کینسر اور الزائمر کے علاج میں آرٹیفشل انٹیلیجنس (اے آئی) کا استعمال؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT
آرٹیفیشیل انٹیلی جنس (اے آئی، مصنوعی ذہانت) نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا لیکن اس سے قبل بھی اس میدان میں دلچسپ پیشرفت ہوئی، جس نے انسانیت کو صحت کے سنگین مسائل سے نمٹنے میں مدد دی۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے پروفیسر ڈاکٹر کامران خان بلیو ڈاٹ کمپنی کے بانی ہیں۔ یہ کمپنی بعض بیماریوں کی پیشگوئی کے لیے اے آئی استعمال کرتی ہے۔ انہوں نے ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کیا ہے جو خبروں کی ویب سائٹس سے لے کر ایئر لائن کی بکنگ تک کے ذرائع سے لے کر 65 زبانوں میں روزانہ ایک لاکھ مضامین کی ٹریکنگ کرتا ہے۔
دسمبر 2019 میں انہوں نے چین کے ووہان مارکیٹ میں ایک نئے وائرس کا سراغ لگایا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ یہ وائرس چین سے باہر پھیل جائے گا۔ انہوں نے کینیڈا میں اپنے گاہکوں کو مشورہ دیا کہ وہ ووہان جانے والے راستوں سے گریز کریں۔ خیال رہے کہ انہوں نے ایسا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (عالمی ادارہ صحت) کی طرف سے کووڈ ایمرجنسی کا اعلان کرنے سے ایک ماہ قبل کہا تھا۔
مزید پڑھیں: چین نے ’ڈیپ سیک‘ کے بعد ’مینس‘ نامی حیران کن اے آئی ایجنٹ تیار کرلیا
انہوں نے جوب اے آئی استعمال کیا اسے ’نیرو اے آئی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اے آئی کا ایسا مخصوص نظام ہے جو کسی مخصوص مسئلے کے لیے وقف ہے۔ یہ چیٹ جی پی ٹی کی طرح عام مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا اے آئی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ چیٹ جی پی ٹی کو طویل طبی مسائل کے حل تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کا ڈاکٹروں کے پاس جواب نہیں۔ کینسر اور الزائمر کی بیماری کی دوائیں تلاش کرنے کے لیے اے آئی کا استعمال کیسے کیا جا رہا ہے۔
آکسفورڈ میں پوسٹ گریجویٹ طالب علم کٹ گالا گھیر نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ابتدائی مرحلے میں کینسر کا پتا لگانے کا ایک نیا طریقہ تلاش کیا ہے۔ وہ ایک ریاضی داں ہے۔ اس نے اپنی زندگی ریاضی کو حیاتیات پر لاگو کرنے کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں بہت سے دوسرے محققین کینسر کا علاج تلاش کرنے کے لیے اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اے آئی کلاسز اہم سنگ میل
واضح رہے کہ ہندوستان اور ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک متعدی بیماریوں اور نایاب بیماریوں کا شکار ہیں۔ وہ اے آئی سے چلنے والے ٹولز بنانے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں جو بیماریوں کی جلد شناخت کرتے ہیں اور ان کے پھیلاؤ کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ اس سے لاکھوں جانیں بچانے میں مدد ملے گی۔
وہ مشترکہ ڈیٹا سینٹرز اور مشترکہ تحقیقی مراکز قائم کر سکتے ہیں۔ ٹورنٹو میں واقع بلیو ڈاٹ کمپنی جیسی سیکڑوں کمپنیوں کی ترقی میں مدد کر سکتے ہیں۔ اے آئی کی مدد سے دنیا کی نصف آبادی کے لیے صحتمند مستقبل کی تلاش میں اس کے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
سائنسدان اے آئی کا غلط استعمال کرکے پوری دنیا میں تباہی برپا کرسکتے ہیں۔ کچھ اے آئی ماڈل انسانی ہدایت کے بغیر از خود بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ جہاں اے آئی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے، وہیں یہ مہلک بیماریاں بھی پیدا کر سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الزائمر اے آئی علاج کینسر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الزائمر اے ا ئی علاج کینسر کر سکتے ہیں کرنے کے لیے کا استعمال استعمال کر اے ا ئی کا انہوں نے
پڑھیں:
سندھ کے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں قواعد کیخلاف تعیناتیاں، مریضوں کو علاج میں دشواریاں
