ خانہ جنگی کے امکانات اب اسرائیلی میڈیا بھی تواتر کے ساتھ ظاہر کر رہا ہے۔ یہ ملک سیاسی طور پر بری طرح تقسیم ہوگیا ہے۔ تحریر: رعایت اللہ فاروقی

مشرق وسطیٰ میں کچھ دن سے ماحول کچھ اس طرح کا چل رہا ہے جیسے امریکہ ایران سے کسی جنگ کی تیاری کر رہا ہو۔ اس ضمن میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بیان بازی بھی زوروں پر ہے اور یمن میں کچھ غیر ضروری فضائی حملے بھی کئے جاچکے۔ ان حملوں کو غیر ضروری ہم اس معنی میں کہہ رہے ہیں کہ جب سے غزہ میں سیز فائر کی صورتحال ہے، حوثیوں نے بھی بحیرہ احمر میں کسی جہاز کو نشانہ نہیں بنایا۔ سو امریکہ کے پاس یمن والے فضائی حملوں کا کوئی جواز نہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی وجہ نہ تھی تو پھر یہ فضائی حملے کئے کیوں گئے؟ اس ضمن میں یہ نکتہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جنگ امریکی نفسیات کا حصہ بن چکی ہے۔ وہ اس کے بغیر چین سے رہ ہی نہیں پاتے۔ چنانچہ ان کے جنگ گریز صدور بھی کسی ہلکی پھلکی ٹھس ٹھوس کے بغیر نہیں رہ پاتے۔

طاقت ایک نشہ ہے اور یہ نشہ امریکی ایوانوں میں ہمیشہ ہی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس ضمن میں امریکی صحافیوں تک کا مزاج یہ بن گیا ہے کہ جب کسی بڑے ملک مثلاً چین سے بھی سیاسی تنازع چل رہا ہو تو یہ امریکی صدر سے یہ سوال نہیں کرتے کہ آپ اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کرتے؟ بلکہ ان کا سوال کچھ یوں ہوتا ہے: ’’آپ اس معاملے پر چین کو سزا کیوں نہیں دیتے؟‘‘۔ انہیں لگتا ہے کہ چین امریکہ کی کسی گلی کا غنڈہ ہے جسے سزا دینا امریکی صدر کی ذمہ داری ہے۔ سو دنیا کی کسی بڑی سپر طاقت کے لئے ان کی جانب سے ’’سزا‘‘ لفظ کا استعمال ہی یہ واضح کردیتا ہے کہ اس قوم کے سویلینز کا تکبر بھی کس لیول کا ہے۔ جہاں تک ایران کے خلاف کسی ممکنہ جنگ کی تیاری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں دو امکانات ہیں۔

جنگ ڈونلڈ ٹرمپ کی نہیں بلکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ضرورت ہے اور یہ اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ نیتن یاہو کی ضرورت بن گئی ہے کیونکہ اسرائیل میں اندرونی خلفشار اتنا بڑھ گیا ہے کہ خانہ جنگی کے امکانات اب اسرائیلی میڈیا بھی تواتر کے ساتھ ظاہر کر رہا ہے۔ یہ ملک سیاسی طور پر بری طرح تقسیم ہوگیا ہے۔ ایک جانب ملک کا لبرل طبقہ ہے جو جنگ مخالف ہے اور ہر قیمت پر جنگ بندی بھی چاہتا ہے، قیدیوں کی رہائی بھی اور نیتن یاہو سے خلاصی بھی جبکہ دوسری جانب قدامت پسند بلکہ انتہاء پسند ہیں جو گریٹر اسرائیل کے خواب کی تعبیر چاہتے ہیں۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ لبرل اسرائیلی وہ ہیں جو یورپ سے آکر فلسطین پر قابض ہوئے تھے، جبکہ قدامت پسندوں میں عرب و افریقی یہودی شامل ہیں۔

چنانچہ یہ یورپین نژاد اسرائیلی آج کل کھلے عام یہ کہہ رہے ہیں کہ قدامت پسندوں نے انہیں یرغمال بنا لیا ہے اور یہی وہ اسرائیلی ہیں جن میں سے بہت سے اب اسرائیل کے مستقبل سے مکمل طور پر مایوس ہوکر ہجرت کر رہے ہیں۔ ان حالات میں کوئی بڑی جنگ ہی ایسا واحد آپشن ہے جو اسرائیل کو داخلی طور پر وحدت فراہم کرسکتا ہے۔ دنیا کی ہر قوم ایسے مواقع پر داخلی اختلافات بھلا کر ایک ہوجایا کرتی ہے۔ نیتن یاہو کی مشکل یہ ہے کہ یہ جنگ وہ اپنے بل بوتے پر نہیں لڑ سکتا۔ سو اس کی خواہش ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی یہ خدمت انجام دے۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہ امریکی صدر ہیں جنہوں نے اقتدار سنبھالنے سے چند ہفتے قبل امریکی پروفیسر جیفری سیکس کا وہ ویڈیو کلپ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کیا تھا، جس میں پروفیسر سیکس نیتن یاہو کے لئے گالی استعمال کرکے کہتے ہیں ’’پچھلے تیس سالوں کے دوران لڑی جانے والی تمام امریکی جنگوں کے پیچھے نتین یاہو ہے۔‘‘

