ٹرمپ نے زیلنسکی کو ایک بار پھر دھمکی دے دی
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کر رہے ہیں اور انھوں نے اسی کے ساتھ یوکرینی صدر پر زور دیا ہے کہ یوکرین کے نایاب معدنی ذخائر تک امریکی کمپنیوں کی دسترسی کے معاہدے پر دستخط کردیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معدنی حقوق امریکا کو واگزار کرنے کا معاہدہ نہ کرنے کے حوالے سے یوکرینی صدر کو ایک بار پھر سخت انتباہ دیا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے یوکرینی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی نے یوکرین کے معدنی حقوق امریکا کو سونپنے کے معاہدے میں لیت و لعل سے کام لیا تو انہیں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کر رہے ہیں اور انھوں نے اسی کے ساتھ ولادیمیر زیلنسکی پر زور دیا ہے کہ یوکرین کے نایاب معدنی ذخائر تک امریکی کمپنیوں کی دسترسی کے معاہدے پر دستخط کردیں۔
ٹرمپ نے اپنے ایئر فورس ون جیٹ طیارے میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ " میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ یعنی زیلنسکی، زمین میں دفن معدنیات کے اس نایاب ذخائر کو امریکا کے حوالے کرنے کے معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ اگر زیلنسکی ایسا کریں گے تو انہیں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ بڑے بڑے مسائل ہوں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکی صدر یوکرین کے کے معاہدے
پڑھیں:
ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔
ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔
افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
بڑے پیمانے پر احتجاج:
ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