کراچی کے بعض اور اندرون سندھ کے بیشتر اسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکز کے سربراہاں کی تعیناتی حکومت کے طے شدہ اور مروجہ قواعد کے خلاف کی گئی ہیں، ایسے اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں قواعد و ضوابط کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے من پسند اور ناتجربے کار افسران کو سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔
محکمہ صحت سندھ کے اس طریقہ کار کی وجہ سے محکمہ کا انفرا اسٹرکچر بھی شدید متاثر ہوکر رہ گیا ہے، اس صورتحال کے سبب اسپتالوں میں علاج کے لیے آنے والے مریضوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
صوبے سندھ کے اسپتالوں اور ضلعی و بنیادی صحت کے مراکز میں 2022 سے قبل سربراہان کی تعیناتی گریڈ 20 اور جنرل کیڈر کے ڈاکٹروں میں سے کی جاتی تھی تاہم ہائی کورٹ کے حکم نامے کے مطابق اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں ایسے ڈاکٹروں کو سربراہ بنایا جائے گا جس نے ایم بی بی ایس کے بعد (ایم پی ایچ) ماسٹر آف پبلک ہیلتھ کی ڈگری حاصل کی ہو۔
مذکورہ فیصلے کے بعد صوبائی محکمہ صحت نے اپریل 2022 میں ایک نوٹیفیکشن جاری کیا جس میں یہ طے پایا تھا کہ آئندہ اسپتالوں میں ایم بی بی ایس کے بعد (ایم پی ایچ) ماسٹر آف پبلک ہیلتھ کے حامل گریڈ 20 کے ڈاکٹروں کو کسی بھی سرکاری اسپتال یا ضلعی صحت کے مرکز کا سربراہ بنایا جائے گا۔ ایم پی ایچ وہ ڈگری ہوتی ہے جس میں اسپتال کا سربراہ مریضوں کی بیماریوں اور علاج اور اسپتال کا نظم و نسق چلانے کے لیے حکمت عملی طے کرتا ہے۔
محکمہ صحت حکومت سندھ کے اپریل 2022 میں جاری کردہ نوٹیفکیشن سندھ ہیلتھ مینیجمنٹ سروس رول 2022 میں واضح طور پر یہ کہا گیا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز سندھ، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر، اسپتالوں کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ اور ایڈیشنل میڈیکل سپریٹنڈنٹ، سیکریٹری سندھ بلڈ ٹرانسفیوزن اتھارٹی، پولیس سرجن سمیت مختلف اسامیوں پر لازمی طور پر ہیلتھ مینیجنمنٹ کیڈر گریڈ 20 کے ڈاکٹروں کو تعینات کیا جائے لیکن اس وقت محکمہ صحت میں سیاسی اثرورسوح، من پسند اور گریڈ 20 کے جنرل کیڈر ڈاکٹروں کی قواعد وضوابط کے خلاف تعیناتیاں جاری ہیں۔
سندھ کے بیشتر سرکاری اسپتالوں اور ضلعی صحت کے مراکز میں ہیلتھ مینیجمنٹ کیڈر کے بجائے جنرل کیڈر کے ڈاکٹر تعینات ہیں جبکہ بیشتر اسپتالوں میں جنرل کیڈر کے سربراہان تعینات ہیں، اندرون سندھ کے دو اضلاع کے علاوہ 28 اضلاع میں ہیلتھ مینجمنٹ کیڈر کے بجائے جنرل کیڈر 19گریڈ کے افسران تعینات ہیں جس کی وجہ سے شعبہ صحت کا انفرا اسٹرکچر شدید متاثر ہو رہا ہے۔
محکمہ صحت حکومت سندھ نے اپنے ہی قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے 24دسمبر 2024 کو سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال میں تعینات محکمہ صحت کے سینیئر ترین گریڈ 20 اور ہیلتھ مینیجمنٹ کیڈر کے افسر ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی کو بلاجواز ان کے اس عہدے سے ہٹا کر ایک ایسی جگہ تعینات کر دیا جہاں پبلک ہیلتھ کا کوئی شعبہ سرے سے موجود ہی نہیں اور محکمہ صحت حکومت سندھ نے ان کی جگہ گریڈ 19کے جونیئر ترین اور جنرل کیڈر کے ڈاکٹر آغا عامر کو تعینات کر دیا۔ ڈاکٹر آغا عامر گریڈ 19 کی سینارٹی لسٹ میں 140 ویں نمبر پر ہیں جبکہ ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی گریڈ 20 کی سینارٹی لسٹ میں 5ویں نمبر پر ہیں۔
محکمہ صحت نے ناتجربہ کار ڈاکٹر اسپتال کا ایم ایس بنا دیا جس کی وجہ سے اسپتال کا انتظامی امور شدید متاثر اور مریض کو حصول علاج میں دشواریوں کا سامنا بھی ہو رہا ہے۔ اسپتال میں گریڈ 19 کے موجودہ سربراہ کے ماتحت اسپتال میں گریڈ 20 کے افسر کام کر رہے ہیں جو کہ ایک المیہ ہے۔ اسپتال کے ایک افسر کے مطابق سندھ گورنمنٹ سعود آباد اسپتال میں غیر قانونی بلڈ بینک بھی قائم ہے جبکہ اسپتال میں مریضوں کو ادویات کی عدم فراہمی کی شکایات بھی مسلسل موصول ہو رہی ہیں۔