یہ کلپ اگر آپ نے نہیں دیکھا تو ضرور دیکھئے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کلپ ممکنہ طور ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا میسج دینے کے لئے شیئر کیا تھا۔ دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کا یہی ماننا ہے کہ یہ میسج نیتن یاہو کے لئے ہی تھا۔ اب آجایئے دوسرے امکان کی جانب۔ اگر آپ ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹریک ریکارڈ دیکھئے تو وہ جنگ گریز صدر ہیں۔ وہ خود کو امن پسند صدر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مگر اس کے لئے وہ ایک فارمولا بھی پیش کرتے ہیں۔ جسے وہ ’’امن بزور طاقت‘‘ کا عنوان دیتے ہیں اور باور یہ کراتے ہیں جیسے یہ فارمولا کوئی نئی چیز ہو، اور وہی اسے تخلیق کرنے والے آئن سٹائن ہوں۔ جبکہ تاریخی طور پر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے آج تک جتنی بھی جنگیں مسلط کی ہیں وہ سب اسی دعوے کے ساتھ لڑی گئیں کہ یہ تو امن کے لئے لڑی جا رہی ہیں۔ کوئی ایک بھی امریکی صدر ایسا نہیں جس نے اپنی مسلط کردہ جنگ کا مقصد امن کا حصول نہ بتایا ہو۔

سو جب لڑی جنگ جارہی ہو اور مقصد اس کا امن کا حصول بتایا جارہا ہو تو یہ جنگ بزور طاقت والا قدیمی فارمولا ہی ہوگیا، اس میں نئی کیا چیز ہے؟ ممکنہ طور پر اس میں ایک چیز نئی ہوسکتی ہے۔ وہ یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مراد طاقت کا استعمال نہیں بلکہ طاقت کا ڈراوا ہو۔ چنانچہ جب ہم اس اینگل سے دیکھتے ہیں تو پہلی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ یہ معاہدہ کرنا چاہتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔ ایران یہ بات واضح کرچکا ہے کہ اس کے رہبر ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف فتویٰ دے چکے، لہٰذا وہ ان ہتھیاروں کے چکر میں ہی نہیں لیکن پرابلم یہ ہے کہ خود ایران کے ہی کچھ اہم ترین افراد مسلسل یہ بھی کہتے آرہے ہیں کہ ہمارے مسلک میں فتوے سے ’’رجوع‘‘ کا آپشن بھی موجود ہے۔ سو ڈونلڈ ٹرمپ کو معاہدے کے لئے گویا خود ایرانیوں نے ہی مجبور کیا ہے۔

اگر آپ کو یاد ہو تو کچھ روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کے مابین ڈھائی گھنٹے کی جو ٹیلیفونک گفتگو ہوئی تھی، اس کے اعلامیے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ صدر پیوٹن امریکہ اور ایران کے مابین معاملات طے کروانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کو براہ راست دباؤ میں لینے کی بجائے یہ دانشمندانہ راہ اختیار کر رہے ہیں کہ ایران کے سرپرست اعلی صدر پیوٹن کو ہی بیچ میں ڈال دیا ہے۔ تاکہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پاسکے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے وزراء دھمکیوں کی زبان کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ ہمارے نزدیک اس کے ممکنہ طور پر دو مقاصد ہوسکتے ہیں۔

ایک یہودی لابی کو خوش کرنا اور دوسرا یہ کہ جب صدر پیوٹن تصفیہ کرا دیں تو ڈونلڈ ٹرمپ ہیرو بن کر اپنی قوم سے کہہ سکیں، دیکھا پھر؟ یہ ہوتا ہے امن بزور طاقت۔ یہ معاہدہ ہم نے ڈنڈے کے زور پر ایران سے کروایا ہے حالانکہ فی الحقیقت معاہدہ کرانے میں کسی زور آزمائی کا نہیں بلکہ صدر پیوٹن کا ہاتھ ہوگا۔ پھر نوٹ کرنے والی ایک نہایت اہم چیز یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امن کا نوبیل پرائز حاصل کرنے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ وہ یوکرین اور مشرق وسطی دونوں جگہ جنگ ختم کرانے میں سنجیدہ ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ یوکرین میں وہ روس کی لگ بھگ ہر بات مان رہے ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں ان کی اب بھی پوری کوشش یہ ہے کہ وہاں امن تو ہوجائے مگر فلسطینی ریاست نہ بنے۔

