افغان پناہ گزینوں کے پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈلائن میں پھر توسیع
اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT
اسلام آباد: پاکستان نے ملک میں مقیم لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی آخری تاریخ میں توسیع کر دی ہے۔
غیر ملکی میڈیا ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک سرکاری عہدے دار نے منگل کو بتایا کہ یہ فیصلہ عیدالفطر کی چھٹیوں کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مارچ کے اوائل میں پاکستان کی حکومت نے مخصوص دستاویزات کے حامل افغان پناہ گزینوں کو 31 مارچ تک ملک سے چلے جانے کا حکم دیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق منگل کو ایک سرکاری عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’افغان شہریوں کے ملک سے جانے کی آخری تاریخ میں عیدالفطر کی تعطیلات کی وجہ سے اگلے ہفتے کے آغاز تک توسیع کر دی گئی ہے۔‘
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں موجود افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز لگ بھگ آٹھ لاکھ افراد کو ڈیڈلائن کے بعد بے دخلی کا سامنا ہو گا۔
اس کے علاوہ 13 لاکھ افغان شہری ایسے بھی ہیں جن کے پاس اقوام متحدہ کے ادارہ برائت مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے پروف آف رجسٹریشن کارڈز (پی او آرز) ہیں، انہیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی شہر کیہ حدود سے باہر منتقل کیا جانا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تقریباً 30 لاکھ افغان پاکستان میں مقیم ہیں جن میں سے بہت سے اپنے ملک میں کئی دہائیوں کی جنگ اور افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد وہاں سے فرار ہو چکے ہیں۔
پاکستانی انسانی حقوق کی وکیل مونیزا کاکڑ نے کہا کہ ’بہت سے افراد برسوں سے یہاں رہ رہے ہیں اور ان کے یوں واپس جانے کا مطلب سب کچھ ختم ہونا ہو گا۔‘
طالبان کے افغانسان پر کنٹرول کے بعد سے ان پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔
پاکستان نے افغانستان کے حکمرانوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ افغان سرزمین پر موجود عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام رہے ہیں۔۔ طالبان حکومت اس الزام کو مسترد کرتی چلی آ رہی ہے۔
پاکستان کے ایک وفد نے مارچ میں کابل میں حکام سے ملاقات کی تھی جس میں پاکستان نے خطے کے لیے افغانستان میں سلامتی کی اہمیت پر زور دیا۔
طالبان حکومت نے بارہا افغانوں کی اپنے ملک میں ’باوقار‘ واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ افغانستان کے وزیراعظم حسن اخوندزادہ نے افغانوں کی میزبانی کرنے والے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ انہیں زبردستی باہر نہ نکالیں۔
انہوں نے پاکستان کی اصل ڈیڈ لائن سے ایک روز قبل عید کے لیے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جبری ملک بدری کے بجائے افغانوں کی مدد کی جائے اور انہیں سہولیات فراہم کی جائیں۔‘
انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان کی اس مہم کی مذمت کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے افغانوں کو اپنے ملک واپس بھیجنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ’بدسلوکی کے ہتھکنڈوں‘ کی مذمت کی ہے ’جہاں انہیں طالبان کے ظلم و ستم اور سنگین معاشی حالات کا سامنا ہو گا۔‘
طالبان کی جانب سے پابندیوں کے باعث افغان لڑکیاں اور نوجوان خواتین وطن واپس جانے کی صورت میں تعلیم کے حقوق سے محروم رہ جائیں گی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دوسرے ممالک میں آبادکاری کے منتظر افغانوں کو اسلام آباد سے نکالے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بے دخلی کی صورت میں وہ ان ’غیرملکی مشنز سے دور ہو جائیں گے جنہوں نے ان کے ساتھ ویزا اور سفری دستاویزات کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا۔‘
سنہ 2023 کے آخر میں پاکستان کی جانب سے غیرقانونی طور پر مقیم فغانوں کو ملک چھوڑنے کے الٹی میٹم کے بعد اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2023 سے 2024 کے آخر تک آٹھ لاکھ سے زیادہ افغان واپس افغانستان پہنچے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
افغانستان اور دہشت گردی
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں بین الاقوامی سال برائے امن و اعتماد 2025عالمی دن برائے غیرجانبداری اور ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کے30سال مکمل ہونے پر منعقدہ اعلیٰ سطحی عالمی فورم سے خطاب کیا۔