اسی طرح، سندھ گورنمنٹ نیو کراچی اسپتال کے ایم ایس گریڈ 20 کی اسامی پر گریڈ 19 جنرل کیڈر کے ڈاکٹر کو تعینات کر رکھا ہے جبکہ سندھ گورنمنٹ قطر اسپتال میں بھی جنرل کیڈر گریڈ 19 کے افسر کی تعیناتی ہے۔ سندھ گورنمنٹ ابراہیم حیدری اسپتال میں بھی جنرل کیڈر گریڈ 19 تعینات ہیں۔
اس وقت کراچی میں ضلع کورنگی کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر گریڈ 20 کی اسامی پر گریڈ 19 اور جنرل کیڈر کے ڈاکٹر کو تعینات کر رکھا ہے جبکہ ضلع جنوبی میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر راج کمار کو Expanded Program of Immunization میں پروجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا جس کے بعد یہ اسامی خالی پڑہی ہے۔ کراچی میں ضلع غربی میں بھی گریڈ 19 کے ڈاکٹر کو تعینات کیا گیا ہے۔
اسی طرح سندھ گورنمنٹ لیاقت اسپتال جامشورو میں گریڈ 20 کی اسامی پر 19 گریڈ جنرل کیڈر کے ڈاکٹر کو تعینات کر رکھا ہے۔ محکمہ صحت کے ایک افسر کے مطابق اندرون سندھ کے 28 اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران گریڈ 19 جنرل کیڈر کے تعینات ہیں، گریڈ 19 اور جنرل کیڈر ڈاکٹروں کی تعیناتیوں کی وجہ سے انتظامی امور درہم برہم جبکہ عوام کو پبلک ہیلتھ کی سہولتیں بھی کم ہو رہی ہیں۔
واضع رہے کہ محکمہ صحت میں ہیلتھ منیجمنٹ کیڈر رول 2022 سے قبل محکمے میں جنرل کیڈر گریڈ 20 کے افسر کو اسپتال کا سربراہ مقرر کیا جاتا تھا، ہیلتھ منیجمنٹ کیڈر ان افسران کو کہا جاتا ہے جو ایم بی بی ایس کے بعد ماسٹر آف پبلک ہیلتھ یا اسپتال منیجمنٹ ڈگری حاصل کی ہوئی ہو۔ ماسٹر آف پبلک ہیلتھ ڈگری کے حامل افسران اپنے اپنے ضلع میں کسی بھی ممکنہ وباء یا مختلف بیماریوں پر قابو پانے کے حوالے سے موثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بیماریوں سے نمٹنے اوربیماریوں کے تدارک اور ان کی روک تھام کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
کراچی سمیت سندھ کے عوام 12 مہینے مختلف بیماری اور وائرس کی زد میں رہتے ہیں، ہر مہینے کوئی نہ کوئی وائرس سر اٹھاتا ہے جبکہ مختلف اقسام کے انفیکشن اور موسمی بیماریاں بھی عام ہیں، عوام ان ہی غیر صحت مندانہ ماحول میں زندگی گرارنے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورت میں عوام مختلف بیماریوں کے ماحول میں رہتے ہیں۔
کراچی سمیت سندھ میں ڈینگی، ملیریا، غذائی قلت اور بچوں میں خسرہ ٹائفائیڈ سمیت دیگر بیماریاں عام ہیں، ان بیماریوں کا سدباب آج تک نہیں کیا جا سکا جس کہ وجہ نا تجربے کار افسران کی تعینایاں، سیاسی اور من پسند افسران کو انتظامی امور کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
ماہر صحت ڈاکٹر اکرم سلطان نے بتایا کہ اندرون سندھ عوام صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، اندرون سندھ کے اسپتالوں میں ناتجربے کار انتظامی افسران کی وجہ سے اسپتالوں میں ہر وقت متعدد مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ او اور اسپتال کا سربراہ ہیلتھ کسٹوڈین Health Custodian ہوتا ہے، ایسے افسران کو اسپتالوں اور ضلعی صحت کے مراکز میں تعینات کرنا چاہیے جو مختلف بیماریوں کی روک تھام اور صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے موثر حکمت عملی پر کام کرے۔
ماہر صحت نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران اپنے اپنے ضلع میں صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے اگر کوشش کریں تو صحت کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے صحت کے افسران کی کسی بھی بیماری کے خاتمے کے لیے کوشش نظر نہیں آتی اور نہ ہی کوئی مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے جبکہ عوام کی صحت کے نام پر ہر سال اربوں روپے بجٹ مختض کیے جاتے ہیں لیکن آج بھی اندرون سندھ کے اسپتالوں میں پیچیدہ امراض کے علاج کے لیے مریضوں کو کراچی لایا جاتا ہے۔
اندورن سندھ صحت کے مراکز اور اسپتالوں میں دوائیاں ناپید ہوتی ہیں، ہیلتھ کا کوئی میکینزم وہاں موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اندرون سندھ کے عوام حصول علاج کے لیے پریشان نظر آتے ہیں۔