WE News:
2025-04-21@23:58:11 GMT

ایسٹ ویسٹ اکنامک کاریڈور

اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT

امریکی تھنک ٹینک کی پاکستان انڈیا ایران پر مشتمل ایسٹ ویسٹ کاریڈور پر رپورٹ

ایسٹ ویسٹ کاریڈور سنٹرل ایشیا کے پانچ ملکوں قازقستان ، کریگیزستان ، تاجکستان ، ترکمانستان اور ازبکستان کو افغانستان ایران پاکستان اور انڈیا سے ملانے کا منصوبہ ہے ۔ اس ریجن کا لینڈ سائز 10 ملین (ایک کروڑ ) سکوئر کلومیٹر ہے ۔ یہاں 1 ارب 80 کروڑ لوگ رہتے ہیں ۔ اس ریجن میں انڈیا کا جی ڈی پی سائز 4100 ارب ڈالر ہے ۔ تاجکستان 12 ، کریگزستان 13 اور افغانستان 20 جی ڈی پی سائز کے ساتھ چھوٹے پارٹنر ہیں ۔

کاریڈور کی تعمیر سے سنٹرل ایشیا کے لینڈ لاک ملکوں کو ایران اور پاکستان کے ساحلوں تک رسائی حاصل ہو گی ۔ انڈیا کو پاکستان کے راستے ریل اور روڈ افغاستان کے علاوہ ایران اور آگے سنٹرل ایشیا سے ملا دیں گے ۔

سنٹرل ایشیا کے بے پناہ معدنی وسائل ( آئل ، گیس اور منرل ) انڈیا کی مینوفیکچرنگ اور پاکستان کے ٹریڈ نیٹورک سے جڑ جائیں گے ۔ ایران میری ٹائم گیٹ وے کا کام کرے گا ۔

رینڈ کارپوریشن 1948 میں قائم ہوا ایک نان پرافٹ گلوبل پالیسی تھنک ٹینک ہے جو سانتا مونیکا کیلیفورنیا میں بیس ہے ۔ ابتدائی طور پر یہ مستقبل میں ویپن سسٹم ڈویلپ کرنے پر کام کرتا تھا ۔ بعد میں اس نے اپنا سکوپ وسیع کرتے ہوئے ایجوکیشن ، ہیلتھ کئر ، انٹرنیشنل ریلیشن اور ٹیکنالوجی پر کام شروع کیا ۔ رینڈ پبلک پالیسی چیلینج فیصلہ سازی میں مدد کے لیے کام کرتا ہے ۔

رینڈ کارپوریشن نے اس پراجیکٹ پر ایک تحقیقی رپورٹ 20 فروری 2025 کو شائع کی ہے ۔ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے انڈیا پاکستان سے ماہرین کو شامل کیا تھا ۔ ان ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کاریڈور کی تعمیر میں معاشی مشکلات زیادہ نہیں ہیں ۔ جیو پولیٹکل پریشر ، بڑی طاقتوں کے تعلقات اور محاذ آرائی ، اس کاریڈور کے ممبر ملکوں میں اعتماد کا بحران ، دہشت گردی ، سیاسی عدم استحکام اصل بڑے چیلنج ہیں ۔

دونوں ملکوں کے ماہرین نے بڑی طاقتوں کی شمولیت ، اس سے حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی ، سرمائے اور سپورٹ کو بھی کم اہم قرار دیا ۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ان طاقتوں کو شامل کرنے سے زیادہ ان کو اثرانداز ہونے سے روکنا زیادہ اہم ہے ۔ بڑی طاقتوں سے یہاں مراد امریکہ یورپ روس اور چین ہی ہیں ۔

یہ کاریڈور اگر تعمیر ہو تا ہے تو یقینی طور پر سنٹرل ایشیا کے روس اور چین پر انحصار کو بہت کم کر دے گا ۔ پاکستان اور ایران کی معیشت کو گہرائی اور وسعت دے گا ، جبکہ انڈیا کو یورپ کی طرف آسان رسائی دینے کے علاوہ نئی مارکیٹوں اور سپلائی چین فراہم کرے گا ۔