ان حالات میں مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ سو مشرق وسطیٰ میں اگر انہوں نے عارضی طور پر بھی امن برقرار رکھ لیا تو ان کا امن کا نوبیل پرائز پکا ہی سمجھئے۔ وہ ایران کے ساتھ کوئی بڑی جنگ چھیڑ کر یہ انعام حاصل نہیں کرسکتے۔ ہم نے آپ کے  سامنے امکانات دونوں رکھ دیئے ہیں وہ بھی زمینی حقائق کے مطابق۔ ان پر غور کرکے آپ کوئی بھی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ مگر امید بہرحال امن کی ہی رکھنی چاہیئے اور حمایت بھی اسی کی کرنی چاہیئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نیتن یاہو کی ضرورت کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر رہے ہیں کہ نہیں بلکہ صدر پیوٹن ہے اور یہ کہ ایران ایران کے یہ ہے کہ کے ساتھ کے لئے امن کا

پڑھیں:

تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار

تہران(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 ) اعلیٰ ایرانی عہدیدار نے بتایا ہے کہ تہران امریکا کو واضح کرچکا ہے کہ یورینیم کی افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کے لیے مضبوط ضمانتوں کی ضرورت ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے جوہری معاہدے سے دوبارہ دستبردار نہیں ہوں گے.

(جاری ہے)

عرب نشریاتی ادارے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان روم میں ہونے والے مذکرات کے دوسرے دور کو دونوں فریقوں نے مثبت قرار دیا ہے صدر ٹرمپ نے فروری سے تہران پر”زیادہ سے زیادہ دباﺅ“ کی مہم دوبارہ نافذ کی ہے اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے 2018 میں دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں.

ٹرمپ کی دو شرائط کے درمیان کے سالوں میں تہران نے 2015 کے معاہدے کے تحت اپنے ایٹمی پروگرام پر عائد پابندیوں سے مسلسل تجاوز کیا ان پابندیوں کا مقصد ایٹمی بم تیار کرنا مزید مشکل بنانا تھا سابق امریکی صدر جو بائیڈن، جن کی انتظامیہ نے 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی تاہم وہ تہران کی جانب سے اس ضمانت کے مطالبے کو پورا کرنے میں ناکام رہے کہ آئندہ کوئی امریکی انتظامیہ معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگی.

تہران احتیاط کے ساتھ مذاکرات کے قریب پہنچ رہا ہے وہ کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے بارے میں شکوک اور ٹرمپ کے موقف پر شکوک و شبہات کا شکار ہے ٹرمپ نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یورینیم کی افزودگی کے تیز رفتار پروگرام کو روکا نہیں تو ایران پر بمباری کی جائے گی ایران کا مسلسل کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن ہے. تہران اور واشنگٹن کہہ چکے ہیں کہ وہ سفارت کاری کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری تنازع پر ان کے موقف ایک دوسرے سے الگ ہیں ایرانی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ تہران کی ریڈ لائنز جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے لگائی گئی ہیں کو مذاکرات میں عبور نہیں کیا جا سکتا.

ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کی ریڈ لائنز کا مطلب ہے کہ وہ اپنے یورینیم کی افزودگی سینٹری فیوجز کو ختم کرنے، افزودگی کو مکمل طور پر روکنے یا افزودہ یورینیم کی مقدار کو اس سطح تک کم کرنے پر راضی نہیں ہوگا جو 2015 کے معاہدے میں طے پایا تھا انہوں نے کہا کہ وہ اپنے میزائل پروگرام پر بات چیت نہیں کرے گا جسے وہ کسی بھی ایٹمی معاہدے کے دائرہ کار سے باہر سمجھتا ہے ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کو عمان میں بالواسطہ بات چیت میں معلوم ہوا کہ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ وہ اپنی تمام ایٹمی سرگرمیوں کو روکے یہ ایران اور امریکہ کے لیے منصفانہ مذاکرات شروع کرنے کی بنیاد ہو سکتی ہے یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران نے گزشتہ روز کہا کہ امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ ممکن ہے اگر وہ سنجیدہ ارادوں کا مظاہرہ کرے اور غیر حقیقی مطالبات نہ کرے.

امریکہ کے مذاکرات کار سٹیو وِٹکوف نے کو”ایکس“پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ایران کو امریکہ کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی ایٹمی افزودگی روکنا اور قریب ترین ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم کے ذخیرے کو ختم کرنا ہوگا . ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ایران اس ادارے کو اس عمل میں واحد قابل قبول ادارہ سمجھتا ہے انہوں نے بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکیوں کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ کو اس تعاون کے بدلے ایران کے تیل اور مالیاتی شعبوں پر عائد پابندیاں فوری طور پر ہٹانی ہوں گی.

متعلقہ مضامین

  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کر لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)
  • ٹرمپ کی تنبیہ کے باوجود اسرائیل کا ایرانی جوہری پروگرام پر حملے کا امکان