اپنے اس خطاب میں انھوں نے اہم امور پر پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، غربت اور عدم مساوات دنیا کے بڑے خطرات ہیں، انھوں نے خبردار کیا کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے جس پر عالمی برادری افغان طالبان حکومت پر اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔
وزیراعظم نے کہا پاکستان عالمی امن و سلامتی کے فروغ کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے،پاکستان نے2025میں سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست سنبھالنے کے بعد عالمی امن کے فروغ کے لیے مؤثر اقدامات کیے،غزہ میں جنگ بندی کے لیے قطر، ترکیہ، سعودی عرب، یو اے ای اور ایران کی کوششوں کی حمایت کی اور فلسطینیوں و کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔
وزیراعظم نے کہا مشرق وسطی میں تادیر جنگ بندی اور انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی ضروری ہے ۔پاکستان نے خواتین اور کمزور طبقات کی معاشی شمولیت کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے روسی صدر ولادیمیر پوتن، ترک صدر رجب طیب ایردوان، ایرانی صدر مسعود پزشکیان، تاجک صدر امام علی رحمن اور کرغیزستان کے صدر سادر جپاروف سے غیر رسمی اور خوشگوار ملاقاتیں کیں۔
ان ملاقاتوں میں انھوں نے عالمی امور سمیت باہمی تجارتی معاملات پر بھی گفتگو کی ہے۔ انھوں نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کے دوران پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے میں شکریہ بھی ادا کیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ امن تب ہی ممکن ہو گا جب پاکستان کے سلامتی کے خدشات کو پوری طرح سے حل کیا جائے گا۔
صدررجب طیب اردوان نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی جانب سے نیک خواہشات پر ان کا شکریہ ادا کیا اور دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات استوار کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
وزیراعظم نے دیگر عالمی رہنماؤں کے ہمراہ ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کی پالیسی کی علامت یادگار غیرجانبداری کا دورہ کیا اور پھول چڑھائے ۔اس موقع پر روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، ترک صدر رجب طیب اردوان اور ترکمانستان کے صدر بردی محمدوف سمیت متعدد عالمی رہنما بھی موجود تھے جن سے وزیراعظم کا خوشگوار جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں ہونے والے اس اہم فورم میں خطے کے اہم ممالک نے شرکت کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ فورم کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔ اس فورم میں موسمیاتی تبدیلیوں پر بھی گفتگو ہوئی اور دہشت گردی خصوصاً افغانستان کے معاملات پر بھی لیڈروں کے ساتھ تبادلہ خیال ہوا۔
افغانستان اس وقت وسط ایشیا سے لے کر مشرق وسطیٰ تک اور دوسری طرف روس تک بحث ومباحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ افغانستان میں آپریٹ کرنے والے دہشت گرد گروپ اردگرد کے ممالک کے لیے مسلسل خطرہ بنتے نظر آ رہے ہیں۔
سارے ممالک اس صورت حال سے پریشان ہیں۔ پاکستان کا مؤقف تو اس حوالے سے بالکل واضح ہے کہ جب تک افغانستان کی حکومت پاکستان کے خدشات کو دور نہیں کرتی اس وقت تک صورت حال نارمل نہیں ہو سکتی۔
افغانستان پر برسراقتدار طالبان حکومت بھی عالمی موڈ کو دیکھ رہی ہے۔ طالبان حکومت مختلف حکمت عملیوں کے تحت کوشش کر رہی ہے کہ وہ کسی طریقے سے اقوام عالم کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جائے کہ وہ ایک ذمے دار حکومت ہے اور کوشش کر رہی ہے کہ عالمی برادری کے تحفظات کو دور کرے۔
اس سلسلے میں گزشتہ دنوں کابل میں افغانستان کے علماء کی کانفرنس بھی ہوئی جس میں دہشت گردی کی مذمت بھی کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان کے لوگوں کا کسی دوسرے ملک میں جا کر لڑنا خلاف اسلام ہے۔
جہاد کا حکم صرف ریاست ہی دے سکتی ہے۔ بظاہر یہ ایک اچھا اقدام نظر آتا ہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ جب تک عملی طور پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں نہیں ہوتیں، اس وقت تک معاملات درست نہیں ہو سکتے۔
پاکستان ہی نہیں بلکہ تاجکستان اور دیگر ممالک بھی افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی سے تنگ ہیں۔ ان کا بھی مطالبہ ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا جائے۔
پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں مقیم ہے۔ افغانستان کی طالبان رجیم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں داعش، خراسان صوبہ کے نام سے بھی دہشت گرد تنظیم کام کر رہی ہے۔
القاعدہ سے منسلک تنظیمیں بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ وسط ایشیائی نژاد لوگ بھی افغانستان میں موجود ہیں جو دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اس صورت حال میں اگر افغانستان پر برسراقتدار طالبان حکومت کی طرف دیکھا جائے تو اس کی جانب سے کوئی قابل ذکر کارروائی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
ٹی ٹی پی کے لوگ کھلے عام افغانستان میں موجود ہیں بلکہ وہاں کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان نے اس حوالے سے افغانستان کی حکومت کو ثبوت بھی فراہم کیے ہیں۔ افغانستان کے اربابِ اختیار بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہے۔
نہ ہی وہ یہ بتا رہے ہیں کہ افغانستان کی حکومت میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑائی لڑ سکے۔ اگر وہ اس بات کا اعتراف کر لیں کہ وہ تنہا دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ نہیں لڑ سکتے اور پاکستان کے ساتھ اس حوالے سے تعاون طلب کریں تو معاملات پر غور کر کے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
پاکستان زیادہ دیر تک اپنی شمال مغربی سرحدوں پر جاری اس سنگین صورت حال کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح تاجکستان اور افغانستان کے دیگر ہمسائے بھی افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں سے نظریں نہیں چرا سکتے۔
اقوام متحدہ بھی افغانستان کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ یورپی ممالک بھی اپنی تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔ اشک آباد میں وزیراعظم پاکستان نے بھی افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات کا ذکر کر دیا ہے۔
اس ساری پیش رفت سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان کی حکومت پر عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ افغانستان کی طالبان رجیم اندرونی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہے۔ افغانستان میں سابقہ شمالی اتحاد نئے رنگ میں متحد ہوتا نظر آ رہا ہے۔
این آر ایف نامی تنظیم احمد مسعود کی سربراہی میں سرگرم ہے۔ اس تنظیم نے پچھلے دنوں پنج شیر میں طالبان پر حملہ بھی کیا تھا۔ اس میں طالبان کا خاصا جانی نقصان بھی ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بھی مختلف تنظیمیں وہاں سرگرم عمل ہیں۔
یوں دیکھا جائے تو طالبان کے لیے اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تشویش ناک امر ہے۔ افغان طالبان نے دوحہ میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران جو وعدے کیے تھے، ان پر پورا اترنا لازم ہے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان وعدوں پر عمل بھی نہ کیا جائے اور افغانستان پر حکمرانی بھی جاری رکھی جائے۔ افغانستان کے عوام مسلسل جبر اور زیادتی کا سامنا کر رہے ہیں۔ افغانستان کا انفرااسٹرکچر برباد ہو چکا ہے۔
افغانستان کے وسائل کو اونے پونے داموں عالمی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ افغانستان میں جوابدہی کا نظام بھی موجود نہیں ہے۔ طالبان حکومت کے عہدیداروں کا احتساب کون کرے گا، اس کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
افغانستان کو امن وترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کی تمام قومیتوں، زبانوں اور ثقافتوں کو حکومت میں نمایندگی ملے۔ افغانستان کثیرالقومیتی اور کثیر اللسانی ملک ہے۔ اس پر کسی ایک گروپ کی حکومت دوسرے گروپوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
طالبان کی حکومت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ افغانستان میں تاجک، ازبک، ہزارہ، مینگول، گجر، پامیری اور دیگر قومیتیں آباد ہیں۔ حکومت میں ان کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی ان کی نمایندگی کم ہے۔
افغانستان کو ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو افغانستان کے تمام لوگوں کی نمایندہ ہو۔ افغانستان میں عام انتخابات وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔ طالبان کی حکومت کو اس جانب پیش قدمی کرنی چاہیے اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے عملی اقدام کرنے چاہئیں جس کے بغیر افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