نوٹ : ایسٹ ویسٹ کاریڈور دو ہیں ۔ گریٹر میکانگ سب ریجن ایسٹ ویسٹ کاریڈور تعمیر ہو چکا ہے ۔ یہ میانمار ، تھائی لینڈ ، لاؤس اور ویتنام کو ملاتا ہے۔ اس کاریڈور نے تھائی لینڈ اور ویتنام کا انڈسٹریل لینڈ سکیپ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔

انڈیا پاکستان کو ایران اور افغانستان کو سنٹرل ایشیا کے پانچ ملکوں سے ملانے والا ایسٹ ویسٹ کاریڈور الگ ہے ۔ اس کاریڈور بنانے کے لیے تحقیقی رپورٹ میں گائڈ لائین بھی دی گئی ہیں ۔ جن کے مطابق ممبر ملکوں کو

EWEC association (EWECA)

ان گائڈ لائین کے مطابق تمام نو ملکوں کو اک باختیار باڈی بنانی چاہئے ۔ جس میں ہر ممبر کا ایک ہی ووٹ ہو ۔ اس کا نام ایسٹ ویسٹ اکنامک کاریڈور ایسو سی ایشن ہونا چاہئے ۔ یہ ایسو سی ایشن با اختیار ہو اس کو وسیع اختیارات کے ساتھ ممبر ملکوں کے اندرونی اور بیرونی مسائل کے لیے رابطے کا کام کرنا چاہئے

۔ شارٹ ٹرم میں یہ ایسو سی ایشن اعتماد سازی ، اتفاق رائے اور فیصلہ سازی کا کا کام کرے ۔ایسوسی ایشن ایسا گورننس سٹرکچر جو اتفاق رائے قائم کرے اور بڑھائے اس پر کام کرے ۔ یہی ایسو سی ایشن بڑی طاقتوں کے ساتھ بھی روابط بڑھانے کا کام کرے ۔ ابتدائی طور پر صرف ان پراجیکٹ پر کام کرنا چاہئے جن پر اختلاف نہ ہوں ۔

اگر ایک امریکی تھنک ٹینک ایسٹ ویسٹ کاریڈور پر کام کر رہا ہے ۔ تو اس میں اشارے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہمارا ریجن آئندہ کس انداز میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔ دنیا ہمارے خطے کے پوٹینشل بارے حساب لگا لگا کر تھک رہی ہے ۔ خود خطے کے ممالک اک دوسرے سینگ پھنسانے میں ہی خوشی اور جوش محسوس کرتے ہیں ۔ ایسی تحقیقاتی رپورٹیں بیچاری کیا بیچتی ہیں ۔ ہماری ترقی کرنے کی نیت ہو بھی تو ہمیں شریکوں کی ٹانگ کھینچنے اور ان کے سامنے چوڑا ہو کر پھرنے میں جو سواد آتا ہے ۔ وہ سواد ترقیوں میں بھلا کہاں ملے گا ۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

ایران ایسٹ ویسٹ اکنامک کاریڈور پاکستان وسی بابا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایران پاکستان سنٹرل ایشیا کے ایسو سی ایشن اس کاریڈور بڑی طاقتوں پر کام کر کے ساتھ کام کرے کا کام کے لیے

پڑھیں:

ایران کا جوہری پروگرام(3)

اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا

مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"

اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔

امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"

اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے

اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔  
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔

اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"

ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔

مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟

متعلقہ مضامین

  • فصلوں کے لحاظ سے یہ بہت ہی خراب سال ہے، اسد عمر
  • وزیراعظم شہباز شریف کل ترکیہ کا دورہ کریں گے، صدر اردوان سے ملاقات شیڈول
  • ٹیرف کے اعلان کے بعد تجارتی معاہدے پر مذاکرات، امریکی نائب صدر کا دورہ انڈیا
  • ویمنز ورلڈکپ کوالیفائر میں ناکامی پر ویسٹ انڈین کپتان مایوس
  • ایران امریکا مذاکرات
  • حیدرآباد انڈیا میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف انسانی سروں کا سمندر امڈ پڑا
  • پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)
  • دنیا کے ساتھ چلنے کے لئے اکنامک ریفارمز کی ضرورت ہے،احسن اقبال
  •  سعودی عرب اور ایران کے مضبوط ہوتے تعلقات پوری امت کے لیے خیر اور اطمینان کا پیغام ہیں، لیاقت بلوچ